سندھ میں نیب کے سابق سربراہ
جسٹس (ر)دیدار حسین شاہ کی برطرفی کیخلاف ہونے والی ہڑتال کا عدالت عظمیٰ
نے نوٹس لے لیا ہے۔اس ہڑتال کے دوران 7افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ
بیسیوں زخمی اور قیمتی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور وجہ
یہ بتائی گئی کہ ہمیں سپریم کورٹ کا یہ حکم قبول نہیں یوں سندھ میں تعصب کو
ہوا دی گئی جو کہ انتہائی سنگین عمل تھا۔سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا نوٹس
لیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں ہڑتال کر کے عدالت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور
یہ صحیح ہے کہ اگر خود حکمران جماعت ہی اپنے ایک ادارے کو آزادانہ اور
قانون کے دائرے کے اندر کام نہیں کرنے دیگی تو باقی ادارے کیسے خوش اسلوبی
سے کام کر سکیں گے جبکہ عدلیہ تو ویسے بھی آئین ودستور کا محافظ ادارہ ہے۔
ان حالات میں سندھ اسمبلی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے شرجیل میمن اور
پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل تاج حیدر کی عدالت عظمیٰ میں طلبی خود
آئین و قانون کی بالادستی کی علامت ہے کہ عدالتیں بغیر کسی تفریق کے کسی کو
طلب کر سکتی ہیں ایسے معاملے میں بجائے سپریم کورٹ کے اس اقدام کی تعریف کی
جائے الٹا وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سندھ کا میدان چھوڑ کر جب یکم
اپریل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر آئے تو وہ اپنے ساتھ وہ زبان بھی
لائے جو ”میڈیا فگر“ بننے کے لئے خوب کام آتی ہے اور اس بار موصوف کا
فرمانا تھا کہ اگر دو ارکان کو سزا سنائی گئی تو پوری سندھ اسمبلی جیل جائے
گی آخر یہ کون سی جمہوریت ہے اور یہ کون سا احتجاج ہے جہاں سندھ کے رائے
دہندگان کے مسائل حل کرنے اور جمہوریت ریت کو مضبوط کرنے کی بجائے روایتی
زور زبردستی کی سیاست پر سارا زور لگایا جا رہا ہے ۔یہ درست ہے کہ مرزا
صاحب ایک جج کے فرزند ہیں لیکن اس سلسلے میں ان کی جانب سے عدالتوں کا
احترام زیادہ ہونا چاہیے تھا کجا یہ کہ وہ عدلیہ کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں ادھر
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ
سندھ میں ہڑتال پر اکسانے والوں کا تعین کیا جائے نیز جانی و مالی نقصان کا
ازالہ کیا جائے۔توہین عدالت پر 60دن کی مہلت نہیں دی جا سکتی 25اپریل تک
جواب داخل کرایا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ پی پی سندھ اس معاملہ کے ساتھ
کتنا انصاف کر پاتی ہے اور اگر ان دونوں نمائندوں پر توہین عدالت کی ڈگری
ہو جاتی ہے تو6ماہ قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے جبکہ سزایافتہ شخص کسی عوامی
عہدہ کیلئے بھی اہل نہیں رہتا۔
کراچی میں گزشتہ ہفتہ بھی امن و امان کی صورتحال خراب رہی اور مختلف دنوں
کے مختلف لمحوں میں انسانی خون کراچی کی سڑکوں پر بہتا رہا اگرچہ 28 مارچ
کو اہم ” ٹارگٹ کلر“اجمل پہاڑی کو گرفتار کیا گیا تاہم ہفتہ بھر میں پر
تشدد واقعات ہوتے رہے 30مارچ کو شہر کے مختلف واقعات میں فائرنگ سے وزیر
بلدیات آغا سراج درانی کے چیف سیکورٹی آفیسر عمران جنگی،امام بار گاہ کا
متولی اور ایک مسجد کا پیش امام قتل کر دیئے گئے۔عمران جنگی ،مقتول خالد
شہنشاہ کا سیکورٹی گارڈ بھی رہ چکا تھا جبکہ خالد شہنشا ہ کی کہانی ہم سب
کو معلوم ہے۔ادھر وزیر موصوف نے اپنے ایک اہم ساتھی کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ عمران جنگی کا قتل مجھے دھمکانے کی کوشش ہے۔اس روز فائرنگ کے
دیگر واقعات میں 45افراد زخمی ہوئے جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اس سے چند دن
قبل کہہ چکے ہیں کہ امن کے قیام کیلئے تھانوں کی سطح پر پولیس اور شہریوں
کی کمیٹیاں بنائی جائیں مقام افسوس ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے
فرائض سے عہدہ براء نہیں ہو رہے اور عوام کو محض طفل تسلےوں سے مطمئن کرنے
کی کوشش کی جا رہی ہے۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے 2ماہ قبل کراچی
چیمبر میں قائم ایف آئی اے کے کرائسسز مینجمنٹ سیل کو بند کروا دیا تھا اور
اس پر اعتراض یہ کیا جا رہا تھا کہ تاجروں کے امن وامان کے حوالے سے مسائل
پر سیل مناسب طور پر کام نہیں کر رہا جب کراچی بھر میں ایک خصوصی سیل صرف
تاجر برادری کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو گیا تو تھانے اور امن
کمیٹیاں کیا کردار ادا کر پائیں گی؟۔
کراچی میں بھتہ خوری عروج پر پہنچ چکی ہے۔پرچیوں نے ہر مارکیٹ اور ہر دکان
کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ٹیلی فونز سے بھی تاجر طبقہ پریشان ہے کہ فلاں
تاریخ کو اتنی رقم تیار رکھو یا فلاں شخص کے حوالے کر دو اس سنگین صورتحال
پر جبکہ پہلے ہی کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔کراچی کے تاجر گزشتہ ہفتہ
سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج ریکارڈ کروایا ان تاجروں کا بھی کہنا تھا کہ
کراچی شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے جبکہ تاجروں نے 5اپریل کو بھتہ خوری
کیخلاف ہڑتال کا اعلان کر دیا ادھر صدر مملکت نے بھتہ خوروں کے حوالے سے
فوری رپورٹ طلب کر لی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں تاجروں نے بھتہ
مافیا کیخلاف جو آواز حق بلند کی ہے وہ کیا انقلاب لاتی ہے ؟ |