ریاست ماں کی طرح مہربان ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ
اس میں بسنے والے افرادا س کے لئے اولاد جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔ شاید یہی
وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر دھرتی کو ماں دھرتی کہہ دیا جاتا ہے۔ جس مٹی سے
انسان کا خمیر اٹھا ہو اسے ماں کے سوا اور کہا بھی کیا جا سکتا ہے ؟
ہمارے یہاں یہ بات عموماً کہی جاتی ہے اور اسے لوک دانش کا درجہ حاصل ہے کہ
زمین ماں ہے اور ا اس کا سودا کرنے والے کبھی ساوے نہیں ہوتے (خوشحال )نہیں
ہوتے اور سرمایا سووا(ضائع) ہو جاتا ہے۔
ایک وقت تھا لوگ جتنی زمین خود کاشت کر پاتے کرتے باقی جوں کی توں پڑی رہتی
کہ ٹھیکے پر دینا انکے نزدیک ایک انتہائی معیوب بات تھی۔
اچھی یا بری یہ تو کل کی باتیں ہیں کہ نام نہاد ترقی جنھیں کب کا نگل بھی
چکی۔
اب تو زمین زادے اسے بیچتے بھی ہیں،گروی بھی رکھ چھوڑتے ہیں اور ٹھیکے پر
دینے سے بھی نہیں چوکتے ، پر بھوک ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔
بات دھرتی ماں سے چلی تھی تو عرض ہے کہ یہ ماں سے بھی بڑھ کر اپنے بچوں کا
خیال رکھتی ہے۔ اور تو اور جب زمینی سارے رشتے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو یہ
زمیں ہی تو ہوتی ہے۔
جو ہمیں نہ صرف اون کرتی ہے بلکہ اپنی آغوش میں چھپا بھی لیا کرتی ہے۔
روح سے محروم جسم کی اس سے بڑھ کر تکریم ممکن ہی نہیں ۔جبھی تو اکثر مذاہب
میں قبر کھود کر میت کو دفن کر دینا ہی بہترین طریقہ گردانا گیا ہے۔
ریاست فلاحی کیوں نہ ہو کہ ماں سے بڑھ کر اپنی اولاد کی صلاح و فلاح کی فکر
اور کسی کو ہو بھی کیسے سکتی ہے؟
وہی ماں جو زمان و مکان سے ماورا ایک رشتہ ہے۔
ایک ایسا بندھن جس پر شک کیا جائے تو پھر کوئی بھی رشتہ اعتبار کے قابل
نہیں رہتا۔
جو اگر زندہ ہو تو سر جھکتا ہے، نہ رہے تو دل۔
فلاحی ریاست کے ضمن میں یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ جناب رسالت مآب ۖ
نے بھی مدینے میں ایک اسلامی فلاحی ریاست ہی کی داغ بیل ڈالی تھی اور حسنِ
اتفاق دیکھئے کہ یہ ریاست بھی اسی مقصد کے تحت معرضِ وجود میں آنے والی
دنیا کی سب سے بڑی ریاست ہے
اور مزے کی بات یہ کہ موجودہ حکومت بھی اسے ریاست مدینہ بنانے کی دعویٰ دار
ہے ۔
ویسے کوئی ریاست اگر فلاحی کے سابقے سے عاری ہے تو اسے کسی بھی طور ریاست
نہیں کہا جا سکتا۔ تب اسے ماں سے نسبت دینا بھی جائز نہ ہوگا۔
ماں کی طرح دھرتی ماں اپنے سینے پر اپنے بچوں کو کھلاتی ،لاڈاٹھاتی اور
سلاتی نہیں تو وہ ماں کیونکر ہو سکتی ہے۔
کسی بھی ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر باشندے کے بنیادی
انسانی حقوق کا ہر ممکن خیال رکھے۔ایک ریاست کے فرائض اور اس میں بسنے والے
ایک عام آدمی کے حقوق کی فہرست کو جتنا بھی مختصر کیا جائے،ان چند باتوں کی
گنجائش تو یقینا نکل آئے گی ۔یعنی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت،صاف پانی کی
ترسیل،تعلیم وصحت اور فوری انصاف کی بلا تعطل فراہمی اور ایک ایسے سماج کی
تشکیل کہ زندگی کے بنیادی لوازمات تک رسائی کسی بھی فرد کیلئے ہرگز ہرگز
دشوار نہ ہو۔ان چیزوں کی بلا تعطل فراہمی یقینا بہتر طرز حکمرانی کی علامت
سمجھی جاتی ہے ۔
ان اسباب کی فراہی جن معاشروں میں جتنی بہتر ہوتی ہے اسی تناسب سے اسے ترقی
یافتہ اور مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں جتنی کوتاہی برتی جائے
اتنا ہی ان معاشروں کو پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان
معاشروں میں جنہیں دنیا ترقی یافتہ کہہ کر پکارتی ہے ،بنیادی انسانی حقوق
کی فراہمی صرف چند مرکزی شہروں تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کا دائرہ کار ملک کے
ایک کونے سے دوسرے کونے تک یکساں طور پر پھیلا دیا جاتا ہے اور یوں دیہی و
شہری زندگی میں سہولیات کے تفاوت کو کم سے کم کرتے ہوئے مائیکرو لیول پر
ترقی کے ثمرات پہنچا کر دیہی آبادی کو ایک تو احساس کمتری سے بچایا جاتا ہے
اور دوسرا شہری آبادی کی طرف اس نقل مقامی کو روکا جاتا ہے۔
جو سہولتوں کے فقدان کے باعث دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف عموماً
دیکھنے کو ملتی ہے ۔یوں شہروں میں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کے رحجان کو کم
از کم رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔اس طرح ملک میں محرومیوں اور اس کے سبب سے
پیدا ہونے والی نفرتوں کو بڑھنے سے امکان بھر روکا جا سکتا ۔اس حوالے سے
ہمارے یہاں کی حکومتوں کا کردار انتہائی گھناؤنا ہے۔
کیا پسماندہ علاقوں کا سرمایا کسی ایک شہر پر لگا دینا کرپشن نہیں ہے؟کیا
حکومتی چھتری تلے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کرپشن کے دائرے میں نہیں آتی
؟
ذرا تصور کیجئے کہ ایک گھر میں موجود افراد بھوک اور بیماری کے سبب سر
جھکائے بیٹھے ہوں اور اسی گھر کا ایک فرد گھر کے پیسے سے خریدی، چمکتی ہوئی
نئی نویلی گاڑی سے اس حالت میں برآمد ہو کہ اس کے جسم پر قیمتی لباس اور
ہاتھ میں پارسل کیا ہوا پر تکلف کھانا ہو۔ جس کی مہک پورے گھر میں پھیل
جائے اور وہ” بے دید” ان سب کے سامنے ہی اسے چٹ کر جائے ،تو ایمانداری سے
بتائیے گا کہ ان دل گرفتہ و ستم رسیدہ اہلخانہ کی قلبی کیفیت کیا ہوگی؟
اب ان شریف لوگوں کو کون سمجھائے کہ جب وسائل کی بندر بانٹ ہوتی ہے تو
پسماندہ علاقوں کی عوام میں احساس محرومی بڑی تیزی سے بڑھتا ہے، نفرتوں کی
خلیج گہری سے گہری ہوتی جاتی ہے ،ملکی وحدت کا تصور پارہ پارہ ہونے لگتا ہے
اور تقسیم در تقسیم کے عمل کی تیزی سے، وطن دشمن عناصر کی نہ صرف حوصلہ
افزائی ہوتی ہے بلکہ انہیں ملک میں انتشار پھیلانے کا نادر موقع بھی ہاتھ
آتا ہے۔یوں ایک فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی بجائے شرمندہ
شرمندہ سا دکھائی دینے لگتا ہے۔اس حوالے سے غور کیا تو یہی خیال آیا جب
بندر بانٹیں تو دولت نہیں انسان تقسیم ہوتے ہیں۔
|