ترکی نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ داعش میں جانے
والے گرفتار جنگجوؤں کو واپس لیں جنگجوؤں کو واپس بھی بھیجنا شروع کردیا ۔
یورپی ممالک اس وقت داعش میں جانے والے اپنے اُن شہریوں کی شہریت منسوخ
کرچکا ہے جو شام میں داعش کی شکست کے بعد گرفتار ہوئے ۔واضح رہے کہ ترکی و
روس ایک معاہدے کے تحت مشترکہ طور پر پیس اسپرنگ آپریشن کے بعد گشت کررہے
ہیں ۔ ترکی نے 3.6ملین مہاجرین کے لئے سیف زون بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ جس
کے بعد کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن میں پہلے امریکا اور بعد ازاں روس سے
معاہدے کے بعد عارضی جنگ بندی ہوئی اور کرد جنگجو ملیشیاؤں نے ترکی کے
سرحدی علاقے خالی کردیئے جس پر اب ترکی کا قبضہ ہے ۔ ترکی فوجی آپریشن میں
سب سے زیادہ خدشات اس بارے میں ظاہر کئے گئے تھے کہ اس جنگ کے پھیلاؤ سے
گرفتار داعش کے جنگجو دنیا بھر میں پھیل جائیں گے ۔ جس سے داعش کے خلاف جنگ
میں کامیابی مستحکم نہیں رہ سکے گی ۔ یہی وہ ڈر تھا جس نے امریکا اور روس
کو مجبور کیا کہ ترکی کو آگے بڑھنے سے روکیں ۔ ترکی نے سمجھداری کا مظاہرہ
کیا اور شام کی سرحدی علاقوں میں روس کے ساتھ مشترکہ گشت و حفاظت کے لئے
ایک معاہدے پر کاربند ہوا ۔ پینٹاگان میں داعش کو شکست دینے کی ٹاسک فورس
کے سربراہ، کرس مائر نے اعتراف کیا کہ ’’معاملہ تسلی بخش نہیں ہے۔ شمال
مشرقی شام میں جیل افواج کے کنٹرول میں نہیں ہیں، جن میں دولت اسلامیہ کے
10000جنگجوؤں کو بند رکھا جا سکے‘‘۔ترکی پہلے بھی کہہ چکا تھا کہ وہ داعش
کے دہشت گردوں یا ان کے خاندانوں کا جواب دہ نہیں ہوگا ۔ترک وزیرداخلہ
سلیمان سوئلو کا کہنا ہے کہ ’ہم انہیں آخر وقت تک اپنے پاس نہیں رکھنے جا
رہے‘۔ ’ہم داعش کے لیے ہوٹل نہیں ہیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ترکی داعش کے
غیر ملکی جنگجوؤں کو کچھ عرصہ اپنے پاس رکھے گا اور اس کے بعد انہیں آبائی
ملکوں میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں
(یورپی یونین) نے ایک آسان حل تلاش کیا اور کہا کہ ’ہم نے داعش کے غیر ملکی
جنگجوؤں کی شہریت چھین لی ہے۔ اب یہ آپ کا مسئلہ ہے‘۔’ہمارے خیال میں یہ
ناقابل قبول ہے۔ یہ مکمل طور پر غیر ذمہ داری ہے‘۔ واضح رہے کہ شام کے
حراستی جیلوں میں دوہزار داعش جنگجو قید ہیں ۔ اس کے علاوہ کیمپوں میں زیر
نگرانی غیر ملکی 8ہزار خواتین اور چار ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
ترکی کے لئے 3.6ملین مہاجرین کا سنبھالنا پہلے ہی معاشی مشکلات کا سبب بنا
ہوا ہے ایسے میں ہزاروں داعش کے جنگجوؤں اور ان خاندانوں کی ضروریات زندگی
کو پورا کرنا ،دشوار و دقت طلب عمل ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ
برائے مہاجرین داعش جنگجوؤں کے خاندانوں کی بدترین صورتحال کی ضروریات کو
پورا کرنے میں ناکامی کا شکار ہے۔ شام کی کیمپ جیلوں میں داعش اور ان کے
اہل خانہ بدترین غذائی کمی کا شکار ہیں ، بچے غذائی قلت سمیت مہلک بیماریوں
میں مبتلا ہیں۔ یورپی ممالک سے داعش جنگجوؤں کے ساتھ تعلق بنانے والے شہری
شکست کے بعد واپس آبائی ممالک جانا چاہتے ہیں ، لیکن یورپی ممالک اپنے
شہریوں کو واپس لینے میں تاخیری حربے استعمال کررہا ہے۔ داعش سے وابستہ
یورپی جنگجوؤں شہریوں کا خیال ہے کہ ان کے ممالک انہیں سزا بھی دیں تو کم
ازکم حراستی کیمپوں کے بدترین ماحول سے باہر نکل کر اپنی زندگیاں بچا سکیں
گے ۔ لیکن یورپی ممالک سخت خوف زدہ ہیں کہ اگر داعش کے اہل خانہ یا شہری
واپس اپنے ممالک آگئے تو اپنے نظریات سے دیگر لوگوں کو بھی متاثر کرسکتے
ہیں۔ جس سے ان کی حکومتوں کو مستقبل میں خطرات لاحق ہونگے اس لئے داعش کے
سخت گیر موقف و متشدد رویئے سے تائب ہونے والے یورپی شہریوں کو بھی اُن کے
ممالک قبول نہیں کررہے۔ دوسری جانب ترکی کو یورپی یونین کے ساتھ کئے گئے
ایک معاہدے کے عمل پیرا ہونے کے بعد مہاجرین کے لئے بدترین صورتحال کا بھی
سامنا ہے ۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق یورپی
یونین ترکی کے راستے یونان پہنچنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھیجنے
کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن یونانی اداروں میں ملازمین کی کمی کی وجہ سے سیاسی
درخواستوں پر کام انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔یورپی کونسل کی کمشنر
برائے انسانی حقوق نے یونان میں مختلف مہاجر کیمپوں کا دورہ کر کے وہاں
مقیم مہاجرین کی صورت حال کو انتہائی خوفناک قرار دیا۔ دوسری جانب یونان
سیاسی پناہ کے ملکی قوانین مزید سخت بنانے کا سوچ رہا ہے۔
امریکا ایک کاروائی میں بالاآخر داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو ہلاک کرنے
میں( بظاہر) کامیاب ہوگیا ہے ۔ اس سے قبل پانچ مرتبہ ابو بکر بغدادی کے
مارے جانے کے دعوے کئے گئے تھے لیکن داعش کے سربراہ اچانک نمودار ہوکر اپنی
ہلاکت کے دعوؤں کو جھوٹا ثابت کردیتا تھا ۔ لیکن اس بار داعش نے اپنے
سربراہ کے ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابو بکر بغدادی کے جانشین کا بھی اعلان
کردیا ہے۔ یہ بات قابل حیرانگی ہے کہ اس بار بھی امریکا نے ابوبکر بغدادی
کی نعش سامنے لانے کئے بجائے سمندر برد کرنے کے عمل کو دوہرایا ، اس سے قبل
اسامہ بن لادن کی نعش کے ساتھ بھی یہی عمل کیا گیا تھا۔داعش کے سربراہ کی
ہلاکت اور مسلسل شکست کے بعد داعش کے پیروکاروں کا شیرازہ بکھر چکا ہے لیکن
یہ شیرازہ دراصل چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہوکر دنیا کے کئی ممالک کے
لئے شدید خطرات کا سبب بنتا جارہا ہے۔ یورپی ممالک اپنے شہریوں کو واپس نہ
لے کر، دراصل ان خطرات کو مسلم اکثریتی ممالک تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے ۔
اس لئے اپنے شہریوں کو قبول نہ کرنے روش سے مسلم اکثریتی ممالک کو بھی
مسائل درپیش ہیں کیونکہ داعش ایک سخت گیر تنظیم ہے اور اس کے پیروکاروں کے
نظرہات انتہائی متشددانہ ہیں اس لئے ان کو عام زندگی میں واپسی لانے کا عمل
کے لئے طویل و صبر الزما وقت درکار ہے۔ چونکہ یورپی ممالک داعش کے فتنے کو
صرف اسلامی ممالک کی پیداوار سمجھتے ہیں اس لئے وہ داعش سے وابستہ کسی رکن
کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب کہ مسلم اکثریتی ممالک بھی اپنے شہری
داعش کے جنگجوؤں کی دوبارہ واپسی سے سخت خوف زدہ رہتے ہیں۔
امریکا پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ داعش کو بنانے میں سی آئی اے کا ہاتھ
رہا ہے عراق کے قدرتی و معدنی وسائل پر قبضے کے لئے داعش کو جنم دینے میں
امریکا نے اہم کردار ادا کیا ۔ تاہم دوسری جانب عالمی برداری کے سامنے
امریکا کا دوہرا معیار بھی ہے ۔ ستمبر2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ
دھمکی دہرائی تھی کہ وہ پکڑے گئے داعش کے جنگجوؤں کو یورپ کی سرحد پر چھوڑ
دیں گے، اگر یورپی ممالک اپنے تمام غیر ملکی عسکریت پسندوں کو واپس لینے سے
انکار کا رویہ نہیں بدلتے۔فروری میں یہ ٹوئیٹ کرنے کے بعد کہ داعش کی خلافت
’’ختم ہونے لگی ہے‘‘، صدر نے پکڑے گئے جنگجوؤں کو واپس لینے سے انکار پر
اتحادیوں کو خبردار کیا تھا۔دہشت گرد گروپ کے لیے داعش کا لفظ استعمال کرتے
ہوئے، انھوں نے تحریر کیا تھا کہ ’’امریکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر
یورپی اتحادیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ دولت اسلامیہ کے 800 سے زائد
جنگجوؤں کو واپس لیں جنھیں شام میں پکڑا گیا ہے، اور ان پر مقدمات چلائیں۔
اس کا متبادل بہتر نہ ہوگا، چونکہ ہم انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوں
گے‘‘۔امریکہ کے حالیہ اندازوں کے مطابق، اتحاد کی حمایت یافتہ ’سیرئن
ڈیموکرٹیک فورسز‘ (ایس ڈی ایف) نے شام کے شمال مشرقی علاقے کے قیدخانوں میں
2000سے زائد غیر ملکی جنگجوؤں کو قید کر رکھا ہے، جنھیں شام اور عراق میں
دولت اسلامیہ کے دیگر جنگجوؤں کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ ۔ اب شام میں آئل
تنصیبات کی حفاظت کے نام پر امریکا ایک بار پھر عراق کے راستے شام میں داخل
ہوچکا ہے ۔ گوکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ داعش و جنگجو ملیشیاؤں سمیت ایران
کو ان تنصیبات سے دور رکھنا چاہتا ہے ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عراق و
افغانستان میں امریکا کا جو کردار رہا ہے ، اس کے بعد امریکا کے اس بیانیہ
پر کوئی سنجیدہ ملک یقین کرنے کو تیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں یہ
علم ہے کہ مشرق وسطی کی جنگ قلیل المدت نہیں ہوتی اس لئے طویل المدتی جنگ
سے بچنے کے لئے وہ گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ یورپی ممالک کے اس رویئے
کے وجہ سے ہی امریکا ، مشرق وسطی میں اپنی مداخلت کو تاریخ کی سنگین غلطی
بھی قرار دیتا ہے لیکن مشرق وسطی سے اسرائیل کی حفاظت کے پیش نظر نکلنا بھی
اس کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ ایک جانب وہ عرب ممالک سے اپنے اخراجات پورے کرنے
کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسری جانب عرب ممالک کو تنازعات میں الجھا کر کرائے
کے فوجیں بھیج کر اپنے اخراجات کم کرتا ہے ۔ اس طرح امریکا دوہرا معیار
اپناتے ہوئے دوہرا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس وقت امریکا تیل کی تنصیبات کی
حفاظت کے نام پر شام میں پھر رک گیا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب داعش سے وابستہ اپنے شہریوں کو واپس لینے
میں تاخیر ی حربوں سے دنیا بھر میں داعش کے جنگجو دہشت گردوں کے پھیلنے کے
امکانات بڑھنے کے خدشات موجود رہیں گے ۔ بد امنی کا شکار مملکت شام میں
داعش کے جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کو زیادہ وقت کے لئے اسیر رکھنا ممکن
نہیں ہے۔ شام میں امن کی صورتحال بدترین ہے ۔ مختلف جنگجو ملیشیاؤں کو اپنے
زیر قبضہ علاقوں میں تسلط برقرار رکھنے کے لئے ایسے جنگجوؤں کی ضرورت رہتی
ہے جن کا کوئی وطن ٹھکانہ نہ ہو۔ اسی طرح ایسی قوتیں بھی اس قسم کے جنگجوؤں
کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں جنھیں دنیاوی لالچ دے کر کوئی بھی
کام کرویا جا سکتا ہے ۔ شام کے قید خانوں میں ایک ایسی نسل بھی پروان چڑھ
رہی ہے جو کسی یورپی یونین کے شہری نہیں بلکہ عرب ممالک میں خانہ جنگیوں کی
وجہ سے داعش میں شامل ہوئے لیکن اب صورتحال وقتی طور پر تبدیل ہونے کے بعد
ان کا اپنا مستقبل تاریک ہے ۔ لیکن ہزاروں قیدیوں کو موت کے گھاٹ نہیں
اتارا جاسکتا ۔ سزائیں دے کر رہا بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں اپنی موت آپ
مرنے کے لئے ایسی صورتحال کا شکار ضرور بنایا جاسکتا ہے جس میں ان کا کوئی
پرسان حال نہ ہو اور عبرت ناک موت کا شکار ہوتے چلے جائیں لیکن اس قسم کی
صورتحال ہمیشہ قائم نہیں رہتی ۔ خطے میں جس تیزی سے صورتحال تبدیل ہوتی
رہتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
|