جب مسلمان کانگریس میں رہتاہے تو وہ مسلمانوں کا قائد بن
جاتاہے ، جب مسلمان کسی اور نام نہاد سیاسی پارٹی کا حصہ بنتاہے تو وہ
مسلمانوں کا سیکولر لیڈر بن جاتاہے اور جب مسلمان کانگریس اور جے ڈی یس و
یس پی جیسی پارٹی کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوتاہے تو وہ غدار بن
جاتاہے اور جب مسلمان مجلس اتحاد المسلمین ، ویلفیرپارٹی یا پیس پارٹی میں
شامل ہوجاتاہے تو وہ مسلمان بی جے پی کاایجنٹ بن جاتا ہے اور جب کوئی سنگھ
پریوار کا لیڈر کانگریس یا کسی سیکولر سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتاہے تو وہ
سنگھی اچانک سیکولر بن جاتاہے ۔ جب کوئی مسلمان کسی مسلم قیادت والی سیاسی
پارٹی کو قائم کرنا چاہتا ہے تو سیدھے سیدھے الزام لگادیا جاتاہے کہ ضرور
وہ سیکولر ووٹوں کو توڑنے کے لئے نئی پارٹی بنارہاہے ۔ یہ سوچ ، یہ فکر اور
یہ المیہ ہے مسلم سماج کا اور یہ فکر ہے انکی محدود جس سے باہر نکل کر وہ
سوچنا ہی نہیں چاہتے ۔ ہندوستان کی پارلیمان میں مسلمانوں کے کسی مسئلے پر
بحث کرنے والاکوئی شخص ہے تو وہ اسد الدین اویسی اور انکے علاوہ کوئی اور
شخص نہیں ۔ جس اسدالدین اویسی کو حیدرآباد تک ہی رہ کر سیاست کرنے کا
مشورہ مسلمانوں کے ہی ایک عالم دین اور خود ساختہ امیر ملت نے دیا تھا وہی
اسد الدین اویسی کشمیر سے لے کر کنیہا کماری تک کے مسلمانوں کے درد کی
آواز بن رہے ہیں اور وہی اسدالدین اویسی بابری مسجد کے فیصلے کو ماننے سے
انکار کرتے ہوئے دی جانے والی خیرات کو ٹھکرا رہے ہیں ۔ ایسے میں سوچئے کہ
مسلمانوں کا لیڈر کون ہے اور کو ن ہوسکتاہے ؟۔ہم مسلمان کبھی مضبوط سیاسی
سوچ کو لے کر آگے کیوں نہیں نکلنا چاہتے ؟ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ
مسلمانوںنے آزادی کے بعد سے کانگریس کا دامن چھوڑ کر کسی اور سیاسی پارٹی
کو جنم نہیں دیا یا کسی اور سیاسی پارٹی میں اپنی قیادت کو مضبو ط نہیں کیا؟۔
جس وقت ملک کی تقسیم ہورہی تھی اس دوران مولاناابوالکلام آزاد نے مسلمانوں
کو نصیحت کی تھی کہ وہ مذہب کے نام پر بنائے جانے والے ملک کا حصہ نہ بنیں
بلکہ جس ملک کو آزاد کرانے کے لئے انکے آباواجداد نے اپنے جان و مال کی
قربانی دی ہے اس ملک میں ہی رہیں اور اس ملک میں انہیں سیاسی ، سماجی اور
معاشی آزادی دوسری قوموں کے برابر دی جائینگی ، مولانا آزاد نے اپنی
تقریر میں جو کچھ کہا تھا وہی باتیں آئین میں بھی آئی ہیں لیکن ہند کے
مسلمانوں نے اس سرزمین پر اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے کے بجائے کانگریس
اور کچھ خود ساختہ سیاسی جماعتوں میں اپنی چمچہ گری کو ثابت کرتے ہوئے
سیکولرزم کے معنی کانگریس کے بنادئےجبکہ کانگریس نے اس ملک کے مسلمانوں کو
کیا دیا اور کونسے مسلمانوںنے کانگریس سے فائدہ اٹھایا اسکی فہر ست لمبی
ہوتی جارہی ہے ۔ ملک کے مسلمانوں کا بڑا حصہ اب غلامی سے آزادی چاہتاہے
اور یہ غلامی سیاسی و ذہنی غلامی ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کو کچھ محدود وقت
تک استعمال تو کیا جارہاہے اور مسلمان ان سیاسی پارٹیوں میں کولیوں کی طرح
دن رات محنت کررہے ہیں لیکن ماحاصل کچھ بھی نہیں ہے ۔ آج ملک میں مسلمان
جن حالات سے گزر رہے ہیں ان حالات کے تعلق سے ہر کوئی فکر مند ہے لیکن ان
کی فکر محض سوشیل میڈیا اور بحث و مباحثوں تک ہی محدود ہے اسکے علاوہ عملی
طورپر ان مسائل کو حل کرنےکے تئیں قوم مسلم سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے ۔ عام
آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال کی مثال لیں ، کنیہاکمار اور ہاردک پٹیل کو
آج دیکھیں کہ کس طرح سے وہ چھوٹی قوموں سے تعلق رکھتے ہوئے بھی بڑی قوموں
کے سیاسی لیڈران کے سامنے لیڈر بن کر ابھرے ہیں وہیں ہماری قوم آج بھی
اپنوں پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا
تھاکہ دو چیزیں قیامت تک نہیں بدلیں گی ،پہلی بات یہ کہ مسلمان اپنے قوم کے
لیڈروں کو لیڈر تسلیم نہیں کرینگے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہندومسلمانوں کو
اس ملک کا حصہ نہیں مانیں گے ۔ آج یہی ہورہاہے کہ مسلمانوں کو زیر زمین
کرنے کے لئے خود مسلمانوں کی کوششیں جاری ہیں اور خود مسلمانوں کا ایک حصہ
یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں کہ انکے درمیان سے بھی کوئی قائد بن کر نکلے
۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے قائد بن چکے ہیں وہ خود بھی
مسلمانوں کے درمیان مزید قائدین کو بنانے کی فکر میں نہیں ہیں جبکہ غیروںکی
بات کی جائے تو وہ اس قدر اندرونی طورپر مل جاتے ہیں کہ کوئی انہیں منتشر
ہی نہیں مانتا ۔ گنیش تہوار کے موقع پر نکلنے والے جلوس کو ہی دیکھ لیں کہ
کس طرح سے ہندئووں کی تمام ذاتیں زعفرانی رنگ میں رنگ جاتی ہیں اور ہر
پارٹی کا لیڈر اس جلوس کاحصہ ہوجاتاہے جبکہ ہمارے یہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا
، عیدمیلاد کےجلوس کے موقع پر جتنی سیاسی پارٹیاں ہیں اتنے لیڈرس اور جن
لیڈروں کی گل پوشی و شال پوشی کی جاتی ہے اس پر اعتراضات و شکوے ۔ اب
مسلمانوں کے پاس کچھ ہی سال بچے ہیں وہ اگر ان سالوں میں اپنے نظریات کو
متحد کرتے ہوئے اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کے لئے آگے آئینگے تو کچھ مثبت
نتائج سامنےآئینگے ورنہ داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں !!۔
|