جوکر کون

شکسپئیر نے کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور یہاں ہر شخص ایک فنکار ہے جو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے ۔جی ہاں اس دُنیا میں ہر شخص جوکر ہے ۔ اگر جوکر نے سفید چہرے و ایک بڑے ’’سمائل ‘‘ کے پیچھے اپنے دُکھ چھپائے ہوتے ہیں اور ہم میں سے بھی ہر شخص چہرے پہ ایک نقاب رکھتا ہے جو کے عام آنکھ سے تو نظر نہیں آتا پر اگر انسانیت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ نقاب ہمیں نظر آئے گا

جوکر کون

گزشتہ روز آفس کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد دماغ بہت زیادہ تھک سا گیا تھا دماغ کے ساتھ جسم بھی آرام چاہتا تھا پر بھوک بار بار اپنی طرف توجہ مانگ رہی تھی. دفتر سے چند قدم ہی ماڈل مارٹ پارک ہے جو کہ یونیورسٹی روڈ سرگودھا میں واقع ہے سوچا پارک چلتا ہوں کچھ پیٹ پوجا بھی ہوجائے گی اور ساتھ چہل قدمی بھی تو فیصلہ لیتے ہوئے پارک میں چلا گیا. پارک پہنچتے میری نظرے کھانے کے لئے کچھ چیزیں ڈھونڈ رہی تھی پر بھوک مٹانے کے لئے کچھ خاص نہ ملا سوچا جب آہی گیا ہوں آئسکریم ہی کھا لی جائے میں نے آئسکریم کا ایک کپ لیا اور ساتھ ہی بینچ پر بیٹھ کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا اور آئسکریم کے مزے لینے لگا کہ اچانک پیچھے سے میرے کانوں میں ذور دار ہنسی کی آواز آئی میں نے چونک کے پیچھے دیکھا تو ایک شخص ہنستہ اور تالیاں بجاتا میرے سامنے آیا عجیب سے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے تھے جس پر تیز رنگوں کی پٹیاں سی لگی ہوئی تھیں ۔سر پہ پھندنے والی گہرے سُرخ رنگ کی ٹوپی تھی اور چہرے پر سفید چونا ملا ہواتھا۔سرخ رنگ کی گول گیند ناک پر جمی ہوئی تھی اور سرخ رنگ سے ہی ہونٹوں پہ ایک بڑی سی ’مسکراہٹ’’بنائی ہوئی تھی۔باوجود اس کے کہ اس کے ہونٹوں پہ کوئی مسکراہٹ نہ تھی

اسے دیکھتے ہی میری ہنسی نکل گی میں نے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ کیا تو اس نے بائیاں ہاتھ آگے کیا اور دائیں سے آئسکریم پکر لی. مجھے اسکی حرکت بری نہیں لگی شاید وہ ایسی حرکتیں کرکے ہر آنے جانے والے کو ہنساتا تھا... اسکی ہنسی اتنی محدود تھی کہ یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ ہنستا نہیں تھا بلکہ ہنسانے کے لئے فیک ہنسی لاتا تھا. لیکن لوگوں کو اس بڑی سی سمائل سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ ہر دم مسکرا رہا ہے۔وہاں موجود سبھی لوگوں نے اسے دیکھتے ہی سیٹیاں بجانی شروع کردیں ۔ وہ ایک جوکر تھا۔جی ہاں جوکرز،کلاؤن،بہروپیے، بھانڈ انھیں کتنے ہی نام دے دیں، ان سب کا مقصدیہ ہوتاہے کہ اپنی اوٹ پٹانگ حرکات سے ہمارے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ان میں سے کسی بہروپیے کا بیٹا بیمار ہے تو کسی کے کاندھوں پر پورے کنبے کی کفالت کا بوجھ ہے۔ کسی کی بہنوں کو سہاگ کے جوڑوں کا انتظار ہے تو کوئی قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ہاں یہ وہ انسان ہیں جو اپنی مجبوریوں کا سودا کر تے ہیں اور ہماری خوشی کے لئے طرح طرح کے سوانگ بھرتے ہیں۔ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے لاکھوں جتن کرتے ہیں۔یہ فنکارجواپنے دکھ اپنے آنسوؤوں میں چھپا کر ہمارے لئے ہنسی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے دکھوں کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ تو بہت شہرت کے تمنائی ہوتے ہیں نہ ہی انھیں زیادہ دولت کی ہوس ہوتی ہے ہاں لیکن معاشرتی ناانصافیوں نے اُسے جوکرز، بھانڈ، مداری اور کلاؤن بنا دیا۔ ایک ایسے معاشرے نے جہاں ان کے لئے کوئی متبادل اور مناسب روزگار نہیں۔یہ محض کٹھ پتلیاں ہیں جو ہمارے اشاروں پر ناچ رہی ہیں۔ پردے پر آنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے،اپنی عزت نفس کا سودا کرنے والے یہ عظیم فنکار کوئی معمولی تو نہیں۔ ان کی زندگی ارزاں تو نہیں۔کیا ان کے پاس جینے کا اختیار نہیں؟ یا وہ انسا ن نہیں؟جوکر کی ہر ادا پہ ہنسا جاتا ہے حتی کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ زندگی کی طرح اسکی موت بھی ایک مذاق ہے کہ لوگ اس کی حیات کے ختم ہونے پر بھی ہنستے ہیں، اس پر صرف اس لئے افسوس کیا جاتا ہے کہ ایک کامیڈین مر گیا، ایک ہنسانے والا دنیا سے گذر گیا، لیکن جب مختلف کردار ادا کرتے ہوئے اس کا اندر کا انسان مر جاتا ہے تو ہم اسکی موت کو کیوں محسوس نہیں کرتے؟ جب اتنی محنت کے بعد ایک جوکر کو اس معاشرے سے صرف نفرت ملتی ہے تواس کا حال بھی زندہ لاش جیسا ہی ہوتا ہے۔

شکسپئیر نے کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور یہاں ہر شخص ایک فنکار ہے جو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے ۔جی ہاں اس دُنیا میں ہر شخص جوکر ہے ۔ اگر جوکر نے سفید چہرے و ایک بڑے ’’سمائل ‘‘ کے پیچھے اپنے دُکھ چھپائے ہوتے ہیں اور ہم میں سے بھی ہر شخص چہرے پہ ایک نقاب رکھتا ہے جو کے عام آنکھ سے تو نظر نہیں آتا پر اگر انسانیت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ نقاب ہمیں نظر آئے گا اور نظر آئی گا اس نقاب کے پیچھے چھُپی ہوئی اداسی۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ جو شخص جتنا زیادہ ہنستا ہے اُتنا زیادہ اداس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں؟ کیوں کے ہم بھی جوکر ہیں ۔ہم بھی اپنی عارضی مسکراہٹ کے پیچھے ڈھیروں اداسی، ہزاروں دُکھ ، آنسو چھپائے ہوتے ہیں ۔ہر شخص یہ سمجھتا ہے جتنا دُکھ وتکالیف وہ برداشت کر رہا ہے شاید کسی اور کو نہیں ہو گا پر حقیقت یہ ہے کہ کوئی آنکھ ایسی نہیں جو کبھی نم نہ ہوئی ہو کوئی انسان ایسا نہیں جس پہ کبھی اداسی کی کیفیت طاری نہ ہوئی ہو ۔ہم میں سے ہی کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دِکھنے میں تو ذندہ لگتے ہیں پر دارحقیقت وہ مر چُکے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا

آئسکریم تو جوکر لےجا چکا تھا شاید روز اسی طرح وہ ان چیزوں سے ہی پیٹ بھرتا ہے یا شاید.....پر ایک سوال چھوڑ گیا تھا کہ وہ جوکر نما شخص تھا یا شخص نما جوکر... 😊

تحریر
فیضی ڈار
 

FaZi dar
About the Author: FaZi dar Read More Articles by FaZi dar: 14 Articles with 21840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.