وہ ہمیشہ سے ہی گوگل پر کبھی آرمی والوں کی تصویریں نکال
کر دیکھتی تو کبھی اس وطن کی بہادر بیٹیوں میں سے عرفہ کریم کی ،کبھی مریم
اور کبھی عافیہ صدیقی کی.. اور آج کل سر فہرست آرمی چیف راحیل شریف کی
تصاویر دیکھنا اسکا دلپسند مشغلہ تھا.. اور ان سب تصویروں کو دیکھنے کا
مقصد خود کو پڑھائی کے معاملے میں موٹیویٹ کرنا اور خود کو اپنا ٹادگٹ یاد
دلانا ہوتا.. اور وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح تصویریں دیکھتے ہوئے ایک آرمی
کمانڈو کی تصویر پر ٹہر گئی.. اور لاشعوری طور پر اسے مسلسل دیکھنے لگی..
عجیب سی چمک تھی ان آنکھوں میں.. اپنائیت تھی اور بہت اطمینان.. اس نے
انجانے میں اس تصویر کو محفوظ کر لیا ..اب تو اسے ایک اور خواب گدگدانے لگا..
اسے خوشی سے سرشار کرنے لگا.. اسے بے چین کرنے لگا. کہ ایک دن اسکا اپنا
چھوٹا بھائی بھی اسی وردی کو پہنےگا.. اور وہ اس لمحہ کی خوشی کو محسوس
کرتے ہوئے اپنی ہی دھن میں مست مجسمہ بنی یک ٹک اسی کمانڈو کی تصویر دیکھتی
رہی.. اور اسنے وہی تصویر واٹس ایپ پر لگا کر اس وردی کی شان میں چند لفظوں
کا اسٹیٹس لگا دیا.. چند سہیلیوں کے میسج آئے کہ کیا اسے جانتی ہو؟؟؟ وہ
کیا جواب دیتی.. سو آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گئ.. جواب دیتی تو کیا دیتی
کہ اس چہرے میں مجھے اپنے ننھے فوجی بھائی کا چہرہ دکھائی دیتا ہے.... تین
چار ہفتے گزرے ہی تھے.. کہ ایک آفت ٹوٹ پڑی.. گدگدا دینے والا خواب درد کے
صحرا کی آندھی کی لپیٹ میں آ گیا.. ہر سو اندھیرا چھا گیا.. اور خواب وہ تو
کسی کانچ کی مانند ریزہ ریزہ دلھائی دینے لگا.. اور ہر رنگ کالے رنگ کا
لبادہ اوڑھے نظر آنے لگا....
تین چار ہفتے گزرے ہی تھے کہ ایک آفت ٹوٹ پڑی.. گدگدا دینے والا خواب درد
کے صحرا کی لپیٹ میں آ گیا.. ہر سو اندھیرا چھا گیا.. اور خواب!! وہ تو کسی
کانچ کی مانند ریزہ ریزہ دکھائی دینے لگا.. اور ہر رنگ کالے رنگ کا لبادہ
اوڑھے نظر آیا..کیوں نہ ہوتا آج ہر طرف کالے اور سرخ رنگ کا راج ؟؟.. آخر
کوئٹہ میں خوب زوردار دھماکہ جو ہوا تھا.. جسکی گونج کی ہولناکی میں ماؤں
کے کلیجے پھاڑ دینے کی طاقت تھی تو دوسری ظالموں کی کھوکھلی کامیابیوں کے
نام پر ہولناک قہقہوں کی آوازیں.. ماؤں نے اس درد کے بدلے میں اپنی تربیت
کا ثمر پا لیا اور100 سے زائد کمانڈوز نے شہادت کا رتبہ.. ہر آنکھ کے ساتھ
اسکی بھی آنکھیں پتھرا گئیں وہ مجسم بنی بیٹھی رہی.. آنسو آنکھوں سے نکل اس
کمانڈو کی تصویر پر جا گرے جو اسکے موبائل کی سکرین پر تھی.. تو یہ کمانڈو
بھی؟؟ .. اس سے آگے اس کے سوچنے کی صلاحیت کہیں کھو سی گئی..ایسے لگا کہ
کوئی اپنا چلا گیا.. ہاں کوئی اپنا.. ہاں!!! اسکے اپنے ننھے فوجی کی طرح
والا کمانڈو بھی... مطلب اسکے ننھے فوجی کے عکس والا کمانڈو بھی شہید..
دماغ نے ذرا کام کرنا شروع کیا.. تو یاد دلایا ننھا فوجی ابھی اس مقام تک
نہیں پہنچا.. ابھی وہ چھوٹا ہے.. ابھی اسکا اس وردی کو پہننے کا وقت نہیں
آیا.. تو یہ درد، یہ تکلیف کیوں؟؟ یہ چبھن کیوں؟؟ یہ دماغ بھی بھلا کہاں
سمجھتا ہے دل کی باتیں, کچھ انجانے, حساس اور پاک رشتے.. دل نے دماغ کو کہا
کیوں نہ ہو درد؟؟ کیوں نہ ہو یہ تکلیف؟؟ کیوں نہ ہو یہ چبھن؟؟ اس انجان میں
میں نے میرے ننھے فوجی بھائی کا عکس دیکھا تھا.. مانا کہ صرف عکس دیکھا پر
صرف اس عکس دیکھنے میں بھی انسیت اور اپنائیت کا احساس ہوا تھا.. مانا یہ
چہرہ انجان سہی پر پھر بھی اپنائیت ہے.. یہ وطن کا اور اس وطن کی ماؤں اور
بہنوں کا محافظ تھا.. بس پھر دوسرے کمانڈوز کے گھر والوں کے درد کو محسوس
کیا تو حواس اور بھوک اس سے روٹھ گئی.. اور پھر دوبارہ سے سہیلیوں کے
پیغام.. سنو!! وہ تمہاری واٹس ایپ ڈی پی والا کمانڈو شہید ہو گیا.. وہ
ہممممم.. ہاں... اور جانتی ہوں... کہتی رہ گئی.. اور کہتی بھی تو کیا
کہتی؟؟. کیوں وہ جوابًا ماتم کرتی؟؟ کیوں وہ تعزیت کے الفاظ سنتی اور
کہتی؟؟ وہ کیوں غمگین ہوتی؟؟ اس کمانڈو کا عکس تو حیات تھا.. وہ کمانڈو اور
باقی کمانڈوز بھی تاریخ میں حیات تھے.. اسکا ننھا فوجی حیات تھا.. خود اسکا
مقصد حیات تھا.. وہ اپنے مقصد کو لیکر آگے بڑھنے کا مزید پختہ عزم کر کے
بیٹھی تھی .. سو کیوں وہ روتی؟؟ کیوں وہ ماتم ہی کرتی رہتی؟؟ اس طرح تو
دشمن کی جیت ہوتی .. ان ظالموں کی حیات ہوتی.. بس وہ اٹھی.. آنسو پونچھے..
کیونکہ اسکے پاس ایک نہیں بہت سے ننھے فوجی تھے .. اسکے ننھے شاگردوں کی
صورت میں.. اس نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کیا. واٹس ایپ پر دوبارہ اسی
کمانڈو کی تصویر لگائی.. چند ٹوٹے پھوٹے لفظوں کا اسٹیٹس لگایا.. پھر اسنے
فیس بک پر پوسٹ لگائی.. خوب لائکس اور کمنٹس ملے.. خوب واہ واہ ہوئی... اور
کچھ دن بعد سب اس پیغام کو بھول گئے جو وہ دینا چاہتی تھی کہ ہر گھر سے
کمانڈر یا قوم کا محافظ نکلے.. لیکن سب لائک اور کمنٹ کر کے بھول گئے.. سو
بالآخر وہ اکیلی ہی اپنے مقصد کو لیے اس تصویر کے عکس میں جکڑی جدوجہد کرنے
لگی...
"نجانے کیوں کچھ عکس انجان سے ہوتے ہیں
پر پھر بھی دل کے بہت پاس اور خاص ہوتے ہیں "
|