ملکی سیاست کی ہوا بدلنے لگی ․․․!

آج پاکستان جن داخلی اور خارجی چیلنجز کا شکار ہے ،اس کی بڑی وجہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے ۔غیر ذمہ داری ایک جانب سے نہیں بل کہ ہر سطح یعنی حکمراں جماعت ہو یا حزب اختلاف جماعیتں ہوں،فوج ہو یا مختلف اداروں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں جاری رہتی ہیں،جس کا نتیجہ ملکی انتشار،معاشی بحران اور بد امنی کی صورت میں نکلتا ہے۔

موجودہ حکمرانوں میں تلخ روی اور الزام تراشی کی ادا نے جہاں ملک کو نقصان پہنچایا، وہاں عوام بھی ان سے نفرت کرنا شروع ہو گئی ہے ۔کیوں کہ سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کی افسوسناک تہمتوں سے اعتماد سازی کی تمام راہ و رسم خس و خاشاک کی طرح پانی میں بہہ گئی ہیں ۔کیوں کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے اسے بار بار دھرانے کی روش ترک نہیں کی ہے ۔ملک میں ہمیشہ ایک ’’سکرپٹ‘‘لکھا جاتا ہے اور اسی کے تحت متنازع انتخابات کروائے جاتے ہیں ،پھر ایک حکومت بنا دی جاتی ہے ۔جس سے کچھ عرصہ کام لیا جاتا ہے اور کسی دوسری جانب سے سازش ہوتی ہے،دوسرا سکرپٹ لکھا اور اس پر کام شروع کر دیا جاتا ہے،اس میں ٹارگٹ؛ اپنی ہی سلیکٹڈ حکومت کو ہٹانے کا ہوتا ہے ۔اسے ہٹانے کے لئے ایک مخصوص ماحول تیار کیا جاتا ہے،کبھی حکومت وقت پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں کبھی نا اہلی،کبھی ناکام خارجہ پالیسی کو بنیاد بنا کر بدنام کیا جاتا ہے۔افواہیں پھیلانا،مخالف خبریں،شوشے اورالزامات کی بھرمار کی جاتی ہے۔جب تک دفعہ 58 ٹو بی موجود تھی،تو طاقت ور ترین طبقہ اپنا مقصد بڑی آسانی سے حاصل کر لیتا تھا۔جیسے ماضی میں صدر غلام اسحاق خان نے دو مرتبہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فارغ کیا تھا۔فاروق لغاری نے تو اپنی ہی حکومت کو بر طرف کر دیا تھا۔جنرل مشرف نے دو بار آئین معطل کیا تھا۔اب دیکھیں اعلٰی عدلیہ جنرل پرویز مشرف کے جرم کا کیا فیصلہ سناتے ہیں ۔اگر انہیں سزا سنائی گئی تو یہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا ہو گی اور یہ سزا 1973ء کے آئین میں درج آئین شکنی کی پہلی سزا ہو گی۔خیر بات ہو رہی تھی کہ اقتدار سونپنے والے جلد ہی اپنے سلیکٹڈ لوگوں سے اُکتا جاتے ہیں ۔شاید وہ ان کی اُمیدوں پر پورے نہیں اترتے یا دوسری جانب سے سازشوں کا نتیجہ نکلتا ہے کہ مقتدر طاقتیں اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے اپنے ہی چہیتے کے خلاف غضب کرپشن کی عجب کہانیاں میڈیا پر چلوانا شروع کر دیتے ہیں ۔ایسی سازش کی جاتی ہے،مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو سازش میں استعمال کیا جاتا ہے ۔بال آخر حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا ہی پڑتا ہے ۔جس کی حالیہ مثال میاں محمد نواز شریف کی ہے۔انہیں نکالنا مقصود تھا تو عمران خان اور طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا۔126دن کا دھرنا دلوایا،انتخابات میں بھر پور دھاندلی کی گئی۔یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ کرپشن کے سنگین الزامات لگائے گیے ،میڈیا دن رات استعمال کیا گیا۔جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو جتوایا گیا اور عمران خان کو اقتدار کے سندھاس پر براجماں کیا گیا۔عمران خان کو لانے والوں کا خیال تھا کہ موصوف چندہ اکٹھا کرنے کا ماسٹر ہے ،وزیر اعظم بننے کے بعد دنیا بھر سے اربوں ڈالر کا چندہ اکٹھا کر لیں گے،لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد لوگوں نے ہاتھ کھینچ لیے،عمران خان کا دماغ ایسا تھا نہیں کہ کچھ حکومت چلانے کے چند گُر ہی سیکھ لیتے۔حکومت کا ایک سال ہی گزرا تھا کہ حکمرانوں کی نا اہلی اور شدید ناکامی نے لانے والوں کو اپنی غلطی کا شدّت سے احساس دلا دیا۔اب تو حکومت کو 15ماہ ہونے کو ہیں اور یہ ابھی سے برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ جلد کایا پلٹنے والی ہے ۔کیوں کہ سیکیورٹی کے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ مشرقی سرحدوں کی صورت حال کی خرابی ہے ۔

اب حکومت کے ہاتھ پاؤں پوری طرح پھول چکے ہیں ۔مقتدر طبقے نے محسوس کیا ہے کہ اس ناکارہ حکومت کی اصلاح کی جائے یا اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ․․!مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔یہی وجہ ہے آہستہ آہستہ کل کا ولن آج کا ہیرو بن رہا ہے ۔میاں نواز شریف پر رحم اور ہمدردی جاگ اٹھی ہے ۔میاں صاحب بیمار تو کافی عرصے سے ہیں،لیکن خدا نا خواستہ ایسی بیماری نہیں ہے،جس کی وجہ سے ان کی صحت کو خطرہ لا حق ہو۔یہاں یو ٹرن خان نے پھر یو ٹرن لیا اور این آر او نہ دینے کے دعویدار کے منہ سے این آر او نکال لیا گیا۔وزیر اعظم ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق دلائل پیش کرتے پھر رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کے لندن جانے کی کہانی ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آئی ہے ۔ان کی ملک سے رخصتی کے نتائج کچھ ہفتوں کے بعد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے ۔اس ساری کہانی میں چوہدری برادران کا بھی بڑا رول سامنے آیا ہے ۔انہوں نے عمران خان حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے، جس طرح سے میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر عمران خان پر دباؤ بڑھایا ہے،اس نے چوہدری برادران اور شریف برادران کے ساتھ روائتی مخالفت کے تاثر کو زائل کر دیا ہے۔دوسری جانب ایم کیو ایم حکومت سے نا لاں ہے۔انہوں نے حکومت سے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کر دیا ہے۔جس پر حکومت کو ان کے سامنے دو زانوں بیٹھنا پڑ گیا ہے،لیکن اب اس کا حکومت کو فائدہ نہیں ہو گا۔عمران خان کی نفسیات سامنے آ چکی ہے کہ وہ کسی کو برابری پر برداشت نہیں کرتے ۔انہیں جی حضوری والے لوگ چاہیں ۔خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کو صرف اس لئے وزارت اعلٰی نہیں دی گئی کیوں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنا شروع ہو گئے تھے۔پنجاب جیسے بڑے صوبے کے لئے ایک مضبوط اور تجربہ کار وزیر اعلیٰ کی ضرورت تھی،لیکن پنجاب میں ایک گمنام اور نا اہل بزدار کو حکمران بنا دیا ۔دونوں صوبوں میں بری صورت حال کا رونا رویا جاتا ہے ،لیکن یہی بُری صورت حال عمران خان کے لئے آئیڈیل ہے۔عثمان بزدار جیسا بندہ جن کا اپنا ذہن استعمال ہی نہیں ہوتا،وہ شاید باتھ روم میں بھی عمران خان سے پوچھ کر جاتے ہیں۔یہی خوبی انہیں سب لوگوں سے ممتاز کر دیتی ہے ۔

عمران خان نے اپنے تمام کارڈ کھیل لیے ہیں۔لوگوں کو بیوقوف بنا کر ،وعدے کر کے ،ریاست مدینہ ،کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر ،عدل و انصاف ہر غریب کی دہلیز پر؛ یہ تمام بیانات و وعدے ہوا ہو چکے ہیں ۔اب مخالفین پر الزامات کی بارش سے ہوا بدلنے کا دور ختم ہو گیا ہے ۔اس لئے عمران خان کو چاہیے کہ سنجیدہ اور ذمہ داری سے عملی اقدامات کرنے کی جانب بھر پور توجہ دیں ۔غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے گریز اور دوسروں کی تضحیک کر کے خوش ہونے کی روش چھوڑ کر ملک و قوم کی خدمت اور جھکنے کی روش اپنائیں،ورنہ ملک کے لئے کچھ کر سکیں گے نہ ہی قوم سکھ کا سانس لے گی اور آپ کا انجام تو نوشتہ دیوار پر ہے۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.