ہمارے معاشرے میں اخلاقی جرات اور دلیری کا بہت حد تک
فقدان ہے۔ فطرت کی یہ خاصیت ہے کہ اسے جتنا دباؤ یہ اتنی طاقت کے ساتھ
ابھرتی ہے۔ حق اور سچ بھی فطرت ہیں جبکہ جھوٹ دھوکہ ہے جو غیر فطری سوچوں
اور رویوں کی وجہ سے ابھرتا ہے۔ سچائی کی انگلی پکڑ کر ہی انسان آدمیت تک
کا سفر طے کر سکتا ہے۔ آج ہمارے معاشروں میں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ غیر
فطری تقاضوں کو اپنانا اور فطرت سے دور بھاگنا ہے۔ اسے آپ کسی بھی پیرائے
میں دیکھیں آپ کو ہر جگہ فطرت کا دائرہ وسیع اور غیر فطری چیزیں بہت حقیر
نظر آئیں گی۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے جب جب فطرت کے مخالف اڑان
بھرنے کی کوشش کی ہے تو خط استوا میں اس کی اڑان صرف منفی کی طرف بلند ہوئی
ہے۔ غیر فطری تقاضوں کو سب کچھ جان کر جینے والوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ
کوئی شخص خواب میں کسی زندگی کو جئے اور پھر صبح دم بیدار ہونے پر سارے
تصورات دماغ سے اوجھل ہو چکے ہوں۔ اس معاشرے کو بنانے میں کئی سو دماغ اور
تیس سال کا وقت لگا ہے۔ آج معاشرہ واپس اسی نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں علامہ
اقبال نے محنت شروع کی تھی۔یعنی اس معاشرے کی سمت وہی غلامی کی طرف ہے لیکن
سوچ میں تھوڑا فرق آیا ہے جو ایک آزاد ملک میں رہنے کی وجہ سے ہے۔ شخصیت
پرستی اور پروپیگنڈٖا بریگیڈ نے آج ملکی سالمیت کو جس کنارے پر لا کھڑا کیا
ہے اسے میں ملک و قوم کافکری قتل کہنے میں حق بجانب ہوں۔سب سے پہلے تو
جمہوریت کا راگ الاپ کر اس ملک کی تباہی کی گئی ، حالانکہ جمہوریت کے حق
میں خود محمد علی جناحؒ بھی نہیں تھے جو اس ملک کے بانی ہیں اور مجھے
بتائیں کہ کیا ان سے بھی بڑا کوئی اس ملک کے ساتھ مخلص ہو سکتا ہے؟ سوچنے
والوں کے دماغ میں یہ سوال بھی پنپ سکتا ہے کہ کیا صدر بننے والا شخص لالچ
و حرص کا متحمل نہیں ہو سکتا؟ کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آدمیت کے رتبے سے
پہلے انسان کا بھٹکنا دیکھا گیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ صدارتی نظام
کو آمریت سے شبیح کرنے لگیں ، اور ایک بات جو پچھلے تیس سالوں سے جمہوریت
پسند دانشوروں کی زبان زد عام ہے کہ جمہوریت آمریت سے ہزار درجے بہتر ہے تو
میں یہی کہوں گہ صدارتی نظام میں صدر عوامی رائے شماری سے ہی منتخب ہوتا ہے
جبکہ آمر جمہوری طرز سے نہیں آتا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس بوسیدہ جمہوریت
میں ملک و ملت کے نقصان کا ذمہ دار کوئی بھی نہیں بنتا اور سب ایک دوسرے پر
تھوپ کر بچ نکلتے ہیں جبکہ صدارتی نظام میں کوئی ایک شخص ذمہ دار ہوتا ہے
جس کے ماتحت سارے ادارے چلتے ہیں ، جو ایک جمہوری عمل کے بعد منتخب ہوتا
ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ہیں جنکا اپنا نظام
حکومت صدارتی طرز کاہے ، جس کے باعث وہ اپنے پانچ سالہ منصوبے بھی پورے
کرتے ہیں اور اپنے منشور پر عملدرآمد بھی بآسانی کرواتے ہیں۔ یہاں انہی
دانشوروں جو جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں سے سوال بنتا ہے کہ وہ پاکستان کا
جن ملکوں سے موازنہ کر کے دکھاتے ہیں اور نوجواں نسل کے دماغوں میں سہانے
ڈھولوں کے راگ بھرتے ہیں وہ وہاں کے اس صدارتی نظام کے بارے میں کیوں نہیں
بتاتے؟ اگر پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مبینہ طور پر
نتائج ملتے ہیں کہ ملک میں جو بھی عوامی کام ہوئے ہیں وہ آمروں کے ادوار
میں ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے چند فیصلوں جن کو جمہوری حکمرانوں نے خود نظر
انداز کر کے پاکستان کیلئے خطرناک بنایا ان پر آج بھی تخریبی ذہنی تخلیقات
کی جاتی ہیں ۔ ایک مخصوص طبقہ ان پر سوال اٹھاتا ہے، یہ طبقہ کونسا ہے ان
کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ترقی اس وقت کام آتی ہے جب لوگوں میں شعور ہو،
یہفرق ہم اس مثال سے دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص بغیر پڑھے جانے کسی شعبے میں
کام کرتا ہے اور تجربات میں اسے تباہ کر دیتا ہے ، جبکہ ایک شخص اس کی مکمل
آگہی کے بعد اس شعبے میں کام کرتا ہے۔ اس ملک کو جس ترقی کے نام پر برباد
کیا گیا وہ شاید اپنے مفاد کی تھی، جبکہ شعور و آگہی اور بنیادی ضروریات جو
لوگوں کا حق تھا نہ ملنے کی وجہ قوم آج تنزلی کا شکار ہے۔ حالیہ جمہوری
حکومت نے بہت زیادہ دعوے کئے تھے، جن پر اعتماد کر کے نوجوان طبقے نے اس
جمہوری مرحلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کس پر بھروسہ
کیا جائے؟اس حکومت میں ہم نے واضح دیکھا کہ کس طرح حکومتی نمائندوں کے
درمیان تضادات، اور حکومت و اداروں کے مابین اختلافات پائے جائے رہے ہیں۔
وزیر اعظم جو بھی وعدہ کرتا ہے یا ملک و ملت کی ترقی کیلئے قدم اٹھاتا ہے
چند ادارے اور خود حکومتی ارکان اس کو ناکام کرنے میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ جس عدلیہ نے نواز شریف کو پاکستان کے سب بڑے کرپشن سکینڈل
میں سزا سنائی تھی اسی عدلیہ نے اسے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے
ہوئیباہر جانے کی اجازے دے دی ہے۔ جس کے بعد کوئی سوچے کہ عوام پر اس عدلیہ
کے کیا تاثرات ہوں گے ؟ بیورو کریسی مکمل طور پر حکومتی اقدامات کے متضاد
چل رہی ہے۔ محکمہ پولیس میں اصطلاحات کی جب سے بات چلی ہے اس کے بعد سے
جرائم میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے بر عکس کہ جرائم کی روک تھام کیلئے
اقدامات کئے جائیں ، محکمہ جاتی پراپیگنڈے کئے گئے کہ حکومت نے ہمارے ہاتھ
باندھ دئیے ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ محکمہ
پولیس انتہائی نان پروفیشنل ہے ۔باقی سول اداروں کی حالت بھی اس سے چنداں
مختلف نہیں ہے۔ میری رائے میں اگر عمران خان واقعی ایک سچے، پختہ ایمان
رکھنے والے انسان ہیں اور وہ ملک و ملت کا احساس دل میں رکھتے ہیں تو انہیں
چاہئیے کہ ملک کے تمام ستونوں کے آئین میں ترامیم لے کر آئیں اور انہیں
عوامی حکومت کے جوابدہ بنائیں ۔ اور اس عمل کے درمیان رکاوٹیں موجودہ نظام
میں رہ کر دور نہیں کی جا سکتیں اس کیلئے صدارتی نظام ناگزیر ہے۔ عوام میں
موجود خرابی بھی صرف ڈنڈا پیر ہی اب ٹھیک کر سکتا ہے۔اگر ایسا ہی چلتا رہا
تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو بھی عوام کی طرف سے خدانخواستہ بغاوت کا
سامنا کرنا پڑے۔
|