پاکستان وزیر اعظم عمران خان کا نیا پاکستان ۰۰۰

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جس عزم و حوصلہ کے تحت پاکستانی سیاسی قائدین کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے عدلیہ کے حوالے کیا ہے اس سے پاکستانی معیشت پر واقعی مثبت اثرات مرتب ہوتے محسوس ہورہے ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ سیاسی قائدین واقعیپاکستانی عوام کا پیسہ کسی نہ کسی طریقہ سے لوٹے ہیں یا نہیں اور اگر لوٹے ہیں تو انہیں سزا مل کر ہی رہے گی۔ عمران خان نے وزرات عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر کرپٹ سیاسی قائد و عہدیدار سے عوامی پیسہ نکالیں گے ، جنہوں نے عوامی بھروسے کو چکناچور کرتے ہوئے عوامی پیسہ کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں نواز شریف گذشتہ دنوں شدید خرابی صحت کی وجہ سے لندن روانہ ہوگئے انہیں لے جانے والا ایئر ایمبولنس قطر سے منگوایا گیا تھا جو شاہی حکومت قطر کا ہے۔ سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف واقعی شدید علیل ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن بعض گوشوں سے کہاجارہا ہے کہ وہ اتنے علیل نہیں جتنا بتایا گیا ہے جبکہ انکی صحت کی نگرانی کے لئے جو بورڈ تشکیل دیا گیا ہے وہ بھی انکی شدید علالت کی رپورٹ دے چکا ہے ۔ نواز شریف جو تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔ اب جبکہ وہ علاج کے لئے لندن پہنچ گئے ہیں اور نہیں معلوم انہیں کتنے ہفتے یا ماہ لندن میں علاج کیلئے رکنا پڑے گا۔ دوسری جانب پاکستان کے سابقہ صدر آصف زرداری بھی منی لانڈرنگ کیسس کے تحت احتساب عدالت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔آصف زرداری پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی تقریباً آٹھ سال جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ اور کئی ایسے سیاسی قائدین ہیں جن کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ وہ عوامی املاک کو کسی نہ کسی طرح ہڑپ لئے ہیں ۔ ان تمام سیاسی قائدین سے جو حقیقت میں پاکستان کو معاشی اعتبار سے کتنا کھوکھلا کرکے اپنے آپ کو مضبوط و مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے انہیں الزامات کے تحت عدلیہ کی چکریں کاٹنا پڑرہی ہیں یا پھروہ قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنے مضبوط فیصلوں اور بلند عزائم کی وجہ سے اپوزیشن قائدین کیلئے درد سر بن چکے ہیں جس کی وجہ سے گذشتہ ماہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر ملک بھر سے تحریک آزادی مارچ میں حصہ لینے کے لئے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن اسلام آباد کا رخ کیا ۔ تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں کچھ حاصل نہ ہوا اور آخر کار مولانا فضل الرحمن ملک بھر میں عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے سڑکوں پر لاچکے ہیں اس کے باوجود بھی انہیں ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اپوزیشن کے تمام بڑے قائدین جن میں شہباز شریف صدر مسلم لیگ ن، بلاول بھٹوزرداری چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر نے اسلام آباد میں کنٹینر میں ٹھہرکر عوام سے مخاطب کیا اور عمران خان کے خلاف جتنی بھڑاس نکالنی تھی نکالی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود عمران خان اپنی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج انکا بھرپورساتھ دے رہی ہے جس کی مثال پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے صاف الفاظ میں مولانا فضل الرحمن کا جواب دیا تھا کہ پاکستانی فوج منتخبہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ان کے اس بیان نے مولانا فضل الرحمن اور دیگر بڑے بڑے سیاسی قائدین کی ہوا اتار دی ۔

عمران خان نے ایک تقریب کے دوران کہاکہ گذشتہ دنوں کافی چیزیں ہوئیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے متعلق کہا کہ ایک تو سرکس ہوئی کنٹینر کے اوپر۔عمران خان نے اپنے تعلق سے کہا کہ پاکستان میں اگر کوئی دھرنے کا ایکسپرٹ ہے تو وہ آپ کو پتا ہیجو آپ کے سامنے یہاں کھڑا ہے۔ اس طرح انہو ں نے اپنے آپ کو دھرنے کیلئے ایکسپرٹ کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو سرکس کہا ہے ۔ انہوں نے اس دھرنے کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ کرپشن کے تمام کیسز سے پیچھے ہٹ جاؤ اس طرح یہ لوگ بلیک میل کرنے کے لئے آئے تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ آزادی مارچ کے دوران ’’مذاکرات میں یہ کہتے ہیں کہ جی کسی کو بھی تحریک انصاف سے وزیر اعظم بنادیں سوائے عمران خان کے۔ صرف ان کو مسئلہ عمران خان کا تھا۔ کیوں تھا مسئلہ عمران خان سے؟ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ عمران خان کی کوئی قیمت نہیں ہے‘‘۔وزیر اعظم نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ :میں اگر ان کو چھوڑتا ہوں تو میری قوم غور سے سن لو، سب سے زیادہ میں اپنی قوم کے ساتھ غداری کرونگا اگر میں ان کی بلیک میلنگ میں آکر اور اداروں کو کہوں کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔’’آج میں اگر چپ ہو جاؤں تو میں جنرل مشرف کی طرح ان سے مک مکا کرسکتا ہوں لیکن مجھے خوفِ خدا ہے۔ مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے، ووٹ کی نہیں ہے‘‘۔ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے انداز سیاست پر تنقید کرنے کے بعد کہا کہ میں نے کنٹینر پر کچھ اور شکلیں بھی دیکھیں۔ جتنا بڑا چور اتنا ہی زیادہ شور۔ وہاں شہباز شریف جو منڈیلا بننے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی کھڑا تھا۔ وہاں بلاول زرداری بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول جو تھیوری لے کر آیا ہے دنیا کے سائنسداں گھبرا گئے ہیں۔ آئین اسٹائن گھبرا گیا ہے کہ جب بارچ ہوتی ہے تو پانی آتا ہے۔ ‘‘ عمران نے بلاول کی مزید پیروڈی کرتے ہوئے کہا کہ جس بات پر آئن اسٹائن کی روح تڑپ رہی ہے وہ اس بات پر کہ اس نے کہا جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔’’اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے۔ انگریزی میں لبرل وہ لبرل نہیں لبرلی کرپٹ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف سارے بے روزگار سیاستداں کھڑے ہیں۔ وہاں ان کی بھی شکلیں دیکھیں۔ میں سب کی شکلیں دیکھ رہا تھا کیونکہ اب میرے پاس ساری انفارمیشن ہے، جس کو ڈر لگ رہا تھا کہ اب وہ پکڑا جائے گا کرپشن میں ،جو پہنچا ہوا تھا کنٹینر پر۔

عمران خان نے اپنی سیاسی کیرئیر سے متعلق کہاکہ وہ گذشتہ 22سال سے جدوجہد کرکے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مقابلہ کرنا آتا ہے اور میں آج پھر چیلنج کررہا ہوں آپ سب کو جو مرضی کرنا ہے کرلیں، سب اکھٹے ہوجاؤ۔ جو بھی کرنا ہے ، میں آپ سے ایک آدمی بھی نہیں چھوڑوں گا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عمران خان نے عدلیہ سے کہا کہ وہ عوام کا اعتماد بحال کرے۔انکا کہنا تھاکہ ملک میں یکساں نظام انصاف کو یقینی بنانے کے لئے سعی کریں۔ انہوں نے ججوں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں اپنے جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار کو کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت انکی پوری مددکرے گی ، جس طرح کی مدد ہمارے سے چاہیے۔ ہم آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ساری جگہ سے پیسہ نکالیں گے، لیکن آپ کیلئے ہماری گورنمنٹ پیسہ دینے کے لئے تیار ہے۔ ہم پوری آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے عوامی بھروسے کو بحال کرنے کیلئے عدلیہ سے کہاکہ ہماری عدلیہ کو بحال کرنا ہے عوام کا ٹرسٹ اپنے اندر، عدلیہ ایک عام آدمی کو اعتماد دینا ہے کہ یہاں سب کے لئے ایک قانون ہے۔ان کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے قانون سب سے طاقتور ہے اور عدالتیں قانون کو سامنے رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ نے سابقہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں ان کے عہدے سے ہٹایا، جبکہ میاں نواز شریف کو پانامہ پیپرز کیس میں نااہل قرار دیا اور سابق صدرپاکستان جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کا فیصلہ 28؍ نومبر کو متوقع ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کم وسائل کے باوجود عدلیہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی کوش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین ہزار ججوں نے لاکھ مقدمات کے فیصلے سنائے ہیں جن میں کمزور لوگوں کے مقدمات بھی شامل ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ 25سال سے زیر التوا مقدمات کو نمٹا دیا گیا ہے اور اب زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے عدلیہ کو ہر ممکن وسائل فراہم کرنے سے متعلق بیان کا خیر مقدم کیا۔ اب دیکھنا ہیکہ پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کا اگلہ قدم عمران خان کے خلاف کیا ہوگا۰۰۰

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے الدرعیہ پروجیکٹ کا سنگ بنیادرکھا
سعودی عرب ویژن 2030کی طرف رواں دواں ہے، 20؍ نومبر کو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ’’بوابہ الدرعیہ‘‘(الدرعیہ گیٹ)پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔سعودی عرب کی تاریخی حیثیت جانے کے لئے الدرعیہ کی تاریخ جاننا ضروری ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ الدرعیہ کی18ویں صدر عیسوی میں بڑی ہی شان و شوکت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ الدرعیہ کی شان و شوکت کو دو مرتبہ شدید نقصان پہنچایا گیا لیکن آل سعود نے آج پھر اس کی عظیم الشان ثقافتی اور تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کے عزم و ارادے کے ساتھ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق سنگ بنیاد کی تقریب میں گورنر ریاض شہزادہ فیصل بن بندر، ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ، نائب گورنر ریاض شہزادہ محمد بن عبدالرحمن اور وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداﷲ موجود تھے۔بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز او رمہمانوں نے الدرعیہ کے ساتوں دروازوں پر تیار دستاویزی فلیم دیکھی ، یادگار تصاویر لی گئیں اور تلواروں کا سعودی رقص بھی ہوا۔ ان دروازوں کے نام بوابہ وادی حنیفہ، بوابہ الغبرایٔ ، بوابہ مانع المریدی، بوابہ الامام محمد بن سعود، بوابہ سمحان، بوابہ سلمان اور بوابہ محمد ہیں۔ سنگ بنیاد کے موقع پر رنگ رنگ تقاریب منعقد کی گئیں تھیں جس میں لیزر شو پیس کئے گئے ، افسانوی طرز کی شاہی تقریب میں دنیا کے مختلف ممالک سے 600مہمان شریک بتائے جاتے ہیں۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جب سنگ بنیاد رکھا تو اس کے بعد انہیں دوسری سعودی ریاست کے بانی امام ترکی بن عبداﷲ بن محمد بن سعودی کی تلوار (السیف الاجرب) دکھائی گئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق محکمہ سیاحت و قومی ورثے کے سربراہ احمد الخطیب نے العربیہ نیٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ بوابہ الدرعیہ پروجیکٹ کا مقصد 2030تک دس ملین سیاح لانا ہے۔ تقریب کے موقع پر پہلی ، دوسری اور تیسری سعودی ریاست کی 300سالہ تاریخ لیزر شو کے ذریعیپیش کی گئی۔ امام محمد بن سعود سے لے کر عصر حاضر تک کی سعودی تاریخ اجاگر کی گئی۔بتایا جاتا ہیکہ بوابہ الدرعیہ پروجیکٹ 2020میں مکمل ہوگا۔ اس کی لاگت کا تخمینہ 64ارب ریال بتایا جاتا ہے۔ یہ سات مربع کلو میٹر کے دائرے میں واقع علاقہ اصلاح و ترمیم کے بعد جدید و قدیم کاسنگم بن جائے گا۔بتایا جاتا ہیکہ یہاں ایک لاکھ کارکن ہونگے۔ مہمان، مقیم غیر ملکی اور طلبہ یہاں آباد ہونگے۔ مستقبل میں الدرعیہ مہم جوئی، مارکیٹنگ ، رہن سہن، روزگار اور قیام و طعام کے حوالے سے مثالی مرکز ہوگا۔اور الدرعیہ میں سبزہ زار ہونگے، وادی حنیفہ کے اطراف کھجوروں کا جنگل ہوگا، دو مربہ کلو میٹر پر نخلستان قائم ہونگے۔ اس طرح الدرعیہ کی شان و شوکت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

پیرس میں سعودی ثقافتی نمائش کا انعقاد
سعودی عرب کی ثقافتی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لئے عالمی سطح پرکوششیں جاری ہیں۔یونیسکو کے صدر دفتر پیرس میں سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداﷲ بن فرحان نے سعودی ثقافتی نمائش کا افتتاح کیا۔پیرس میں سعودی ثقافتی نمائش کا انتظام وزارت ثقافت العلا رائل اور مسک انسٹی ٹیوٹ فار آرٹس نے کیا ۔ یہ سعودی ثقافتی نمائس کا افتتاح یونیسکو میں وزرائے ثقافت بین الاقوامی فورم کے موقع پر کیا گیا ۔نمائش میں عربی قہوہ، فالکن پکڑنے کا فن، سعودی کھانوں کے طور طریقے ، عرب موسیقی اور سعودی قصائد پیش کئے گئے۔ اس موقع پر آسٹریا میں سعودی سفیر شہزادہ عبدالہ بن خالد، امارات کی وزیر ثقافت نورۃ بنت محمد الکعبی، کوریا کے وزیر ثقافت یونگ بارک، آثار قدیمہ اور فنون و ثقافت کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔بتا جاتا ہیکہ سعودی ثقافت کو اجاگر کرنے والی تصاویر، سنگ تراشی کے نمونے اور عصر حاضر کے آرٹس کے شہ پارے بھی اس نمائش میں سجائے گئے تھے جبکہ شائقین کو نمائش میں سعودی ثقافت کے ماضی، حال اور مستقبل سے متعارف کرایا جارہا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ سعودی عرب کو یونیسکو کے انتظامی ادارے کا رکن بھی منتخب کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سعودی وزیر ثقافت نے یونیسکو کی ڈائرکٹر اودری اوزولائی سے ملاقات کی ۔سائنس، ثقافت، فنون اور ورثے کے شعبوں میں یونیسکو اور سعودی وزارت ثقافت کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس طرح سعودی عرب کی تاریخی حیثیت اور مستقبل کے عزائم کو پیش کیا گیا جس سے بین الاقوامی سطح پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

یمن میں امن واستحکام ناگزیر
یمن میں سعودی اتحادی ممالک اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری جنگ کو ختم کرنے کیلئے بات چیت کے مراحل بھی طے پاگئے لیکن اس کے باوجود حوثی باغیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی کارروائی کا سلسلہ جاری بتایا جاتا ہے۔یمن میں قیام امن کے لئے حوثی باغیوں کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ حالات پھر خراب ہوسکتے ہیں۔سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے یمن میں امن و استحکام کے تعلق سے کہا کہ یمن کا امن و استحکام اتحادی ممالک کو انتہائی عزیز ہے۔ عادل الجبیر ابو طہبی میں منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یمن میں سعودی اتحادی ممالک سے زیادہ یمن کے مفاد کا فکر مند کون ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اتحادی ممالک جنگ کے خواہشمند نہیں تھے۔ ایران نواز حوثی ملیشیا نے انہیں جنگ پرمجبور کیا۔ انکا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو معلوم ہونا چاہیے کہ یمن میں پیدا ہونے والا انسانی مسئلہ حوثی باغیوں کا پیدا کردہ ہے۔ اس کا حل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باغیوں کے سرکچلنے میں ہی اسکا حل ہے۔ یمن کی دستوری ، قانونی حکومت کو تسلیم کرنے اور قانونی کی بالادستی نافذ کرنے سے یمن کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ایران میں مہنگائی ۔ملک بھر میں عوام کا شدید احتجاج ۔پٹرول 15ہزار ریال فی لیٹر
ایران میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی احتجاج کے دوران سیکیوریٹی فورسز کی فائرنگ سے 100سے زائدافراد ہلاک ہوگئے، ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ دارالحکومت تہران سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اب مختلف شہروں اور قصبات تک جاپہنچا ہے، بتایا جاتاہے کہ سو سے زائد شہروں میں یہ احتجاج جاری ہے اور اس میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے افراد موجود ہیں۔ متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور سیکیوریٹی اہلکاروں نے احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے براہ راست فائرنگ کی اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایک ہفتہ کے دوران 100سے زائدافراد ہلاک ہوچکے ہیں اور درجنوں زخمی بتائے جارہے ہیں۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کئی افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے پٹرول مہنگا کرنے کی حمایت کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو غیر ملکی آلہ کار قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ ایرانی معیشت مالی بحران کا شکار ہے اور حکومت نے پٹرول کی قیمت 10ہزار ریال فی لیٹر سے بڑھا کر 15ہزار ریال فی لیٹر کرنے کے ساتھ اس کی راشن بندی بھی کردی ہے۔یعنی اس قیمت پر ہر نجی کار کو ایک ماہ میں صرف 60لیٹر پٹرول ملے گا۔ اس سے زائد پٹرول خریدنے پر قیمت میں مزید اضافہ ہوگا یعنی فی لیٹر پٹرول کی قیمت30ہزار ریال ہوگی۔ جبکہ اس سے قبل ہر شخص کو رعایتی نرخوں پر 250لیٹر پٹرول لینے کی اجازت تھی۔ 2017ء میں اشیاء خوردونوش میں اضافہ کے خلاف عوامی احتجاج ہوا تھا اور ان مظاہروں میں کم از کم 25افراد ہلاک بتائے گئے تھے۔ اس ایک ہفتہ کے دوران ہونے والوں میں عام احتجاجیوں کے علاوہ سیکوریی اہلکار بھی شامل ہے ان میں ایک کا تعلق پاسداران انقلاب سے بتایاجاتا ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایران پہلے ہی معاشی پابندیوں کی وجہ سے سخت بحران کاشکار ہے ۔ایران،امریکہ کی جانب سے گذشتہ سال سنہ 2018ء میں جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعدتیل کی برآمدات پر سخت پابندیوں کا سامنا کررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ اقتصادی و تجارتی پابندیوں نے ایرانی معیشت کو بہت تیزی سے کمزور کردیا ہے اور اس کی وجہ سے ملکی کرنسی کی قدر بہت ہی نچلی سطح تک پہنچ گئی اور اس بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایران کا شمار تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے ، ایران ہر سال اربوں ڈالر کا تیل برآمد بھی کرتا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ عوامی احتجاج ایرانی صدر حسن روحانی کو اقتدار سے محروم تو نہ کردے گا۔

سعودی عرب میں انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی مقیم تارکین وطن کے خلاف کارروائیاں
سعودی عرب میں مقیم غیر قانونی تارکین وطنوں حراست میں لے کر انکے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح بعض مقامات پر انسانی اسمگلنگ کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی کسٹم حکام نے مملکت کے مختلف سرحدی علاقوں سے انسانی اسمگلنگ کی متعدد وارداتیں ناکام بنا دیں اور اس جرم پیشہ دھندے میں ملوث افراد کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔سعودی محکمہ کسٹم نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکانٹ پر تفصیلات درج کی ہیں کہ گزشتہ چند دِنوں کے دوران انسانی اسمگلنگ کی متعدد کوششیں ناکام بنائی گئی ہیں۔کسٹم حکام کے مطابق انسانی سمگلروں نے البطحا اور القحجی کی سرحدی چوکیوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کی کوشش کی تھی۔ اسمگلروں نے گاڑیوں میں خفیہ خانے بنا کر ان میں لوگوں کو چھپا رکھا تھا، تاہم کسٹم حکام کی عقابی نگاہوں سے نہ بچ سکے۔ جن تارکین کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے کئی افراد مختلف مقدمات اور خلاف ورزیوں کے سلسلے میں سیکیورٹی اداروں کو مطلوب نکلے۔کسٹم حکام نے مقامی اور غیر ملکی افراد سے اپیل کی ہے کہ انہیں جہاں بھی غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی موجودگی کا پتا چلے تو متعلقہ سرکاری اداروں کو ان کے بارے میں اطلاع دی جائے۔ واضح رہے کہ سعودی مملکت میں گزشتہ23 ماہ کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن میں تیزی آ چکی ہے۔ جبکہ غیرقا نونی تارکین کو پناہ دینے اور ملازمت فراہم کرنے والوں کو بھی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔سعودی وزارت داخلہ کے مطابق یہ تارکین اقامہ،لیبر اور سرحدی سلامتی کے قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مملکت میں تاحال 41لاکھ 56 ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔جن میں سے 10 لاکھ36ہزار 810افراد کو انکے وطنوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے مزید بتایا گیا ہے کہ 5 لاکھ72ہزار 446 غیر قانونی تارکین کو فوری سزائیں دی گئیں۔
ٌٌٌ***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.