پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک
چیئرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بالآخر 32سال بعد اپنے سسر اور
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے حوالے
سے نظرثانی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیج دیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف قانونی
ماہرین کی مختلف آراء ہیں، البتہ اکثر قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے
کہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت صدر پاکستان کو مشاورت کے لیے سپریم کورٹ میں
ریفرنس بھیجنے کا جو اختیار حاصل ہے، آئین کے اس آرٹیکل کا اطلاق فوجداری
مقدمات پر نہیں ہوتا، اب یہ ریفرنس صحیح ہے یا غلط اس کا اصل فیصلہ تو
عدالت میں ہی ہوگا، تاہم ذوالفقارعلی بھٹو کی 32ویں برسی کی موقع پر 4اپریل
کو گڑھی خدا بخش میں صدر آصف علی زرداری کی برسی کے شرکاء اور اپنے کارکنوں
سے خطاب میں نظر آنی والی مسکراہٹ اور گفتگو بہت ہی معنی خیز تھی، جس میں
انہوں نے ریفرنس کو اپنا ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ مجرموں کو
عدالت کی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا یا پھر ہم سب کٹہرے میں کھڑی ہوں گے۔
غالباً اس وقت ان کا روئی سخن عدالت عظمیٰ کی طرف تھا، کیونکہ ذوالفقار علی
بھٹو کیس کا نظرثانی ریفرنس عدالت عظمیٰ ہی میں داخل کیا گیا ہے۔ اس ریفرنس
کے حوالے سے تاحال تو کوئی واضح موقف عدالت کے سامنے نہیں آیا، تاہم
پیپلزپارٹی کے رہنما اور وزیرقانون بابر اعوان نے یہ کہا ہے کہ اگر عدالت
نے ریفرنس پر غور نہیں کیا تو ذوالفقارعلی بھٹو کا ایک مرتبہ پھر عدالتی
قتل ہوگا۔
ہم جب صدر آصف علی زرداری کی گڑھی خدا بخش میں معنی خیز گفتگو ، مسکراہٹ
اور بابراعوان کے موقف کو مدنظر رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید
پیپلزپارٹی نے طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ اقدامی کاروائی کر کے آنے والے
حالات کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے پہلی پیپلزپارٹی کی
حکومت اور پارٹی دونوں کے اقدام دفاعی ہوتے تھے۔ پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی کی
حکومت نے اقدامی کاروائی کی ہے، اس کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں اور
پیپلزپارٹی کی قیادت اس ریفرنس کے ذریعے کون سے بڑے اہداف حاصل کرنا چاہتی
ہے، اس کا صحیح پتہ تو جلد ہوجائے گا، تاہم مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ صدر
پاکستان آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی تین سالہ کارکردگی
کے حوالے سے سخت عوامی ردعمل اور سوالات سے بچنے کے لیے ایک مرتبہ پھر
ذوالفقارعلی بھٹو اور بی نظیر بھٹو کے نام کا استعمال شروع کردیا ہے،
کیونکہ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے جن نعروں اور منشور کے ساتھ اقتدار سنبھالا
تھا، گزشتہ تین سالوں میں بیشتر کام ان کے برعکس ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے
کہ عوام میں پیپلزپارٹی کا گراف بہت نیچے جارہا ہے۔
آنے والے انتخابات میں سخت عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے پیپلزپارٹی کی قیادت
جو اقدامات کررہی ہے، ان میں سے بھٹو کیس ری اوپن کرنے کے صدارتی ریفرنس کو
ابتدائی مرحلہ قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ گڑھی خدابخش میں اپنے خطاب کے
دوران آصف علی زرداری نے یہ اعلان بھی کیا کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر
ہوں گے اور اگر پیپلزپارٹی پر عوام نے اعتماد نہیں کیا تو ہم اپوزیشن میں
بیٹھیں گے، اس اعلان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر پاکستان کو بھی عوامی
ردعمل اور مسائل کا کسی حد تک ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صورت حال کو دیکھ
کر ابھی سے ہی اپوزیشن میں بیٹھنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں براہ راست تو نہیں، البتہ اشارتاً مسلم لیگ( ن) کی
قیادت کے حوالے سے بھی بعض ریمارکس دیے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں
مستقبل میں مدمقابل کی طور پر مسلم لیگ (ن) ہی نظر آتی ہے۔ رات کے 2بجے
ہونے والے اس خطاب میں صدر آصف علی زرداری صدر پاکستان سے زیادہ پیپلزپارٹی
کے جیالے کارکن کے طور پر منظرعام پر آئے۔ انہوںنے ایوان صدر کے ماضی کے
کردار پر بھی سخت تنقید کی اور بعض مواقع پر اشارتاً عدالتوں کا ذکر بھی
کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی
اب ہر محاذ پر مقابلے کے لیے تیار ہے اور صدر کا انداز گفتگو یہ بتاتا ہے
کہ بعض قوتیں وقت سے پہلے ملک میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں، جس کا علم
پیپلزپارٹی کی قیادت اور صدر کو بھی ہے۔
حالیہ صدارتی خطاب اور ریفرنس کو بیشتر عوامی حلقے انتخابی مہم کا ابتدائی
مرحلہ قرار دی رہے ہیں۔ ریفرنس کے حوالے سے اگرچہ بہت سارے لوگوں کو شدید
تحفظات ہیں لیکن ذوالفقارعلی بھٹو کیس کے حوالے سے منظرعام پر آنے والے
حقائق اور بعض متنازع نکات کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اس کیس پر رائی
دینے سے گریز کر رہی ہے، تاہم اکثر کا یہ خیال ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو
کیس پر نظرثانی ریفرنس داخل ہوسکتا ہے تو پھر سانحہ مشرقی پاکستان سمیت
دیگر قومی سانحات کے حوالے سے تحقیقات ازسرنو کیوں نہیں ہوسکتیں اور اگر
ذوالفقار علی بھٹو کو 32سال بعد بے گناہ قرار دینے کا ریفرنس داخل کیا
جاسکتا ہے تو پھر ماضی میں ہونے والے بہت سارے متنازع مقدمات دوبارہ
کھلوانے کے ریفرنس کیوں داخل نہیں کیے جاسکتے اور اگر ذوالفقار علی بھٹو
کیس میں نظرثانی ریفرنس کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے اس پر اپنی کاروائی کی
تو پھر ایک نیا پنڈورا بکس کھلے گا اور ایسے کیسز کی ایک نہ ختم ہونی والی
فہرست عدالت کی سامنے پیش ہوگی، جس کا علم پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی ہے۔
پیپلزپارٹی نے پہلی مرتبہ عدالت کے سامنے ایک ایسا ایشو رکھا ہے جس کے
حوالے سے قانونی ماہرین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک طبقے کا یہ خیال بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ میں
پیپلزپارٹی اور حکومت کے بعض اہم کیس پیش ہوں گے، پیپلزپارٹی نے ان کے
سامنے بند باندھنے کا ابتدائی کام ریفرنس کی صورت میں کیا ہے۔ پیپلزپارٹی
نے پہلی ہی منصوبہ بندی مکمل کرلی ہے، جس کا واضح اشارہ وزیرقانون
بابراعوان نے اپنے بیان میں دیا ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بابر
اعوان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اب خم ٹھونک کر
میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس نظرثانی ریفرنس کے ملکی
سیاست، معیشت، حکومت اور ریاست کے دیگر شعبوں پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے
اور بعید نہیں کہ اس سے ایک نہ ختم ہونے والے بڑی سیاسی جنگ شروع ہو،جس میں
پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مختلف سیاسی و مذہبی قوتیں،عدالت اور دیگر قومی
ادارے ہوں گے۔ ایسا کوئی بھی تصادم عوام کے لیے سخت مسائل اور مشکلات کا
سبب بنے گا۔ |