بالآخر مرکزی حکومت نے اپنی
نالائقیوں، کوتاہ نظریوں، آئی ایم ایف کی غلامی، عوام پر مہنگائی کی صورت
میں ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک جذباتی چال چل ہی
دی۔ ایک طرف لوگ دن رات مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کئے جارہے ہیں، دہشت
گردی نے ریمنڈ ڈیوس کی باعزت رہائی کے بعد ایک نئی رفتار اور نیا عزم پکڑ
لیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب خود کش بمبار کی صورت میں اس کی رہائی کا
جوابی تحفہ نہیں دے دیا جاتا، لوگوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں،
بیٹیاں شادی کی عمر گزرنے کے باوجود وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بابل کی دہلیز
پر سفید بال لئے بیٹھی ہیں، پڑھے لکھے بچوں کو نوکریاں نہیں ملتیں، لوگوں
کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو، رہنے کو چھت نہیں تو پہننے کے لئے لنڈا
بازار بھی ٹیکسوں کی ضد میں آچکا ہے، ڈاکٹروں کے ساتھ مٹکا لگا کر غریب اور
لاچار مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے تو دوسری طرف ذوالفقار
بھٹو کیس کو دوبارہ سنے جانے کا ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس
سے پہلے زرداری صاحب، بینظیر بھٹو کیس کی اقوام متحدہ سے تفتیش کے نام پر
کروڑوں روپے اور قوم کا وقت ضائع کرچکے ہیں، ضائع اس لئے کہ اتنا عرصہ گزر
جانے کے بعد نہ تو کسی قاتل کو عوام کے سامنے لایا گیا ہے اور نہ سزا دی
گئی ہے، کچھ عرصہ کے بعد یہ بیان داغ دیا جاتا ہے کہ ”ہم قاتلوں تک پہنچ
گئے ہیں“ ، ”قاتل جلد عوام کے سامنے ہوں گے“، ”قاتلوں کو جلد سزا دی جائے
گی“ وغیرہ وغیرہ .... لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت
بینظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کو پکڑ سکتی ہے، کیا انہیں عدالت کے کٹہرے میں
لا سکتی ہے، کیا عوام کو ان کے بارے میں بتا سکتی ہے.... ؟ہر سوال کے جواب
میں ایک بہت بڑا نفی سامنے آن کھڑا ہوتا ہے، وجہ سب جانتے ہیں، قاتلوں کو
سب جانتے ہیں، لیکن کوئی بھی، کچھ بھی کر نہیں سکتا....!
بات ہورہی تھی بھٹو کیس کی، اتنے عرصہ کے بعد اس کیس کو کیوں کھولا جارہا
ہے؟ کیا سپریم کورٹ اس کیس کی براہ راست نظر ثانی کی صورت میں سماعت کرسکتی
ہے حالانکہ ایک بار نظر ثانی پہلے بھی ہوچکی ہے، چلیں مان لیا کہ اس وقت
عدلیہ نے صحیح فیصلہ نہیں کیا تھا، وہ فوجی آمر ضیا الحق کے دباﺅ میں تھی،
وہ امریکہ کے دباﺅ میں تھی یا کیسی بھی وجوہات تھیں، تو کیا پیپلز پارٹی نے
موجودہ عدلیہ کے باقی سارے احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا ہے، کیا
اب بھی اگر سندھ کے کرتا دھرتاﺅں پر توہین عدالت کی کاروائی ہوتی ہے اور
انہیں سزا بھی ہوجاتی ہے تو سپریم کورٹ اتنی ہی محترم رہے گی خصوصاً
ذوالفقار مرزا جیسے قائدین کے نزدیک؟کیا ملک میں بدامنی ختم ہوچکی، مہنگائی
میں کمی آگئی، لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوگیا؟ بے گھروں کو چھت، بھوکوں
کو روٹی اور ننگوں کو کپڑا مہیا کردیا گیا؟ کیا ہم امریکی غلامی، آئی ایم
ایف کی ڈکٹیشن کے اثرات سے نکل آئے؟ کیا نچلی سطح پر انصاف کا بول بالا
ہوگیا؟ علاج معالجے کی سہولتیں عام اور مفت ہوگئیں؟ قوم کے باقی سارے مسائل
کا حل تلاش کرلیا گیا؟
اگر پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اس کیس پر دوبارہ نظر ثانی میں
اس کی بقاء کا راز پنہاں ہے اور اس کے ناراض ووٹر اس ”ٹرمپ کارڈ“ اور
جذباتی حوالے سے دوبارہ اسے آئندہ الیکشن میں ووٹ دے دیں گے تو تو شائد وہ
یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھٹو کی ہی ذات تھی جس نے اس کے مخالفین کو آپس میں
اختلافات رکھنے کے باوجود اکٹھا کردیا تھا، پہلے قومی اتحاد اور بعد ازاں
آئی جے آئی اسی بھٹو مخالفت کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے، اگر مان لیا
جائے کہ بھٹو کی پھانسی عدلیہ کا ایک غلط فیصلہ تھا تو بھی سپریم کورٹ اس
سلسلہ میں صرف اپنی رائے دے سکتی ہے اور دوبارہ ٹرائل کے لئے بہرحال قانون
سازی کی ضرورت پیش آئے گی، وہ حکومت جس کو آنے والے بجٹ کی فکر پڑی ہے اور
جس کے آسانی سے پاس ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں وہ اپنی آخری
سانسوں میں دوبارہ ٹرائل کرنے جیسے معاملات پر کیسے قانون سازی کرسکے گی؟
کیا نواز شریف اینڈ کمپنی اس کی مدد کریں گے یا چوہدری شجاعت کی پارٹی کہ
جن کے والد چوہدری ظہور الٰہی کو قتل کرانے والے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اس کیس کی دوبارہ سماعت سے کتنے پنڈورہ بکس کھلیں گے اس بارے میں سمجھنے کے
لئے بھی کسی سائنسدان کا ذہن درکار نہیں ہے۔ مسلم لیگ نواز والے جو ، اب
ذوالفقار علی بھٹو کا نام کسی حد تک عزت سے لینے لگے تھے اب وہ ستر اور اسی
کی دہائی میں واپس جانے لگے ہیں، وہ اختلافی معاملات جو پیچھے دفن کئے
جاچکے تھے اب مولا جٹ کے ”گنڈاسے“ کی طرح قبروں سے باہر نکلنے شروع ہوگئے
ہیں۔ اس کیس کا کیا بنتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات
جو زبان زد عام ہے وہ یہ ہے کہ عدلیہ کی توقیر میں اضافہ ہوگا اور موجودہ
حکومت کی بے عزتی میں کوئی کمی ہرگز واقع نہیں ہوگی کیونکہ بھٹو کے ڈائریکٹ
وارثوں میں سے صرف نصرت بھٹو زندہ بچی ہیں جو اس وقت بھی وراثت کے معاملات
کی وجہ سے ”پس دیوار“ ہیں جبکہ احمد رضا قصوری بقلم خود، پورے کروفر کے
ساتھ موجود ہیں اور وہ اگر مشرف جیسے ”شیطان“ کی بھی وکالت کرتے ہیں تو
دھڑلے سے، انہیں منہ کالا کروانے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتا اور کرنے میں
بھی نہیں ہوگا، عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں۔
”تمہیں اٹھکیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں“ |