اسلاموفوبیا سے تہذیبوں کے تصادم کا خطرہ

اقوام متحدہ کے اہم مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بلاامتیاز نسل، جنس، زبان یا مذہب سب کے لیے بنیادی آزادی اور ان کے حقوق کا فروغ و احترام یقینی بنایا جاسکے، ماضی میں مختلف مزہبی و نسلی گروہ الگ الگ ہوا کرتے تھے اور ان میں باہمی اشتراک بہت کم تھا اس لیے اقلیت کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا لیکن جمہوری نظام کے ارتقاء کے باعث کثیر مذہبی، کثیر لسانی، اور کثیر تہذیبی معاشرے وجود میں آئے اور اقلیتوں کا وجود بڑھا تو عالمی سطح پراقلیتوں کے حقوق کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا گیا جس کی بنا پر بین الاقوامی قوانین میں اقلیتوں کے حقوق کو ملحوظ رکھا گیا، عالمی انسانی حقوق کی ضرورت و اہمیت درحقیت انسانی فطرت کا نتیجہ ہے، انسان فطری طور پر امن پسند اور انصاف پسند ہے لیکن جب انسانیت کے دشمن نفرت کی آگ سلگادیں تو انسان اپنی فطرت سے ہٹ جاتا ہے اہلیان مغرب بدقسمتی سے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز پروپگینڈوں کو بطور ھتیار استمال کررہے ہیں ایسا ہی پروپگینڈہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاگیا خصوصی طور پر نائن ایلیون کے بعد اسلام کو دگشتگردی کے ساتھ جوڑ کر دکھایا جاتارہا جس کے نتیجے میں نفرت کی یہ آگ ایک مظبوط قلعہ بن گئی جس نے اہلیان مغرب کو اسلاموفوبیا کا شکار کردیاہے نتیجتاً دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے فوبیا کا مرض دراصل Neologism کی جدید شکل ہے یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مریض کسی اجنبی چیز کو دیکھ کر ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے، مغرب میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف و کراہت کو لے کر اسلاموفوبیا کا مرض شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اسلاموفوبیا کی اصطلاح 40 سے پچاس سال پرانی ہے لیکن اس کا بڑے پیمانے پہ استعمال نائن الیون کے حادثے کے بعد دیکھنے میں آیا جس کی آڑ لیکر مغربی میڈیا نے اسلام کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور مسلمانوں کو دہشتگرد بناکر پیش کیا جانے لگا اس ضمن میں مغربی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا نے اسلام کی بھیانک و وحشیانہ تصویر کشی کی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے ہندوتوا میڈیا بھی اس روش پہ چل نکلا، نائن الیون کے بعد ایسی خبریں اور رپورٹیں شائع کی جاتیں جن میں مسلمانوں کو مغرب کا دشمن دکھایا جاتا، قرآن مجید کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب اسلاموفوبیا میں مبتلا ہوگیا اور مسلمان ہونا انکے نزدیک گالی بن گئی، رنی میڈ ٹرسٹ Runnymede Trust رپورٹ 1997 کے مطابق ''مغرب میں اسلام کو ایک اجنبی چیز سمجھا جاتا ہے'' اس کا سبب مغربی ذرائع ابلاغ کا اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہے، مخصوص مغربی میڈیا ایک خاص ایجنڈے پر عمل پیرا رہا ہے اور اسلام مخالف پروپیگنڈوں میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا اسلام کو مغربی تہذیب دشمن، مغربی ثقافت دشمن، مغربی دنیا دشمن دکھایا گیا، کسی بھی ایک کردار کو لیکر اسے اس طرح اچھالا گیا کہ فرد یا چند افراد کے گروہ کو تمام عالم اسلام کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، دوسری طرف سفید فام دہشتگردی White Terrorism کو ایک فرد کی غلطی بنا کر پیش کیا جاتا رہا، پھیلتی ہوئی اسلاموفوبیا کی بیماری تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے، قرآن مجید کے ساتھ گوانتا نامو بے اور ابوغریب جیل میں جو توہین آمیز سلوک کیا گیا وہ اسلاموفوبیا ہی کا نتیجہ تھا اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں جس طرح مساجد کے اندر مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھتا ہوا قدم تھا، آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی علاقے میں مسلمانوں کیساتھ توہین آمیز سلوک اور مقدس ہستیوں کے توہین آمیز کارٹون و خاکے بھی تہذیبوں کے تصادم کی راہ کھول رہے ہیں، ہالینڈ میں ایک اسلام دشمن شدت پسند تنظیم کی جانب سے کی جانے والی توہین قرآن کے واقعے پر تمام عالم اسلام میں ناراضگی و تشویش پائی جارہی ہے، UN سیکریٹری جنرل گٹیرس نے دورہ سعودی عرب کے موقع پر اسلاموفوبیا کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے کیونکہ اسلاموفوبیا میں اہلیان مغرب اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں نہتے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم نظر نہیں آتے، روہنگیا سے فلسطین تک اور بھارت سے مقبوضہ کشمیر تک بھارتی فورسز کے ظلم و جبر کا نشانہ بننے والے نہتے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوے اہلیان مغرب کو اسلاموفوبیا سے نکلنے کے لیے جھنجوڑا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جاگنے کے لیے اکسایا مگر اس کا نتیجہ بھی خاطرخواہ نہیں نکلا، اہلیان مغرب کی اسلاموفوبیا کے مرض میں جکڑے رہنے اور عالمی اداروں کی غفلت یقینی طور پر تہذیبوں کے تصادم کے طور پر سامنے آئے گی جس کے نتیجے میں عین یقینی ہے کہ کوئی بھیانک عالمی جنگ ہو اور یہ دنیا ختم ہونے کے مترادف ہوجائے۔
 

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 89362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.