مہاراشٹر کے سیاسی انتشار نے نظام جمہوریت پر سوالیہ نشان
کھڑا کردیا ہے ۔ اس قضیہ کی ملا نصیرالدین کی دو حکایات کی مدد سے سمجھا
جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ ملا نصرالدین اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھے تھے، ان کے
ایک دوست نے دست سوال دراز کیا کہ مجھے ضروری کام سے پاس کے گاؤں جانا ہے
اور کچھ سامان بھی ساتھ ہے، براہ کرم، آپ کا گدھا عنایت فرما دیں گے تاکہ
اسےساتھ لے جاؤں ۔شام تک لوٹا دوں گا ۔ملا جی نے دوست کو ٹالنے کے لیے کہہ
دیا کہ، گدھا توکوئی اور لے گیا ہے۔ اتنے میں صحن سے، گدھے کی ڈھینچو سنائی
دی۔ دوست نے کہا کہ، ملاجی گدھا تو یہیں پر موجود ہے! اس پر انہوں نے
برجستہ پوچھا کہ، ایں ! آپ مجھ پر یقین کریں گے کہ گدھے پہ؟
ملانصرالدین کی جو تصاویر گوگل پر موجود ہیں ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں کہ
جن میں وہ گدھے کی مخالف سمت رخ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس حیرت انگیز منظر
کو دیکھ کر کسی نے ان سے پوچھا ، ملاجی کہاں کا قصد ہے؟ کدھر جارہے ہیں ؟
تو انہوں نے جواب دیا جہاں گدھا لے جارہا ہے وہیں جارہا ہوں ۔ ڈاکٹر مرتضی
ٰ مطہری نے اس کی مثال جمہوری نظام سے دی ہے۔ گدھا بیچارہ خود نہیں جانتا
کہ اسے کہاں جانا ہے؟ ساون کے گدھے کو ہری ہری سوجھتی رہتی ہے ۔ وہ کبھی اِ
دھر منہ مارتا ہے کبھی اُدھر منہ مارتا ہے ایسے میں اس کے سوار کی جوحالت
ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ہر الیکشن کے موقع پر عوام کا یہی
حال ہوتا ہے کہ ؎
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
سیاسی نظریہ کی مثال بیج کی سی ہے کہ وہ پیڑ پرتو نظر نہیں آتا مگر پھل
موجود ہوتا ہے۔جمہوریت کے ان کڑوے کسیلے پھلوں کو دیکھ کر اس کے تخم کی
خصلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس فاسد نظام سیاست کے کڑوے کسیلے پھل فی
الحال پوری دنیا نوش فرمارہی ہے ۔ کہیں پر انتخاب کے بعد مودی جیسےمہان
گیانی برسرِ اقتدار آجاتے ہیں کہ جنہیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا
کہہ رہے ہیں تو کہیں ٹرمپ جیسے عظیم دانشور کو صدارت تھما دی جاتی ہے کہ
جوخود نہیں جانتا کہ کیا کررہا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ جیسے عظیم جمہوری
ممالک میں تو خیر مختلف نظریات کی حامل کئی سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں ۔
ایک زبردست مہم کے بعد انتخابات ہوتے ہیں اس کے باوجود ایک سے بڑھ کر ایک
احمق اقتدار پر فائز ہوجاتا ہے۔
مشرقی یوروپ کی ایک نوزائیدہ جمہوریت یوکرین ہے ۔ وہاں کے لوگوں نے کسی بڑی
جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے ولودومیر زیلینسکی نامی مسخرے کو اپنا صدر منتخب
کرلیا ۔ سابق صدر پیٹرو پروشینکو کو شکست فاش سے دوچار کرنے والا زیلینسکی
ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل پر پیش کیے جانے والے طنزیہ ڈرامے میںبدعنوانی کے
خلاف لڑتےہوے صدر منتخب ہوجانے والے استاد کا کردار ادا کرتا تھا۔ عوام نے
سوچا کہ کیوں نہ انتخاب کے ذریعہ اس خیال کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔یوکرین
کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے اپنی سیاسی جماعت کا نام بھی وہی رکھا جو
ڈرامے میں دیا گیا تھا۔انھوں نے انتخابات کے تمام روایتی اصولوں اور ضابطوں
کے برخلاف کوئی جلسہ منعقد نہیں کیا بلکہ چند ایک انٹرویو پر اکتفاء کیا
۔ان کے بظاہر کوئی سیاسی نظریات نہیں ہیں ۔ وہ وہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے
کہ حکومت کیسے چلائیں اور نہ عوام یہ جاننا چاہتی ہے۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں
کہ میں پچھلے صدور سے مختلف انداز میں ملک چلاؤں گا اور عوام اس کو مان
لیتی ہے۔ زیلینسکی چونکہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فعال ہیں اس لیے نوجوان
ووٹرز ان کے دلدادہ ہیں ۔ یوکرین فی الحال علاقائی سیاست کی وجہ سے زبانوں
کی سیاست پر تقسیم ہو چکا ہے۔۔ اس وقت وہاں یوکرینی اور روسی زبانوں میں
تصادم کی کیفیت ہے اور بیک وقت دونوں زبانیں بولنا کافی مشکل سمجھا جاتا ہے
تاہم دونوں زبانیں جاننے کے سبب ولودومیر یوکرینی اور روسی علاقوں میں کافی
مقبول ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسخرہ پن یا دو متحارب زبانوں کو جان کر ان میں لطیفے
سنا لینا سرکار چلانے کے لیے کافی ہے ۔ یوکرین کےنئے صدر کو ملک کے مشرق
میں اپنی فوجوں اور روسی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے درمیان خانہ جنگی کے
کا سامنا کرنا ہے ۔ کیا یہ سنگین مسئلہ جس میں ایک مرتبہ روس فوج کشی بھی
کرچکا ہے زبردست سیاسی حکمت و بصیرت کا مطالبہ نہیں کرتے؟ یوکرین فی الحال
یورپی یونین میں شامل نہیں ہے لیکن شمولیت کا دعویدار ہے۔ اپنے آپ کو اس
طاقتور الحاق کا حصہ بنانے کے لیے اسے کئی ایک اقتصادی اصلاحات کرنی ہوں گی
۔ معاشی معاملات کسی پردے پر اداکاری کی مانند سہل نہیں ہوتے ۔ اس میں ہر
قدم مختلف شعبہ ہائے حیات پر الگ الگ انداز سے اثر انداز ہوتا ہے ۔ نوٹ
بندی جیسا ایک احمقانہ فیصلہ مہینوں تک لوگوں کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے
اور قومی معیشت پر اس سے ناقابلِ تلافی نقصانات ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود دیش
بھکت عوام جب برسرِ اقتدار جماعت کو سزا دینے کے بجائے دوبارہ اقتدار کے
انعام سے نواز دیتے ہیں تو بے ساختہ ملانصرالدین کے گدھے کی یاد آجاتی
ہےجس کی پیٹھ پر بیٹھ کر پوری کی پوری قوم ایک بے منزل سفرپر بڑے ذوق و شوق
کے ساتھ رواں دواں ہے۔
جمہوریت کی حقیقت پر ملا نصرا لدین کی ایک اور حکایت صادق آتی ہے۔ پہلی
جنگ عظیم کے بعد جس طرح خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اسی مانند مُلا
نصیرالدین کا گدھا مر گیا ۔ اس کے بغیر ان کی زندگی بڑی مشکل سے گزرنے لگی
چنانچہ کئی مہینوں کی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کرکے وہ ایک نیا گدھا
خریدنے کی غرض سے بازار پہنچ گئے ۔ وہاں پر مختلف خیموں میں گدھے بک رہے
تھے جن میں سے کوئی سرخی مائل اشتراکی خیمہ تھا تو کوئی سفید و شفاف جمہوری
شامیانہ تھا۔ ملا نصرالدین کو جب سبز خیمہ نہیں ملا تو سفید سے گدھا
خریدلیا اور گھر کی راہ لی ۔ وہ رسی تھامے آگے آگے چل رہے تھے اور گدھا ان
کے پیچھے چلا آرہا تھا ۔ راستے میں ٹھگوں کے ایک ٹولہ نے گدھا چرانے کے
ارادے سے ایک آدمی گدھے کے بالکل ساتھ کردیا ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آہستہ
سے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنی گردن میں ڈال دی اور گدھا اپنے
ساتھیوں کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح جمہوریت کےطفیل الحاد و سرمایہ داری اپنی
ساری فتنہ سامانی کے ساتھ ملا نصرالدین کے گھر پہنچ گئی۔
ملا نے گھر پہنچ کر پیچھے دیکھا تو چار ٹانگوں والے کے بجائے دو ٹانگوں
والا گدھا نظر آیا ۔ یہ دیکھ کر حیرانی سے بولے”سبحان اللہ! میں نے تو گدھا
خریدا تھا یہ انسان کیسے بن گیا؟“ ان کو اس ٹھگ میں مومنانہ آن بان اور
شان نظر آ رہی تھی یہ سن کر ٹھگ نے کہا”آقائے من! میں اپنی ماں کا ادب
نہیں کرتا تھا اور ہر وقت ان کے درپے آزار رہتا تھا ۔ ایک دن انہوں نے مجھے
بددعا دی چنانچہ میں انسان سے گدھا بن گیا۔ اس کے بعد میری ماں نے مجھے
بازار میں لے جا کر فروخت کر دیا ۔ کئی سال گدھے کی زندگی بسر کرنے کے
بعدخوش قسمتی سے آپ نے مجھے خرید لیا اور آپ کی روحانیت کی برکت سے میں
دوبارہ آدمی بن گیا“ ۔ اسی طرح کے خیر کی توقعات ملت نظامِ جمہوریت سے
باندھے ہوئے ہے۔ ملا نصرالدین شاطر ٹھگ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر اسی طرح
باغ باغ ہوگئے جس طرح ہم لوگ جمہوریت کے اندر چیدہ چیدہ اسلامی عناصر کو
دیکھ کر جھوم اٹھتے ہیں۔ وفورِ مسرت سے سرشارملا نے نصیحت فرما ئی ” اچھا
اب جاؤ اور اپنی ماں کی خدمت کرو ۔ کبھی اس کے ساتھ گستاخی نہ کرنا “ ۔
ملا نے ٹھگ کی اسی طرح اصلاح فرمائی کہ جیسا رویہ ہم اس فاسد نظام کے تئیں
اختیار کرتے ہیں ۔ وہ ملا کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو گیا ۔ اگلے دن
ملانصرالدین نے کہیں سے جگاڑ کر کے کچھ رقم جمع کی اور پھر سے گدھا خریدنے
کے بازار پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ پہلے دن والا گدھا کسی نئے
گاہک کا منتظر ہے ۔ اس موقع پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں اپنی حماقت
کا حساس ہوتا لیکن الٹا گدھے پر رحم آگیا ۔ بس پھر کیا تھا عصرِ حاضر کے
مسلمانوں جیسی سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیر خواہی کے جذبہ سے سرشار
ملا نصرالدین گدھے کے پاس پہنچے اور اس کے کان میں کہا ’’لگتا ہے تم نے
میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اس لیے پھر گدھے بن گئے۔ “ افسوس کے امت مسلمہ
اس گدھے کو گھوڑے سے بدلنے کے بجائے اصلاح ِ خرپر اپنا قیمتی وقت اور
توانائی صرف کررہی ہے۔ ایسے میں چچا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں
|