پاکستان میں اس وقت میاں محمد نواز شریف اور آصف علی
زرداری کی علالت، فارن فنڈنگ کیس، جنرل (ر)پرویز مشرف کیس، مولانا فضل
الرحمان کی اسلام آباد سے واپسی کے اسباب کے بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ
کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن کی معطلی پر زوردار بحث و مباحثہ ہو
رہا ہے۔ اس گپ شپ میں ان ایک کروڑ کشمیریوں کی حالت زار پس پردہ چلی گئی
ہے۔ جو کبی دنیا کی خوبصورت ترین جیل اور کبھی یخ بستہ جیل کے قیدی قرار
دیئے جا رہے ہیں۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا بھی اعتراف کر رہا
ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک ملٹری سٹیٹ بن چکا ہے۔ پہلے چپہ چپہ پر بھارتی فوجی
نظر آتے تھے ۔ اب اینچ اینچ پر نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف محاصرہ تنگ
کر دیا گیا ہے۔ یہ اعتراف یشونت سنہا، جو کبھی بی جے پی کے سینئر لیڈر
سمجھے جاتے تھے، نے دہلی میں کسی اخباری بیان میں نہیں کیا بلکہ سرینگر میں
اپنے تین روزہ دورہ کے آخر پر کیا۔ یشونت سنہا سول سوسائٹی کے ایک گروپ جس
کا نام’’ کنسرنڈ سٹیزنزگروپ‘‘رکھا گیا ہے کی قیادت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر
کا دورہ کر رہے تھے۔ ان کے وفد میں دیگر چار افراد کپل کاک،شوبھا بھاروے،
وجاھت حبیب اﷲ اور بھارت بھوشن شامل تھے۔ 21نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ میں
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات
نارمل ہیں۔ تا ہم یشونت سنہا نے کہا کہ حالات نارمل نہیں بلکہ خراب ہیں۔
عوام خوفزدہ ہیں۔ ان پر پابندیاں ہیں۔ بھارتی حکومت سچ چھپانا چاہتی ہے۔
اسی وجہ سے بھارتی سول سوسائٹی وفد کو بھی سرینگر سے باہر جانے سے روک دیا
گیا۔ شوپیاں اور پلوامہ جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس سے پہلے کانگریس سے
سینئر رہنما اور مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی پہلے
سرینگر ہوائی اڈے سے ہی واپس کر دیا گیا اور دوسری بار سرینگر اس وفد کے
ارکان کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں برفباری کے
بعد کڑاکے کی سردی ہے۔ اسی وجہ سے یشونت سنہا اور ان کا گروپ کشمیر کو یخ
بستہ جیل کا خطاب دے رہا ہے۔ کشمیریوں کے گھروں کے باہر بھارتی اہلکار گشت
کر رہے ہیں۔ کاروباری مراکز بند ہیں۔ کبھی لوگ خود ہی صبح کے وقت گھنٹہ ،
دو گھنٹہ کے لئے مارکیٹ کھول کر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ سرکاری دفاتر بند
ہیں۔ ’’دربار مو‘‘دفاتر جموں میں کام کر رہے ہیں۔ جموں، اودھم پور، کٹھوعہ
سمیت ہندو اکثریتی شہروں میں پابندیاں نہیں۔ تا ہم جموں کے عوام بھی بھارتی
اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ کیوں کہ بھارتی شہری ان کی زمین جائیداد
پر بھی قبضے کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کیا گیا۔
تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ ہونے سمیت معاشی حالت بھی تباہ ہو گئی ہے۔
سیاحت کو بھی دھچکا لگا ہے۔بھارتی حکومت ان حالات کو نارمل قرار دے رہی ہے۔
ان کے اپنے سابق وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بھارتی حکومت کے دعوؤں کو گمراہ
کن سمجھتے ہیں۔
115دنوں سے کشمیریوں کے دنیا سے مواصلاتی روابط مکمل طور پر منقطع ہیں۔
انٹرنیٹ بند ہے۔ اخبارات بند ہیں۔کیبل ٹی وی بند ہے۔ سٹیلائٹ چینلز بند کر
دیئے گئے ہیں۔ پاکستانی، ترکی، ایرانی چیلنز پر خاص طور پر پابندی ہے۔ آج
کے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ترین ہے۔ اس سے ایک کروڑ
عوام کی معاشی، تعلیمی، غرض زندگی کی تمام سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں۔
ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ نجی شعبہ مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا ہے۔
کشمیریوں کے لئے سوشل میڈیا اب ایک خواب بن چکا ہے۔ وہ جیسے نابینا، گونگے
اور بہرے ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ان پر مظالم کا روا رکھا جاناالم ناک ہے۔
کشمیریوں کی یہ بسی اور اس پر پاکستان کے اندر کی سیاست بھی حیران کن ہے۔
کشمیریوں کی بے بسی اور مظلومیت سے توجہ ہٹانے کے جیسے اسباب پیدا کئے جا
رہے ہیں۔ یو این جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کو مسلہ کشمیر
لکے حل کے طور پر پیش کیا گیا۔ کمی پیشی جمعہ کے روز دو منٹ کی اظہار یک
جہتی سے پوری کی گئی۔ چند تقاریر اور مارچ کا لولی پاپ دیا گیا۔
کیا اس سب سے کشمیریوں کو کوئی ریلیف ملا۔ جب کبھی دنیا کی توجہ اس جانب
مبذول ہوئی تو ایک دم سے توجہ کشمیر سے ہٹا کر دیگر ایشوز پر لگا دی گئی۔
گورنر ہاؤس پنجاب میں میوزیکل نائٹ کا اہتمام بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار
یک جہتی کی نذر کر دیا گیا۔ رومانیہ کا پاپ بینڈ کیسے کشمیریوں کے ساتھ یک
جہتی کرسکتاہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ترقی نسواں ٹاسک فورس اس ناچ گانے
پروگرام کی میزبان تھیں۔ نیت پر کوئی شک نہیں مگر بھارتی مظالم اورماردھاڑ
کے مارے کشمیریوں کی چیخ و پکار ناچ نغموں سے کیسے ختم ہو گی۔ نقارخانے میں
طوطی کی آواز کون سن سکتا ہے۔
بھارت نے کشمیر کو مکمل طور پر اپنا اٹوٹ انگ بنا دیا۔ مگر ہم آزاد کشمیر
پر حملے کے بعد اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا دعویٰ کرتے رہے۔ یہ ثابت ہو
گیا کہ آزاد کشمیر کو ہی کشمیر سمجھ لیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت
پاکستان نے اپنے سارے پتے شو نہ کئے ہوں۔ شاید آگے چل کر مقبوضہ کشمیر کے
عوام کو کوئی خوشخبری مل جائے۔ مسلے کے وکیل اور فریق کی طرف سے کشمیر کو
اپنی پیلی ترجیح بنانے کا کوئی عملی قدم اٹھا دیا جائے۔ یہ جو خاموشی ہے ،
یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ بن جائے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان حکومت مقبوضہ
کشمیر کو ملٹری سٹیٹ میں تبدیل کرنے کے خلاف کوئی بڑا، سفارتی یا سیاسی قدم
اٹھا لے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی علالت، فارن فنڈنگ
کیس، جنرل (ر)پرویز مشرف کیس، مولانا فضل الرحمان کی اسلام آباد سے واپسی
کے اسباب، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن
کی معطلی پر زوردار بحث و مباحثہاپنی جگہ ، مگر ، اسلام آباد حکومت کو
اندرونی مسائل کے انبارا ور سر اٹھاتے ایشوز کے ہوتے ہوئے مسلہ کشمیر پر
بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزارت امور کشمیر، کشمیر کمیٹیاں وغیرہ ہی
اس جانب کوئی کردار ادا کریں ، آزاد کشمیر حکومت کو ہی کوئی غیر روایتی
کردار دیا جائے۔ تا کہ ملٹری سٹیٹ کے مظلوم کشمیریوں کو کوئی ریلف مل سکے۔
|