آرمی چیف کی تقرری /توسیع اور ففتھ جنریشن وار

 سپریم کورٹ کا آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کرتے ہوئے’’آرمی چیف ‘کی تقرری و تعیناتی کے سلسلے میں قانون سازی کیلئے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجنے کی ہدایت کردی ۔اس فیصلے پر بعض لوگ خوش ہیں ،بعض گومگو کی کیفیت میں ہیں ،بعض وقتی طور پر بحران ٹلنے پر مطمئن ہوگئے ہیں۔لیکن فیصلے کے موقع پر عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا ’’ عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائیں‘‘ ثابت کرتا ہے کسی نے شاید کوشش کی ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے فوج کے معاملات کو اپنی مرضی کیمطابق سمت دینے میں کامیاب ہو۔مگر عدالت نے مقصد بھانپ لیا اور اپنا پہلو بچاتے ہوئے آرمی چیف کی چھ ماہ کیلئے مشروط توسیع کرکے ’’جان چھڑالی‘‘اور بال مقننہ / انتظامیہ کے کورٹ میں پھینک دی ہے تودوسری طرف اٹارنی جنرل انورمنصور کا ’’ عدالت کے روبرو‘‘یہ کہناکہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایاگیا۔بظاہر زیادہ سنگین بات نہ ہو ۔مگر یہی بات سب سے زیادہ سنگین ہے۔اور اس سے باور کیا جاتا ہے ۔کہ درخواست پر باقاعدہ سماعت کے عدالتی فیصلہ کو حکومتی حلقوں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔اور کمال مہارت سے باور کردیا کہ ’’ہم تو ایسا کوئی پنگا نہیں چاہتے ‘‘مگر یہ عدالت ہے جس نے ایک خبطی شخص کی درخواست پر اس قدر ’’تیزی دکھائی‘‘ بہرحال اٹارنی جنرل کے جواب میں چیف جسٹس آف پاکستان ’’سماعت ‘‘کرنے پر ’’ ہمیں ففتھ جنریشن وارکاحصہ ٹھہرایا گیا‘‘حالانکہ ہماراحق ہیکہ سوال پوچھیں آپ(اٹارنی جنرل) تجویز کریں’’ آرمی قوانین‘‘ کو کیسے درست کریں؟؟ معزز ججزنے ایک قانونی سقم کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 243 میں مدت ملازمت معین نہیں ہے۔جبکہ پیش کردہ سمری میں مدت3 سال لکھ دی گئی ہے۔لہذا اسے آرٹیکل میں لایا جائے۔۔۔۔اگر چہ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس سے ’’بدگمانیوں‘‘کا درکھلتا صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔اور انتظامیہ کی نیک نیتی پر بھی بدگمانی کا سایہ پڑتا ہے ۔اور مختلف حوالوں ،شکلوں اور جہت سے اداروں میں ٹکراؤ کی کوششو ں کا گمان بھی ہورہا ہے۔تو ساتھ ہی ثابت ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی تو کاریگر ہے جو پاکستان کے آئینی اداروں کوکمزور کرنے میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ذمہ دار قومی حلقوں کے نزدیک مقننہ تنقید سے پہلو نہیں بچاسکتی ۔کیونکہ جنہیں ’’قانون سازی‘ ‘ پر توجہ دینی چاہیے ۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کردوسرے معاملات پرم توجہ رہتے ہیں ۔جبکہ ملکی انتظامیہ(حکومت)مدتوں سے ڈنگ ٹپاؤ حکمت عملی پر کاربند چلی آئی ہے۔اس لئے بہت سے کرنے کے کام نہیں ہوئے ۔اور اب موجودہ وقت میں وزیراعظم عمران خان کو شاید کسی ایسی جگہ پر لیجایا جارہا ہے جہاں وہ اس قدر بے بس ہوجائیں کہ آرمی چیف کی تقرری و توسیع کے حوالے سے ’’قانون سازی‘‘کیلئے اُن سارے لوگوں کو کلین چٹ دینے پر مجبور ہوجائیں ۔جن پر کروروں ،اربوں کی قومی دولت لوٹنے کے الزامات پر ادارے کام کر رہے ہیں۔اس طرح کچھ بڑے مگر مچھوں کو فرشتہ بنانے کا بہترین موقع میسر آئیگا۔۔۔۔جبکہ منافع یہ کہ اسمبلی میں پاک فوج کو لتاڑنے کیلئے ’’خوب خوب ‘‘گرما گرم بحث کیجائے۔ اور جن عناصر کو فوج سے ہمیشہ تکلیف رہتی ہے۔وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں پیش پیش رہیں۔

قارئن! سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق دائر کی گئی درخواست میں اُٹھائے گئے نکات کے حوالے سے معزز جج صاحبان نے قابل سماعت قرار کیا دی ۔کہ فوج کے مخالفین کے پروپگنڈہ سیل سرگرم ہوگئے۔سماعت ،درخواست پر ہوئی ۔ درخواست کو ’’ازخود نوتس ‘‘میں تبدیل کرنے کی آئی۔اسکے بعد وہ تمام ہوائی فیکٹریاں چل پڑیں ،جو پاکستان کے ستونو ں کے ’’ٹرائیکا‘‘عدلیہ ،مقننہ ،انتظامیہ کو اپنی خواہشات و ترجیحات کی بھینٹ چڑھانے پر تیار بیٹھے ہوتے ہیں ،عدلیہ سے نالاں و بیزار الگ اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔وہ کب پیچھے رہتے ۔اُنھوں نے بھی خبر سازی شروع کردی ۔اور یہ تاثر دینے لگے جیسے کہ عدلیہ ،فوج کیخلاف سازش کررہی ہو۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کے شریف خاندان سے رشتہ داری ’’ اُجاگر‘‘ہوئی ۔عمران حکومت کیوجہ سے ’’آزمائشوں ‘‘سے دوچار لوگوں نے بھی اپنا سا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی۔یہی نہیں ۔بعض نے تو سوشل میڈیا پر فوج کی حمایت کا تاثر دیکر عدلیہ کو ننگی گالیاں بھی دیں۔آرمی ایکٹ پر غور اور مختلف ریمارکس کو لیکر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو الزامات کا نشانہ بنایا۔ یہ جو چیف جسٹس آف پاکستان جستس آصف سیعد کھوسہ نے آرمی چیف سے متعلق کیس مین یہ ریمارکس دیکر ’’ جنھوں نے ملک کی خدمت کی ان کابہت احترام ہے‘‘کیساتھ’’ آرمی ایکت ‘‘میں درستگی اور چیف کے حوالے سے موجود سقم کو دُور کرنے کیلئے ’’پارلیمنٹ سے رجوع‘‘کرنے کی ہدایت دی۔اور اٹارنی جنرل کی جانب سے تین ماہ کی مہلت کے جواب میں چھ ماہ کا وقت دیتے ہوئے کہا گیا کہ’’ آپ نے کہا ہے قانونی سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں، ہم 3 ماہ کے لئے اس کی توسیع کردیتے ہیں،‘‘۔بارے میں بہت’’پُر اسرار یت‘‘کا تاثر قائم ہونے لگا ہے۔

قارئن!مجموعی طور پر اس وقت ہمارے ملک و معاشرے میں بدلحاظی ،بدتمیزی و بدتہذیبی کا وائرس اس حد تک سرایت کرچکا ہے۔کہ لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے اس امر کا سرے سے احساس ہی باقی نہیں رہتا ۔کہ کب اور کہاں کیا بولنا ہے؟اور کیا جس معاملہ پر رائے زنی کا بھوت سوار ہے ۔کیا اُس سے متعلق کوئی ’’شُد بُد ‘‘ہے؟اب سوال یہ ایسا ’’ وائرس‘‘کہاں سے آیا ؟اسکا جواب کوئی معمہ نہیں ہونا چاہیے ذراگذشتہ تیس سالوں کی ’’انتخابی سیاست‘‘کے دوران مخالفین بارے لغو گفتگو ،الزامات باور کرادیتے ہیں کہ ہر سطع پر سیاسی مخالفین کی عزت و شہرت پر اتنے سوالات اُٹھائے گئے ۔اس قدر الزامات اور کردار کشی ہوئی ۔کہ ملک کی وہ ’’ رائے عامہ ‘‘بُری طرح متاثر ہوئی ۔جس رائے عامہ نے مملکت اور آئینی اداروں سے متعلق ’’عوام‘‘میں اعتماد و یقین کو پیدا کرنا ،بڑھانے میں بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب ملک کی ’’رائے عامہ‘‘سیاسی ضرورتوں ،ترجیحات کی بھینٹ چڑھ گئی ۔تو پھرآئینی اداروں کی ساکھ اور وقارپر سوالیہ نشان تو لگے گا ہی۔ سو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر ملک کے سیاسی جمہوری مزاج نے اپنا کام دکھایا۔سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے کردار پر خوب خوب سنگ باری ہوئی۔ججوں کے کردار پر کیچڑ اُچھالا گیا۔ایسی شر انگیز پوسٹوں سے آئینی ادارے سے متعلق دوسرے آئینی ادارے کے مدمقابل آنے یالانے کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ہمارے عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھنے والے کچھ اُمور کی آڑ لیکر ’’آرمی چیف‘‘کے معاملہ میں سپریم کورٹ کو رگڑا دیا گیا۔معزز ججرکو انڈیا کا ایجنٹ باور کرانے پر زوردیا گیا۔دشمن قوتوں کی چھیڑی گئی ففتھ جنریشن وار میں اعلیٰ عدلیہ کوشریک ظاہر کیا گیا ۔یہ تاثر بطور خاص ظاہر ہوا ۔جیسے یہ سب پاک فوج اور آرمی چیف کی محبت میں کیا جارہا ہو۔ ۔ ۔۔مگر ایساتاثر سرے سے ہی ہے۔فوج اس ملک کا آئینی کردار رکھنے والا اہم اور حساس ادارہ ہے۔جسکا سارا نظام تب بھی ’’آئین و قانون ‘‘کے دائرے میں رواں ہے۔ جب ملک کو خواہشات پر چلانے کا قوی تاثر بھی موجود ہو۔ پاکستان کی مسلح افواج یا اُنکا حامی کوئی فرد ۔افراد اور گروہ ہرگز ہرگزعدلیہ کی ساکھ اور وقار پر حملہ آور نہیں ہوسکتے ہی۔ اور نہ ہی کسی ایسی روش کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں ۔کہ جس سے آئینی اداروں کے درمیان ’’ٹکراؤ‘‘کا تاثر پیدا ہو۔ایک ایسا وقت جب پاکستان کی دشمن طاقتیں مختلف شکلوں میں سر گرم ہیں ۔سی پیک سے لیکر پاکستان کے داخلی اُمور اور کشمیر کے معاملہ پر‘‘دھوکے کی چال‘‘چلی جارہی ہے۔ان حالات میں ہمارے آئینی ادارے مضبوط ہونے ضروری ہیں ۔ اداروں میں مکمل ہم آہنگی کے بغیر’’داخلی و خارجی محاذ پر‘‘ اجتماعی قومی مفاد کا تحفظ یقینی نہیں بنتا۔اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔رہی فوج کی بات تو اُسے قوم اور اپنی بیش قیمتی قربانیوں کا بہت احساس وخیال ہے۔اس لئے وہ ’’ آئین و قانون کی پاسداری‘‘پر مکمل یقین رکھتی ہے۔اور یہ معاملہ بھی اسی تناظر میں لیا گیا ہے۔بہرحال اب امتحان ہے ۔فیڈریشن آف پاکستان کا ۔۔۔اور اسی سے منسلک ہے ملکی سلامتی ۔اب ناصرف عدلیہ کو ’’بے گناہوں کو پھانسی سے پہلے بری کرنے پر توجہ کرنا ہوگی‘‘بلکہ مقننہ کو پارلیمنٹ جیسے مقدس ایوان میں سیاسی قبلہ پرستی کے بجائے اپنا اصل کام کرنا ہوگا ۔جبکہ حکومت کو بھی ماضی کی ڈگر سے ہٹ کر چلانا ناگزیر ہوگا۔کیونکہ فوج نے اس ملک کیلئے خون دیا ہے ۔اوردے رہی ہے ۔وہ آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے درخواست بازی اور پھر عدالتی کارروائی پر ذرا بھی ’’جذباتی ‘‘نہیں ہوئی ۔ اور اپنے اندر شفافیت برقرار رکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہی ۔اس لئے دیگر ادارے بھی محتاط ہوکر اپنا آئینی کام کریں ۔اسی میں سب کی عزت ہے ۔اس سے آگے دندی ہے۔ وہاں سے نیچے لڑھکنے والے صحیح و سالم نہیں رہ سکتے ۔ان نہ نئے انتخابات میں دیرپا حل نکلتا ہے ۔اور نہ ہی عمران خان کو بلیک میل کرکے ۔اور نہ ہی زیادہ دانشوری دکھا کر فوج کا مورال دیکھنے کی ضرورت ہے۔اور ضرورت صرف ’’شرانگیزی‘‘سے پرہیز کی ہے۔بات وہی ہے آگے’’ دندی ہے‘‘ اﷲ کریم وطن عزیز پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Agha Safeer Hussain Kazmi
About the Author: Agha Safeer Hussain Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Hussain Kazmi: 5 Articles with 6199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.