وہ بہت باہمت تھا، ساری زندگی اس نے محنت سے کمائی کرکے
اولاد کو پالا پوسا تھا۔ حالات بہت اچھے چل رہے تھے، ایک ہنستا مسکراتا
گھرانہ تھا۔ بچے سکولوں میں اپنی پڑھائی دل لگی سے کر رہے تھے، وہ محنت
مزدوری کرکے ان کی پڑھائی کے اخراجات بھی برداشت کر رہا تھا۔ مگر شاید قسمت
میں اتنا ہی لکھا تھا۔ بڑھاپا اور صحت کی خرابی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کام
نہیں کر پا رہا تھا۔ ایک دن کام پر جاتا تو طبیعت ناراضگی اختیار کر لیتی
تو وہ کئی کئی دن گھر پر ہی پڑا رہتا، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور جیسے تیسے
کرکے اپنا کام جاری رکھا۔ میں نے اتنی خراب حالت کے باوجود بھی کبھی اسے
کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے کبھی کبھی اس پر رشک ہوتا
تھا کیونکہ،
''''الکاسب حبیب اﷲ ''''
محنت کرنے والا اﷲ کا دوست ہے
مگر وہ تو شدید محنت کیا کرتا اس کی اور اﷲ کی دوستی بھی تو اس قدر گہری ہی
ہو گی۔ مگر آج وہ میرے پاس آیا اور بولا بھائی کوئی کام ہی ڈھونڈ دیں میرے
بیٹے کو۔ کہیں کسی بھی ہوٹل پر، کسی دوکان پر یا کسی چائے کے ڈھابے پر ہی
کیوں نہ ہو۔ میں نے بڑی حیرانگی اس کی بات سنی اور پوچھا کیوں بھائی ایسی
کیا بات ہے؟ بچے کو پڑھائی کرنے دو اگر گھر میں کچھ تنگی ہے تو بتاؤ تمہاری
کچھ مدد کر دیتے ہیں۔ مگر اس نے جواب دیا کہ بھائی اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا
چاہیے کسی کی عادت پڑ جائے تو انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔ میں نے پوچھا کہ
بھائی بیٹے کی پڑھائی ہی چھڑوا رہے ہو اتنے خراب حالات ہیں کیا؟ میں حیران
تھا کہ آج تک جو شخص انتہائی باہمت تھا وہ آج کیسے اتنا کمزور فیصلہ کر
سکتا ہے۔ تو وہ بولا بھائی مجبور ہوگیا ہوں، حالات نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے گھر میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے، ہم سب گھر
والے روز رات بنا کچھ کھائے پئے بھوکے ہی سو جاتے ہیں اس وجہ سے یہ فیصلہ
کیا۔ اگر ابھی بھی یہ فیصلہ نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟ اب بچوں کو بھوکا تو
نہیں مار سکتا تھا ناں۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو رواں تھے، اسے دیکھ
کر اور اتنی بری حالت میں بھی کسی سے امداد نہ لینے والے اس کے فیصلے کو
دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں جو
ہو سکا وہ ضرور کروں گا۔ میری اس بات سے اس کی آنکھوں میں مدھم سی چمک آگئی
اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
عزیزو یہ تو ایک قصہ ہے جو اس ملک میں کہیں کونے میں رونما ہوا، نا جانے
کتنے ہی ایسے واقعات اس ملک کی ہر بستی میں رونما ہو رہے ہیں۔ جانے کس کس
کرب سے لوگ گزر رہے ہیں، جانے کتنے ہی بھوکے سوتے ہیں۔ مگر اے حکمران وقت
تجھے رب سے کیوں خوف نہیں آتا, کیوں تجھے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈر نہیں
لگتا, تو اس قدر رب سے بے خوفی سے حکمرانی کر رہا ہے۔ اے حکمران وقت جب ان
غربت کے ماروں کی، مفلسوں کی، بے حالوں کی اور بے کسوں کی فریاد رب تک بار
بار پہنچے گی۔ تو رب جو حقیقی حکمران ہے ہر ایک چیز کا اس کی لاٹھی اٹھے گی
اور وہ ہر چیز کا رب برابر حساب لے گا۔ اس طرح کے واقعات کا جتنا ذمہ دار
حکمران وقت ہے اتنا ہی ذمہ دار اس کے قریبی خوشحال رشتہ دار بھی ہیں، اتنے
ہی ذمہ دار ہمسائے ہیں، اتنے ہی ذمہ دار اس علاقے کے اور اس بستی کے سربراہ
ڈیرے ہیں۔ جو خود تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں مگر انہوں نے اس کی
مدد کرنے کو مقدم نہ رکھا، اس کے حال سے اپنی نظروں کو پھیرے رکھا۔ وہ بندہ
آج تو چپ ہے کسی سے شکایت نہیں کرتا جس کے ساتھ آج برا ہوتا ہے یا ہو رہا
ہے، مگر کل روز قیامت وہ چپ نہیں رہے گا۔ وہ اپنی ہر شکایت اس حقیقی حکمران
کو لگائے گا۔ اور یقینا وہ حقیقی حکمران اس کی شکایت کا فوری ازالہ کرے گا۔
اس کے آگے کسی بڑے کی بڑائی نہیں چلے گی، کسی افسر کی سفارش نہیں چلے گی،
وہ ہر کسی کا انتہائی انصاف سے فیصلہ کرے گا۔
موجودہ حکمران تو ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست کی تعمیر کے دعویدار ہیں، تو
وہ ریاست مدینہ کے والی کی تعلیمات سے کیسے علیحدگی اختیار کر کے ریاست
مدینہ کی طرز پر اس ریاست کی تعمیر کرسکتے ہیں؟ ریاست مدینہ کے ایک حکمران
حضرت عمر نے جب بھوک سے بلکتے ایک بچے کی آواز سنی تو ریاست پر حکم جاری
کردیا کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو ریاست وظیفہ دے گی، جب کسی گھر میں بھوک
سے روتے بچوں کو دیکھا تو خود بیت المال سے جاکر پیسے اور آٹے کی تھیلی
اپنے کندھوں پر لاد کر ان کے گھر لا کر دیں۔ یہ حکمران جان لیں کہ وہ رب
دیکھ رہا ہے، اور ہر ایک مظلوم اور بے کس کی فریاد سن رہا ہے۔
|