بھارت جیسے گنگا جمنی تہذیب والے دیش کے اندربابری
مسجد کی شہادت کی صورت میں ایک ایسی اَن ہونی انجام دی گئی جس کا محض تصور
بھی سیکولرزم کی بنیاد ہلادینے کے لیے کافی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد
پوراملک ہندومسلم فساد کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ہر طرف بے چینی کا عالم
تھا۔مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔کئی شہر
اس فساد کی زد میں آگئے۔ ہزاروں جوان،بوڑھوں،بچوں،مرد اور عورتوں نے اپنی
جانیں گنوائیں اور بے دریغ انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی۔گھروبار تباہ کیے
گئے۔ تجارت وآمدن کے ذرائع مسدود ہوگئے۔ملک کا بھائی چارہ ختم ہوگیا اور
دیش کی جمہوریت کو بے موت ماردیا گیا۔
بابری مسجد قضیہ کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے مطابق سولہویں صدی عیسوی
میں اس مسجد کی تعمیر سے ان کے دیوتا رام کی جنم بھومی تک رسائی ختم کردی
گئی تھی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے ۔
ہندوؤں کے خیال کے مطابق چوں کہ اس جگہ پر پہلے سے موجود مندر کو توڑ کر یا
اس میں ترمیم کرکے بابر کے زمانہ میں مسجد بنائی گئی تھی ،اس لیے 6؍ دسمبر
1992ء کو باضابطہ منظم سازش کے تحت دیش کی ہندوانتہاپسند تنظیم
وشوہندوپریشد کے کارکنوں،بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی
تنظیموں کے افراد نے تقریباً دولاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام مقدس پر
چڑھائی کرکے مسجد کی عمارت کو شہید کردیااور اس جگہ پر قبضہ کرکے رام للا
کی مورتی نصب کردی۔
تاریخی پس منظر
شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم ’’میرباقی اصفہانی ‘‘نے 1528ء مطابق
935ھ میں تین گنبدوں والی یہ بابری مسجدریاست اتر پردیش کے ضلع ایودھیا
میں تعمیر کرائی تھی۔ مسجد کے چھت والے حصہ میں تین صفوں کی جگہ تھی اور ہر
صف میں ایک سوبیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے،جب کہ صحن میں چار صفوں کی وسعت
تھی،اس لحاظ سے بابری مسجد میں بیک وقت 800نمازی نماز اداکرسکتے تھے۔مسجد
کی تعمیر کے وقت سے ہی یہاں جمعہ اور پنج وقتہ نماز ہواکرتی تھی۔عدالت کے
کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1858عیسوی سے 1870عیسوی تک اس مسجد کے امام
وخطیب ’’محمد اصغر‘‘ تھے۔1870سے 1900 عیسوی کی مدت میں مولوی عبد الرشید نے
امامت کی ذمہ داری نبھائی۔ 1901سے 1930کے عرصہ میں یہ کام مولوی عبدالقادر
کے سپرد ہوا اور 1930سے 1949عیسوی تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان
بابری مسجد میں جمعہ اور پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔
منحوس دور کا آغاز
مصدقہ تاریخوں اور مذہبی نوشتوں کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر سے لے کر
انگریزوں کی سامراجی حکومت کے قبضہ جمانے تک ایودھیا میں ہندومسلم انتہائی
میل ملاپ اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے تھے؛مگر 1855ء مطابق 1272ھ میں
انگریزوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کے تحت
مسجد،مندراور جنم استھان کاشوشہ چھوڑ کر اس گنگاجمنی تہذیب کاشیرازہ بکھیر
دیا،جس کے نتیجہ میں 1855عیسوی میں ایودھیا کے اندر زبردست خونریزی
ہوئی۔اسی منحوس تاریخ سے ہندومسلم اورمندر ومسجد کاتنازع شروع ہوااورمذہبی
کش مکش کی بنیاد پر دونوں ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوگئے۔
مورتی رکھنے اور تالا لگانے کا واقعہ
22/23دسمبر 1949عیسوی کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت ’’ابھے رام
داس‘‘ نے اپنے چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر ٹھیک محراب (امام کی جگہ) کے
اندر ایک مورتی رکھ دی ۔اس وقت ڈیوٹی پر مقرر ’’ماتو پرشاد‘‘کانسٹبل نے صبح
کو تھانہ میں یہ رپورٹ درج کروائی:’’ابھے رام داس،سدرشن داس اور پچاس ساٹھ
نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت(بیٹھا)کر کے مسجد کو ناپاک
کردیا ہے، جس کی وجہ سے اَشانتی(نقص امن)کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔‘‘اس رپورٹ
کی بنیاد پر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے قانون ہند کی دفعہ 145کے تحت مسجد
اور اس سے متصل گنج شہیداں کو قُرق کرکے تالا لگوادیا اور پریہ دَت رام چیر
مین کو اس کی حفاظت کے لیے رسیور مقرر کردیا۔
مسجد کو ضبط کرنے اور اس میں تالالگانے کے بعد16جنوری 1950ء کو گوپال نامی
ایک شخص نے یہ دعویٰ دائر کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے،ہم یہاں پوجاپاٹ
کرتے ہیں؛مگر مسلمان اور ضلعی حکومت اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔لہذا اس رکاوٹ
کو ختم کرکے ہندوؤں کو اس میں پوجا پاٹ کی باضابطہ اجازت دی جائے۔اس مقدمہ
کے دائر ہونے کے تیسرے دن یعنی 19؍ جنوری 1950عیسوی کو عدالت نے ہندو
مسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دے دیا،پھر 13مارچ 1951ء کو
عدالت نے پجاریوں کو مسجد میں جاکر پوجاپاٹ کرنے کی اجازت دے دی اور
مسلمانوں کو منع کردیا ۔حالانکہ گوپال سنگھ کے دعویٰ کا جواب دیتے ہوئے فیض
آباد کے ایس پی کرنا سنگھ نے 1؍ جون 1950ء کوعدالت سے کہا تھا کہ ’’زمانہ
قدیم سے بابری مسجد ہے ،اس میں مسلمان ہمیشہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے
ہیں؛لہذا ہندوؤں کا اس سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں ہے۔‘‘پھر بھی عدالت
بہری بنی رہی۔
تالا کھول دیا گیا
اس حد تک مسلمانوں کو اطمینان تھا کہ مسجد ابھی مقفل ہے اور ہائی کورٹ میں
مقدمہ زیر سماعت ہے۔مگراسی دوران ’’رمیش پانڈے‘‘نے صدرمنصف فیض آباد کی
عدالت میں یہ درخواست دی کہ’’جنم استھان میں پوجا پاٹ کی اجازت ہونی
چاہیے،اس لیے عدالت ضلع انتظامیہ کو حکم دے کہ جنم بھومی بابری مسجد کا
تالا کھول دے۔‘‘صدر منصف نے یہ کہہ کر درخواست خارج کردی کہ ’’اس مقدمہ کی
رہنمافائل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے اس درخواست پر کوئی فیصلہ
نہیں کیا جاسکتا۔‘‘پھرجب منصف کے اس فیصلہ کے خلاف مسٹر کے ،ایم پانڈے
ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں 30جنوری 1986عیسوی کو اپیل دائر کی گئی، تو ڈسٹرکٹ
جج نے یکم فروری 1986ء کو پونے بارہ بجے یہ یک طرفہ فیصلہ دیا کہ ’’ضلع
انتظامیہ تالا کھول دے اور رمیش پانڈے ودیگر پجاریوں کو پوجاپاٹ کی عام
اجازت دی جائے،اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔‘‘اس جانب دارانہ
فیصلہ کے بعد بلاکسی تاخیر کے 5بج کر 19منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیا
گیا اور ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کیے گئے تھے سب مسجد میں گھس گئے۔ اس کھلی
ہوئی ناانصافی اور زیادتی پر جب مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو
رائفل کی گولیوں سے انھیں ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا؛خاص طور پر بارہ
بنکی،بنارس اور بنگلور وغیرہ شہروں میں سرکاری پولیس نے مسلمانوں کے خلاف
دردناک بہیمیت کا برتاؤ کیا۔
مسجد کو مسمار کرنے کی سرگرمیوں کا آغاز
1986عیسوی میں مسجد کے اندر عام پوجاپاٹ کی اجازت کے بعد ہندوؤں کے حوصلے
بلند ہوگئے، اور مسجد کو مسمار کرکے مندر بنانے کی تشدد آمیز کوششیں شروع
کردی گئیں۔چنانچہ وشو ہندوپریشد کے سربراہ اشوک سنگھل نے دھمکی کی زبان میں
یہ کھلا اعلان کیا کہ 9؍نومبر 1989ء کو مندر کا شلا نیاس(سنگ بنیاد)ہوگا
اور ملک کی کسی سیاسی پارٹی کی یہ ہمت نہیں کہ وہ ہمارے اس پروگرام کو روک
دے۔‘‘ہندوؤں کی یہ تحریک جاری رہی یہاں تک کہ الیکشن ہوا اورمرکز میں
کانگریس نے نرسمہاراؤ کی قیادت میں حکومت بنائی جب کہ یوپی میں کلیان سنگھ
کی زیر سرکردگی بھاجپا کی حکومت قائم ہوگئی۔کلیان سنگھ نے وزارت سازی کے
بعد سب سے پہلاکام جو کیا وہ یہ تھا کہ اپنے وزیروں کو ساتھ لے کر ایودھیا
آیا اور بابری مسجد میں رکھی گئی مورتی کے پاس کھڑے ہوکر یہ عہد کیا
کہ’’رام لَلا ہم آئیں گے ،مندر یہیں بنائیں گے‘‘۔اس عہد وپیمان کے بعد
کلیان سنگھ نے قانون وانصاف کو پس پشت ڈال کر رام مندر کی راہ میں رکاوٹوں
کو دور کرنے کی مہم شروع کردی۔بابری مسجد سے ملحق موقوفہ متنازعہ اراضی کو
اپنی تحویل میں لے کر وشو ہندوپریشد کے حوالہ کردیااورتوہین عدالت کا
ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ پر پختہ چبوترہ بنوادیا۔مسلم لیڈران اس غیرقانونی
اقدام پر مرکزکی کانگریسی حکومت سے احتجاج کرتے رہے مگر حکومت نے کوئی مؤثر
کارروائی نہیں کی۔ نتیجتاً وشوہندوپریشد نے کھلم کھلا اعلان کردیا کہ
6دسمبر1992کو کارسیوا ہوگی۔اس اعلا ن کے بعد تمام فرقہ پرست تنظیمیں حرکت
میں آگئیں۔بھاجپا کے سابق صدر ایل ،کے ،ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی یاترا
پر نکل پڑے اور تخریب کار عناصر کارسیوک کے نام پر اجودھیامیں جمع ہونے
لگے۔ادھر یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے عدالت اور مرکز کو حلفیہ اطمینان
دلایا کہ مرکزی حکومت کی ذرہ برابر بھی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔وزیر
اعظم نرسمہاراؤبھی قوم کو اطمینان دلاتے رہے کہ بابری مسجد کی حفاظت حکومت
کی ذمہ داری ہے۔مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی ایودھیا پہنچ گئی مگر
اسے نامعلوم مصلحت کی بنیاد پر بابری مسجد سے دوڈھائی کلومیڑ دور ہی رکھا
گیا اور نیم فوجی دستے مسجد کی مصنوعی حفاظت کے لیے اس کے چاروں طرف متعین
کیے گئے،مگر انھیں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی سخت ہدایت تھی کہ رام بھگتوں پر
کسی بھی حال میں گولی نہ چلائی جائے۔
غرض ان تمام منظم سازشوں کے سائے میں 6؍دسمبر1992 عیسوی کی وحشتناک تاریخ
آگئی۔ایڈوانی،سنگھل،ونے کٹیار اور اومابھارتی وغیرہ دولاکھ کارسیوکوں کی
فوج لیے ایودھیا کے میدان میں پہلے ہی سے موجود تھے۔ان لیڈروں کی رہنمائی
میں تشدد پر آمادہ تربیت یافتہ کارسیوکوں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ(11:55am)
پر بابری مسجد پر دھاوابول دیا اور بغیر کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے پورے
اطمینان کے ساتھ چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ پھینکتے رہے،یہاں تک کہ
صفحہ زمین سے بابری مسجد کا نام ونشان مٹادیا گیا۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ
بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ مقدمہ جب الہ آباد ہائی کورٹ میں گیا تو تین
ججوں پر مشتمل سہ رکنی بنچ میں شامل دو ہندو ججوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ مغل
بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اس مقام پر جو عمارت تعمیر کروائی تھی وہ در اصل
مسجد نہیں تھی،لہذا ایک مندر کے مقام پر مسجد کی تعمیر اسلامی اصولوں کے
خلاف ہے۔تاہم اس بنچ کے ایک مسلم جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھاتھا کہ
مسجد کی تعمیر کے لیے اس مقام پر کسی مندر کو نہیں گرایا گیا تھا ،بلکہ
مسجد کی تعمیر ایک کھنڈر پر ہوئی تھی۔الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 30؍
ستمبر 2010عیسوی کو سنایا تھا۔جس میں آستھاکو بنیاد بناکربندر بانٹ کی روش
اختیار کی گئی تھی۔ اس فیصلہ میں 3؍ججوں نے یہ حکم دیا تھا کہ ایودھیا کی
2.77؍ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ،اس میں سے ایک تہائی زمین
رام للا مندر کے پاس جائے گی جس کی نمائندگی ہندومہاسبھاکرتی ہے۔ایک تہائی
سُنی وقت بورڈ کو جائے گی اور باقی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑہ کو ملے
گی۔مگر ہندواور مسلم تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم
کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھی،جس کے بعد 2011ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ
کو معطل کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
مہان بھارت کے سپریم کورٹ میں ملک کے سب سے پرانے اور طویل عرصہ سے چلے
آرہے مذہبی تنازع کے مقدمہ بابری مسجد کی سماعت 16؍اکتوبر2019 عیسوی مطابق
۱۶؍صفر ۱۴۴۱ھجری کو مکمل ہوگئی تھی ۔اس کے بعدسپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ
کے چیف جسٹس رنجن گوگئی نے 17؍ نومبر2019 کو اپنے عہد ہ کی سبکدوشی سے قبل
9؍نومبر2019 عیسوی مطابق ۱۱؍ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ بروز سنیچر بوقت ساڑھے دس
بجے دن اس مقدمہ کا فیصلہ سنادیا کہ ’’چونکہ یہ ہندوؤں کے آستھا کا معاملہ
ہے ، اس لیے بابری مسجد کی متنازع پوری زمین رام للا (دیوتا جس کا مجسمہ
وہاں ہندوؤں نے نصب کیا تھا) کی ہے اور مسلمان چاہیں تو انھیں حکومت ہند
5ایکڑ زمین ایودھیا میں کہیں بھی دے دے تاکہ وہ وہاں مسجد وغیرہ بنا
سکیں۔‘‘
دستاویزی ثبوت اور فیصلہ کے درمیان تضاد
سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے سیکولر ہندوؤں کا بھی یہ
کہنا ہے کہ آج (9/11)کوہمیں ویسی ہی شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے جس طرح
6؍دسمبر 1992ء کو بابری کی شہادت پر اٹھانی پڑی تھی۔تمام ہی مسلمان اور
امن پسند ہندو اس بات کے معترف ہیں کہ بابری مسجد پر جو فیصلہ آیا ہے وہ
منصفانہ نہیں ہے۔یہ فیصلہ مضحکہ خیز اور تضاد بیانی پر مبنی ہے۔سپریم کورٹ
ایک طرف تو یہ تسلیم کرتا ہے کہ میرباقی نے 1528عیسوی میں بابری مسجد کی
تعمیر کی تھی اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے
اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اس جگہ پر کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد
نہیں بنائی گئی ہے۔ کورٹ یہ بھی کہتا ہے کہ 1887عیسوی میں نرموہی اکھاڑہ نے
جو کیس داخل کیا تھا اس میں اکھاڑہ نے یہ مانا تھا کہ ہمارے پچھم میں مسجد
ہے ،جسے فیض آباد کے سب ججوں نے یہ کہہ کرخارج کردیا تھاکہ چونکہ اس کے
مغرب میں مسجد ہے اور اگر یہاں بھجن کرتن ہوگا تو اس سے نمازیوں کو دق
پہنچے گی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی تسلیم کیا کہ 1949عیسوی میں
غلط طریقہ سے مسجد کے اندر گھس کر مورتیاں رکھی گئیں اور 6؍دسمبر 1992عیسوی
کو غلط طریقہ سے شرانگیز لوگوں نے مسجد شہید کردی۔ نیز انگریزوں کے دور
حکومت میں جو گرانڈ مسجد کو دی گئی تھی اس کے بھی دستاویزات سپریم کو سپرد
کیے گئے تھے۔اسی طرح 1934عیسوی میں ایودھیا میں ایک رائٹ ہواتھا اس میں
بابری مسجد کو نقصان پہنچایا گیا تھا،اس موقع پر برطانوی حکومت نے مسجد کی
مرمت کراکر دوبارہ مسلمانوں کو سپرد کیا تھااور ایودھیا کی ہندو آبادی پر
جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور وہ جرمانہ کی رقم مسجد کے متولی اور اماموں کو
دی گئی تھی۔یہ سارے ثبوتی دستاویزات سپریم کورٹ کو پیش کیے گئے۔ مگرصد
افسوس کورٹ کا فیصلہ ان تمام ثبوتوں کو قبول کرنے کے باوجود اس کے خلاف
آیا۔
یہ بات سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ ایک ایسا فریق جو اس کیس میں پہلے سے
فریق تھا ہی نہیں،بلکہ وہ 1989عیسوی میں فریق کے طور پر ٹانگ اڑایا تھا اور
اس نے پہلی بار اپنے کیس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ رام للا مسجد کے سنٹر ڈوم
یعنی درمیانی گنبد کے نیچے پیدا ہوئے تھے ،اس سے پہلے کسی فریق نے یہ بات
نہیں کہی تھی کہ اس سنٹر ڈوم میں رام لَلا پیدا ہوئے تھے۔نیز جن لوگوں نے
مسجد شہید کی تھی اور رام للا کی کہانی رچی تھی وہ وشو ہندوپریشد ،بی جے پی
اور بجرنگ دل کا قائم کردہ ٹرسٹ تھا اور اِن لوگوں پر سپریم کورٹ کو اعتراض
بھی ہے؛ پھر بھی ایسے مجرم فریق کو سپریم کورٹ نے مسجد حوالہ کردی ۔یہ
انتہائی عجیب وغریب بات ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ رام للا ٹائٹل شوٹ کے اس
مقدمہ میں کہاں سے آگئے اور کورٹ نے مسجد اس کے حوالہ کیسے کردی۔
خودساختہ دلیل کاسہارا
ہاں یہ بات ضرور کہی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ کو جب ناانصافی کی طرف جانے کی
کوئی راہ نہیں ملی تو ایک غیر منطقی اور عقل سے پرے فرضی دلیل کا سہارا لے
کر عوام کی زبان کویہ کہہ کر چپ کرنے کی کوشش کی کہ ’’چونکہ 1528عیسوی میں
مسجد ضرور تعمیر ہوئی مگر مسلمان یہ ثابت نہیں کرپائے کہ 1528سے 1826عیسوی
تک مسلمان یہاں نماز پڑھاکرتے تھے۔اس لیے مسجد کی عمارت مشکوک ہے۔‘‘اس پر
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں بھی کوئی مسجد تعمیر ہوئی اور مسلمان اگر اس
میں نماز ہونے کو ثابت نہیں کرپائے تو کیا اس سے لیگل طور پر یہ تصور قائم
کرلینا ایک سپریم کورٹ کے لیے صحیح ہوگا کہ وہاں مسجد تعمیر نہیں ہوئی تھی؟
کیا پوری دنیا میں کہیں بھی یہ نظریہ ،ضابطہ،اصول اور عمل ہے کہ مسجد یا
مندر میں ہونے والی عبادت اور پوجاپاٹ کو ہرم دم ریکارڈ کیا جاتا ہو ؟ نہیں
ایسا کہیں نہیں ہے ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اسے کیسے دلیل
بنالیا کہ مسلمان بابری مسجد میں نماز ہونے کا کوئی ثبوت نہ پیش کرسکے۔
بہرحال سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جب ملک کے سبھی طبقہ نے گہری نگاہ سے
دیکھاتو بیک زبان بول اٹھے کہ ملک کے نظام عدالت پر اعتماد کے باوجود اس
حقیقت کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ سیاسی دخل اندازیوں نے قانون اور انصاف
کے گھٹنے توڑ کر اسے آستھا اور عقیدت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔
٭ ٭ ٭
|