قوم جاننا چاہتی ہے ۔۔۔

پاکستان کے موجودہ کٹھن اور نازک حالات میں آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدت ِملازت میں تین سالہ توسیع کے حکومتی نوٹیفکشن کی پاکستان کی سب سے بڑی معزز عدالت سپریم کورٹ سے عزت ماب چیف جسٹس پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کے حکم پر معطلی کے احکامات ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے ایک جھٹکے اور صدمے سے کم نہ تھے۔اِس لیے کہ ملک عزیز کے موجودہ حالات اور مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کے نوٹیفکشن کی عدلیہ کی جانب سے معطلی قومی سطح پر ایک اچھا شگون نہ سمجھا جارہاتھا۔اِسے پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ جاناجارہاتھا۔وہ عدلیہ جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک اِس معاملے پرسوئی رہی ،کبھی بھی نہ جاگی۔اب جاگی بھی تو کمال کی جاگی،جس کا جاگنا پاکستان کے نازک حالات میں ہر پاکستانی کے لیے تشویش کا باعث بن گیا۔ہر شخص سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والی اِس اچانک اُفتاد پر حیران وپریشان ہواپڑاتھااور اِ س سوچ میں غلطان تھاکہ یہ سپریم کورٹ سے کیسا انہونا فیصلہ آگیاہے اور یہ کہ ملک کی کمزور صورتحال میں اِس فیصلہ کے دینے کا کیا’’ تُک‘‘ تھا۔جب پہلے اِس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی تو اب اِس پراتنا کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔توسیع کا معاملہ پہلے بھی چلتا رہا اور عدلیہ کی طرف سے معنی خیز خاموشی رہی تھی تو اب جبکہ ملک مشکل دور سے گزررہا ہے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر عدلیہ کواچانک اتنا کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا پہلے کی طرح عدلیہ سے اب بھی صبر نہیں ہوسکتاتھا؟ایسی کیا بن آئی کہ عدلیہ کو ایکشن لینا ضروری ہوگیا تھا۔؟ماناکہ آرمی ایکٹ قانون میں سقم یا ابہام تھا اوریہ کہ سپریم کورٹ نے اِس پر ایکشن لے لیااور اِس معاملے پر آرمی ایکٹ قانون میں جوکمی کوتاہی تھی اُسے ظاہر کردیا اور یہ کہ سب پر سب کچھ عیاں کردیا،کہاں غلطی کہاں بہتری کی گنجائش بتااور سمجھادیااور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے معاملہ پر موجود اضطراب بھی مشروط 6ماہ کی مدت ملازمت کی اجازت دے کر دُور کردیااور ساتھ ساتھ آرمی ایکٹ کے حوالے سے بہتر اور مؤثر، پارلیمنٹ سے قانون سازی کابھی 6 ماہ کے اندر اندر حکم صادر فرمادیاجوکہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ معزز عدلیہ کا آرمی ایکٹ قانون میں بہتری کے حوالے سے یہ ایک مثبت پیش رفت اور اچھاقدم ضرور ہے مگر پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستان کے ہر شہری کو ہلادینے والا اقدام بھی تھا۔کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر یہ توسیع کا معاملہ پہلے کی طرح ایسے ہی تین سال چل جاتا تو کیا حرج تھا؟۔ملک کی موجودہ صورتحال میں اِس معاملے کو چھیڑنا مناسب بات نہ تھی۔یہ معاملہ اتنا اہم اور جلدی والانہ تھا کہ اِسے اب ہی حل کرنا بیحد ضروری تھا۔ملک کے حالات اور کشمیر کی صورتحال دیکھتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفادات میں اِسے وقتی طور پر ٹالابھی جاسکتاتھا۔اگر پہلے اِس معاملے پر غور نہ کرنے سے کام چل سکتاتھا تواب کے بار جاکر کون سا رُک رہاتھا۔یہ توسیع کا معاملہ توپھر بھی وزیر اعظم کے احکامات پر ہواتھا جس کا اختیار ہر حوالے سے ملک کے سربراہ کو ہونا چاہیئے ملک کے حکمران کو اختیار ہونا چاہئیے کہ وہ جس کو جب تک اور جس کوبھی ملک کا سپہ سالار رکھنا چاہے ،رکھ سکے۔ملک کے حکمران پر اِس حوالے سے کسی طرح کی بھی کوئی قانونی قدغن لگانا کسی بھی طرح ٹھیک عمل نہ ہے۔اسلامی تاریخ کو اُٹھاکر دیکھیں تو سربراہ مملکت ہی فوج کے سپہ سالار کی تعیناتیاں کرتے ہیں۔فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی اور توسیع کون کرسکتا ،کون نہیں کرسکتاکی قدغن نہیں ہونی چاہیئے ۔میں سمجھتاہوں کہ فوج کے اندر بھی ایسی باڈی کو باختیار بنانا چاہیئے کہ جو اگر کسی بھی اپنے سربراہ کو مزید عہدے پر برقرار رکھنا چاہے تواُسے بھی آئینی و قانونی طور پر معتبر مانا جائے ۔تاہم سربراہ مملکت کا فیصلہ ہی آخری اور حتمی ہو۔پھر یہ کہ پاکستان تو پھر وہ ملک ہے جہاں پر ڈکٹیٹروں کے خود کو خود ہی توسیع دینے کا عمل بھی جاری وساری رہا اور کہیں سے بھی کوئی کہرام اور آواز بلند نہ ہوئی جبکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی توسیع توپھر بھی وزیر اعظم نے کی جو خود کو خود سے توسیع دینے سے بہر حال ایک بہتر عمل ہے۔کم از کم پھر بھی وزیر اعظم توسیع دے رہے ۔ہمارے ملک کا سسٹم اتنا بوسیدہ ،نکما اور ناکارہ ہے کہ کسی معاملے کو اگنور کرنے پر آئے تو برسوں اگنور کرتاہے۔نہیں دیکھتاتو قیام پاکستان سے لیکر اب تک نہیں دیکھتا اوردیکھنے اور سمجھنے پر آئے تو ایک پل کی بھی رعائت نہیں دیتا۔نظریں چرانے پر آئے تو اچھا خاصہ معاملہ سے چرائے اور نظریں جمائے تو اُس پر بھی ڈال لے جس پر برسوں سے نگاہ ڈالنے کی اُسے کبھی فرصت نہ ملی ہو۔اگراگنور کرنے پر آئے تو ڈکٹیٹروں کی خود سے خود کو دی جانے والی توسیع پر بھی مجبوراً چپ ہوجائے اور اگر توسیع کامعاملہ اُٹھانے پر آئے تو موجودہ آرمی چیف کے توسیع کے معاملے پر اچھا خاصا’’ شو‘‘ لگادے۔ جس پر اتنا حشر اُٹھانے کی ضرورت بہرحال نہ تھی۔سوموٹو ایکشن نہ لیں تو اچھے خاصے معاملے پر نہ لیں ،لینے پر آجائیں تو ایسے معاملے پر لے لیں جس پر گزارا بھی چل سکتا تھا۔انصاف دینے پر آئیں تو اُسے بھی دے دیں جو انصاف کے لائق نہ تھا اور انصاف نہ دیں تو اُسے بھی نہ دیں جو صحیح حقدار تھا۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں یہاں بہت سے لوگوں کو صریحاً ناحق انصاف کی مار کا شکار ہوتے دیکھا اور بہت سے افراد کو مجرم ہوتے ہوئے بھی آزاد دیکھا۔جس ملک کی عدالتوں میں انصاف کم کم اور مشکل سے ملتا ہو ۔جہاں ہر تالا رشوت کی چابی سے کھلتا ہو۔وہ معاشرہ نہ تو اسلامی معاشرہ ہے اور نہ ہی وہاں کے حکمران اسلامی حکمران۔جس ملک میں انصاف دینے کے انداز نرالے ہوں۔کمال کی حدوں کو چھوتے ہوئے ہوں وہاں فیصلے ایسے ہی آیا کرتے ہیں۔بے موقع ،بے محل ،بغیر سوچے سمجھے اور انتہائی عجلت میں۔عدلیہ کو اتناکہرام اور اضطراب برپا کرکے پھرآرمی چیف کو 6 ماہ کی توسیع دینے کی ضرورت ہی کیا تھی جب معاملہ اُٹھا ہی دیاتھا تو پھر نرمی کیسی؟پھر حشربرپاکیوں نہیں کیا۔حشربرپاکردینے میں مزید کیاہرج تھا۔سستی شہرت اور نیک نامی کمانے کی حرص نہ جانے ہمیں کہاں سے کہاں پر پہنچاکر چھوڑے گی۔آخر ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی اوریہ کہ سب کچھ تلپٹ کرکے ہی ہم اپنا آپ درست کرنے کی طرف ہی کیوں جاتے ہیں۔اِس سے پہلے ہم کہاں سوئے اور بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔کیا شان یہی رہ گئی ہے کہ کسی بھی معاملے پر اچانک اُفتاد بن کر اُتر جاؤ۔کیا یہ دانشمندی نہیں ہے کہ معاملہ کو اچھے طریقے سے وقت سے پہلے ہی مناسب طریقے سے حل کرو۔ایک اور بات کیا عجیب بات ہے کہ پہلے ایک جرم میں اچھے بھلے آدمی کومبینہ کرپشن میں کرپٹ جان کر اُس کی سب عزت ،سکھ چین اور آرام وسکون چھین لیتے ہیں اور بعدازاں پھر چپکے سے سارے جرموں کے ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی بنیاد پر پکڑے ہوئے کا تاثر دے کر چھوڑ دیتے ہیں۔کسی کو چوراچکا،ڈاکو ، لٹیرااور ملک دشمن بنادیا اور جب من چاہاتو سب کچھ چھومنتر کرکے سب کچھ ٹھیک بنادیا۔امیر کو رعائتیں اور قانون میں گنجائش نکال کر سب جرموں کے باوجود باہر نکال دیا اور غریب کا کوئی پرسان حال نہیں،اُس کے نصیب میں جیلوں میں سڑناہی رہ گیا۔غریب کے لیے اور قانون اور اشرافیہ کے لیے دوسرے ضابطے ۔یہ دوہرے معیار کیوں؟ اِس پر سوموٹو ایکشن کیوں نہیں؟کیایہ اقدام ملک کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر سوموٹو ایکشن کے زمرے میں نہیں آتاکیا؟یاہم اِس کے متحمل نہیں ہیں۔ریاست ومقننہ سے قوم اِن سوالوں کے جوابات جاننا چاہتی ہے۔#

 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 54643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.