23دسمبر 1949 کی تاریک رات کو بابری مسجد کے اندر چوری سے
بتوں کو نصب کیا گیا۔ اس مذموم حرکت کو انجام دینے والے ابھیرام داس کو جیل
بھیجنے کے بجائے مورتیوں کو ہٹا دیا جاتا تو یہ فساد ِعظیم برپا نہ
ہوتالیکن امن و امان کا بہانہ بناکر فتنہ فساد کا بیج بودیا گیا۔ آگے چل
کر آخری امام کے بیٹے صابر علی اور مندر کے پجاری لال داس کا بہیمانہ قتل
تک ہوگیا۔ 6دسمبر 1992جدید ہندوستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھاکہ اس
روز عدالت عظمیٰ کے احکامات کو پامال کرکے بابری مسجد کو شہید کردیا گیا۔ ۶
دسمبر نے اپنے ناپاک بطن سے ایک ۹ نومبر 2019کو جنم دیا جو مجسم تاریکی ہے
کیونکہ اس نے امید کی آخری کرن کو بے نور کر دیا ۔ اس ناانصافی کے لیے بھی
امن و امان کی دہائی دی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا
سماج ہے جس میں امن کے پودے کو عدل کا خون کرکے سینچا جاتا ہے ۔ کیا اس طرح
پرورش پانے والا خونخوار شجر پائیدار ہوسکتا ہے؟
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ۶ دسمبر کو نظر ثانی کی درخواست دینا ایک علامتی
فیصلہ ہے۔ عدالت چونکہ اس کو آستھا کے بجائے زمین کی ملکیت کا قضیہ تسلیم
کرتی تھی اس لیے مسلم فریق پرامید تھا لیکن مایوسی حالت لگی ۔ ملک کے عدل
پسند دانشوروں نے کھل کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی اور اختلاف ظاہر
کرتے ہوئے فیصلے کے تضادات کو کھول کر بیان کردیا ۔ اس بار امید کم ہے پھر
بھی اللہ پر توکل کرکے کوشش ہونی ہے۔ نتائج ہمارے اختیار میں نہیں لیکن ہم
میدان چھوڑنے کے سزاوار بھی نہیں ہیں، جیسا کہ مولانا ارشد مدنی نے فرمایا
ریویو پٹیشن داخل کرنا نہ صرف آئینی حق ہے بلکہ آخری وقت تک مسجد کی
بازیابی کے لیےسعی کرنا ہماری شرعی ذمہ داری بھی ہےبعید نہیں کہ مشیت اس کے
اندر سے کوئی خیر برآمد کرے؟
بابری مسجد کے تعلق سے دو مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں ۔ زمین کی ملکیت
کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلےپر نظر ثانی کی درخواست زیر سماعت ہے۔ اس
فیصلے میں ۶ دسمبر 1992کو ہونے والی ہلڑّ بازی کو مجرمانہ کارروائی تسلیم
کیا گیا ۔ اس کی بنیاد پر دوسرے مقدمہ کو تقویت ملتی ہے کیونکہ بابری مسجد
کے انہدام سے متعلق یہ قضیہ ہنوز سی بی آئی کی عدالت میں چل رہا ہے ۔
اترپردیش کی صوبائی یا مرکز ی حکومت ابھی تک اس دخل اندازی نہیں کررہی ہے
وگرنہ کانگریس اور سماجوادی کےدور اقتدار میں جن بی جے پی اور وشو ہندو
پریشد کے لیڈروں کومجرمانہ سازش رچنے کے الزام سے الہ باد ہائی کورٹ نے
تکنیکی بنیاد پر بری کردیا تھا اس کو پھر سے مودی یگ میں زندگی نہیں ملتی ۔الہ
باد ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کرنے
والی سی بی آئی نے عدالت عظمی میں کہا تھا کہ وہ اپنی پالیسی کا تعین خود
کرتی ہے اور کسی سے متاثر نہیں ہوتی ۔ سی بی آئی نے اعتراف کیا تھا کہ
سینئر بی جے پی لیڈروں کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کے الزامات ہٹانے کی
کارروائی کا مطالبہ اس نے نہیں کیا تھا۔ اس بابت اگر بی جے پی کی موجودہ
قیادت اڈوانی ، جوشی اور اوما بھارتی کو قرار واقعی سزا دلا کر اپنی بھڑاس
نکالنا چاہتی ہو تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کےجسٹس پی سی گھوش اور جسٹس آر ایف نریمان پر مشتمل بنچ نے ۶
مارچ 2017کو تکنیکی بنیادوں پر مقدمے کے اخراج کو ٹھکرا تے ہوئے دو الگ الگ
عدالتوں میں میں چلنے والے مقدمہ کو یکجا کرکے لکھنو عدالت کو سونپ دیا تھا
۔ عدالت عظمیٰ نے ۸ مارچ 2019 کوتاکید کی تھی کہ۶ ماہ کے اندر گواہوں کے
بیانات درج کرکے نو ماہ میں فیصلہ سنا دیا جائے۔اس معاملے میں خلل ٹالنے کے
لیے سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو سی بی آئی کے خصوصی جج ایس کے یادو کی
میعاد میں توسیع حکم دیا تھا جو 30 ستمبر2019 کووہ سبکدوش ختم ہونے والی
تھی ۔ یہ مقدمہ بھی یکساں توجہ کا مستحق ہے کیونکہ مسجد کی بازیابی اور اس
کے مجرمین کو کیفرِ کردار پہنچانے کی سعی ہمارا فرض منصبی ہے۔ ویسے اللہ کی
گرفت سے کون بچے گا؟ فرمانِ ربانی: ’’ اور جو بستیاں ظالم ہوتی ہیں ،
تمہارا رَبّ جب اُن کو گرفت میں لیتا ہے تو اُس کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے۔
واقعی اُس کی پکڑ بڑی دردناک، بڑی سخت ہے‘‘۔
|