پنجاب پولیس کی قربانیوں کو کسی بھی صورت جھٹلایا
نہیں جا سکتا ہے سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنا پولیس فورس کی بہت بڑی
ہمت ہے ہمیں محفوظ رکھ کر خود خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں خود دھوپ و سردی
میں کھڑے ہو کر ہمیں چھاؤں و گرم جہگہ پر بٹھا کر ہمارا پہرہ دیتے ہیں اپنی
نمازیں چھوڑ کر ہمیں محفوظ طریقے سے نماز ادا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں
لیکن یہ بات بھی اپنی جہگہ بلکل درست ہے کہ سفاکیت اور درندگی کی بے شمار
مثالیں بھی اسی فورس کے حوالے سے موجود ہیں اور آے روز کوئی نہ کوئی خبر
پڑھنے کو ملتی ہے کہ پولیس نے ناکے پر کسی کو گولی مار دی اور کسی کے ساتھ
کوئی اور ظلم کر ڈالا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے واقعات میں
کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی
وجہ سزا و جزا کا درست نظام کا موجود نہ ہونا ہے ایسے واقعات میں ملوث
اہلکاروں کو بڑی مہارت کے ساتھ بچا لیا جاتا ہے ا اور صرف چند ماہ کے بعد
وہ اہلکاران دوبارہ اپنی ڈیوٹیوں پر موجود دکھائی دیتے ہیں دوبارہ تعیناتی
پر ان کا نام خوفناک اہلکاروں میں لیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک الگ
مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یار میں نے تو اتنا بڑا جرم کیا تھا تو اس وقت
مجھے کچھ نہیں ہوا تھا اب کیا ہو گا ایسے واقعات سن و دیکھ کر دل کانپ
اٹھتا ہے اور خوف سا نحسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم کس ملک کس معاشرے میں رہ رہے
ہیں جہاں پر کوئی بھی پولیس والا جب چاہے کسی کو گولی مار دے اور اس وقت
کلرسیداں و گرد و نواح میں بھی لوگ اس خوف و ہراس کی صورتحال میں مبتلا ہیں
بلکل اسی طرح کی درندگی کی ایک مثال کلرسیداں کے علاقے بینک چوک کنوہا میں
پیش آئی ہے جہاں پر جمعرات کی شب ناکے پر موجود تھانہ کلرسیداں کے چند
اہلکاران نے سابق کونسلر وحید امجد کو گولی مار کر بے دردی کے ساتھ کر قتل
کر دیا ہے مقتول کا قصور صرف اتنا تھا کہ ناکے پر موجود اہلکاروں نے اس کو
رکنے کا اشارہ کیا اور وہ بد قسمت تھوڑا آگے جا کر رکا اس پر بے لگام پولیس
اہلکار طیش میں آ گئے اور اس کو گولیاں مار دیں اور سب سے مزے کی بات یہ ہے
زمہ دار اہلکاروں کو نشان عبرت بنانے ان کو قانون کے شکنجے میں لانے کے
بجائے پولیس نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اس کیس کا مقدمہ بھی مقتول کے ہی
خلاف درج کر ڈالا اسے کہتے ہیں کہ ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوی یہ
مثال تو بڑے عرصہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کی بہترین
مثال پولیس تھانہ کلرسیداں نے ثابت کر کے دکھائی ہے اس کا کیا قصور تھا اس
شخص پر کوئی مقدمہ بھی نہیں تھا وہ کوئی مفرور بھی نہ تھا وہ تھانہ
کلرسیداں کو کسی مقدمے میں بھی مطلوب نہ تھا اس کے باوجود اس کو اس قدر بے
درددی سے مار دیا گیا ہے بلکہ وحید امجد تو ایک بار کونسلر بھی منتخب ہو
چکے ہیں اہلیان علاقہ نے ان کو بہت پرجوش طریقے سے کونسلر منتخب کیا تھا وہ
ایک سماجی کارکن بھی تھے وہ اپنے لوگوں کی ہر طرح سے مدد بھی کیا کرتے تھے
وہ دوسروں کے کام بھی آتے تھے ان میں کوئی ایسا عیب بھی موجود نہیں تھا جس
کی بناء پر ان کو کوئی سزا دی جاتی اگر وہ کوئی جرائم پیشہ شخص ہوتا تو
علاقے کے لوگ کبھی بھی اسے اپنا کونسلر منتخب نہ کرتے وہ ایک با اعتماد
شخصیت ہی تھی جس وجہ سے ا اہل علاقہ نے انہیں اپنا نمائندہ منتخب کیا گیا
تھا وہ تین معصوم بچیوں اور ایک بچے کے باپ تھے ان کے بچے کس کے ہاتھوں پر
اپنا لہو تلاش کریں گئے وہ کیا سوچیں گئے کہ ان کے بے گناہ باپ کو اس قدر
بے دردی سے قتل کیس وجہ سے کر دیا گیا ہے اور انہیں یتیم کر دیا گیا ہے
یتیموں کی آہیں قبر تک کلرسیداں پولیس کا پیچھا کرتی رہیں گی کیا کلرسیداں
کے لوگوں کا خون اس قدر سستا ہے کہ پولیس جب چاہے کچھ بھی کر ڈالے اس وقت
کے ایس ایچ او سردار زوالفقار کو مقتول پر ہی مقدمہ درج کرتے ہوئے اس کا دل
نہیں کانپا اسے یہ سوچ کیوں نہ آئی کہ ایک تو ہم نے بے گناہ شخص کو قتل کر
دیا ہے اور پھر مجرم بھی اسی کو بنا رہے ہیں اسے کہتے ہیں مردہ ضمیر اور
سفاکیت کی انتہا چلو مان لیتے ہیں کہ تھانہ کلرسیداں اس علاقے کے لوگوں کی
آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے لیکن کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک دن
اصلی سزا و جزا کا بھی آئے گا جہاں پر کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکے گا جہاں
پر بلکل اصل مقدمات بنیں گئے وہاں پر کوئی بھی جھوٹ نہیں چلے گا بہر حال اس
ظلام کے خلاف اہل علاقہ سراپا احتجاج بن گئے لواحقین کی طرف سے اس سخت رد
عمل پر پولیس نے دوبارہ اپنے اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا ہے اس
احتجاج کے دوران بہت سے سیاسی کھڑپینچ پولیس کی حمایت کرتے بھی دکھائی دیئے
ہیں لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم علاقہ غیر میں رہ رہے ہیں
جہاں پر قتل ہونے والے کے وارثان کو اندراج مقدمہ کیلیئے احتجاج کرنا پڑے
گا یہ پولیس افسران کیلیئے لمحہ فکریہ ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس واقع
کے بعد پولیس کے اعلی حکام خود کلرسیداں آتے اور عوام علاقہ کی موجودگی میں
پولیس اہلکاروں کے خلاف قا نونی کاروائی عمل میں لاتے لیکن افسوس کہ ایسا
نہیں کیا گیا ہے جو تھوڑا بہت کیا بھی گیا ہے وہ صرف شدید احتجاج کے پیش
نظر کیا گیا ہے تمام تر احتجاج کے باوجود بھی ابھی تک تمام ملزمان گرفتار
نہیں ہو سکے ہیں کیا اس کیلیئے مزید احتجاج کی ضرورت پیش آئے گی نئے تعینات
شدہ ایس ایچ او کیلیئے اس کیس میں سخت امتحان ہو گا کہ وہ اپنے ماتحت
اہلکاران کو قانون کے شکنجے میں لانے کیلیئے کیا کردار ادا کرتے ہیں پولیس
حکام کو اس کیس میں خصوصی دلچسپی لینا ہو گی اور اس میں ملوث درندوں کو
نشان عبرت بنانا ہو گا بصورت دیگر اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گئے اور
پولیس پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا- |