(دلوں کو ہلا دینے والی کارو کاری کی سچی
داستان جس کا فیصلہ قرآن نے کیا)
پینو اور اقبال کی محبت کی ابتدا کا تو ان دونوں کو معلوم نہیں کب ہوئی
لیکن شادی کے بندھن نے گویا اس محبت کو زباں دے دی تھی یہ وہی پینو تھی جو
اس کو دیکھتے ہی شرم سے چھپ جاتی تھی اب اس سے ڈھیروں ساری دل کی باتیں
کرتی۔ایک دن دونوں مل کر گھاس کاٹتے کاٹتے تھک کر پگڈندی پر بیٹھ گئے تو
پینو نےاپنے دوپٹے سے اقبال کا پسینہ سکھایا۔ اقبال نے اس کی آنکھوں میں
جھانکا ۔۔پینو نے شرما کر پوچھا کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔۔تمھاری آنکھوں میں
اپنی تصویر دیکھ رہا ہوں اقبال نے درانتی کو زمین پر رکھتے ہوئے بہت پیار
سے کہا ۔۔۔پینو جو اب تک پگڈندی پہ لگی گھاس سے کھیل رہی تھی خوب کہکہالگا
کے ہنسی اور پھر ہنستی ہی رہی اقبال اس کی ہنسی کی آواز سے خوش تھا لیکن
مصنوعی خفگی سے بولا یہ کیا بات ہوئی میں نے جھوٹ کہاکیا؟ ۔۔۔نہیں پینو جھٹ
سے بولی اصل میں شادی سے پہلے جب تم میرے خواب میں آتے تھے تو اگلے دن میں
نیچے مونہہ کر کہ گھومتی تھی ۔۔۔اقبال نے حیرت سے اسے دیکھ کر کہا مگر
کیوں؟ایسا کس لیئے ؟میں ڈرتی تھی کہ کوئی میری آنکھوں میں آپ کی تصویر نہ
دیکھ لے اور کہیں کسی کو پتہ نہ چل جائے کہ آپ میرے خواب میں آئے
تھے۔۔۔اس بار ہنسنے کی باری اقبال کی تھی اور وہ زور زور سے ہنسنے لگا پینو
نے پاؤں زمین پر پٹخے ۔۔بالی تم بہت برے ہو اور کاٹی ہوئی گھا س جو ذرا
فاصلے پر پڑی تھی پینو نے اقبال پر ڈالنا شروع کردی ۔۔۔اقبال کہاں چوکنے
والاتھا اس نے بھی پینو پر ڈالنا شروع کردی ۔۔۔دونوں خوب ہنسے اور خالی
کپڑے میں پھر سے گھاس ڈالنا شروع کردی۔۔۔
چاچی باہر شور کیسا ہے۔اچانک شور پر پینو نے آٹا گوندھتی ساس سے کو دیکھا
جو خود بھی حیران تھی اب شور بڑھ رہا تھا اچانک نزیراں ،امیراں اور ان کی
ما ں بھاگتی ،ہانپتی ،کانپتی ان کے گھر میں داخل ہوئیں اور فریاد کرنے لگیں
اللہ کا واسطہ میری بیٹیوں کو چھپالو ان کے بھائی نے ساتھ والے گاؤں کے
آدمی کا قتل کردیا ہے اور اب میری بیٹیوں میں سے کسی کو قربان کرے گا۔ یہ
کہانی کوئی نئی نہیں تھی پینو اور اس کی چاچی کے لیئے ۔یہ تو اس گاؤں کی
ریتی تھی یہاں کے آدمی قتل کرنے میں بہادری سمجھتے تھے اور اسی قتل کی سزا
سے بچنے کے لیئے اپنی بہنوں،بیویوں،بہوؤں اور ماؤں کو قتل کردیتے اس سے ان
کے دو مقاصد حاصل ہوتے دشمن بھی مارا جاتا جس پہ ان کہ بہادری کا ٹائیٹل مل
جاتا اور گھر کی کسی عورت کو مارنے پر سزا سے بچنے کے علاوہ عزت دار،غیرت
مند ہونے پر پگ بھی پہنائی جاتی ۔ویسے بھی عورت کی حیثیت ہی کیا تھی ان کی
نظر میں پاؤں کی جوتی،غلام،حقیر اور کمزور اور پھر چھوٹی موٹی مار کٹائی سے
کہاں ان کی طاقت کا پتا چلتا ایک آدھ قتل کرکے ہی تو مرد کی مردانگی کا
روپ آتا ۔
شور اور قریب آرہا تھا اس سے پہلے کہ پینو اور اس کی چاچی کچھ کرنے کا
سوچتیں امیراں،نزیراں کے بھائی اور باپ اندر آگئے ان کے ساتھ پینو کا سسر
اور جیٹھ اپنی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا صحن میں داخل ہوا نزیراں اور
امیراں کمروں کی طرف بھاگیں لیکن ان کا بھائی جو تازہ تازہ قتل کرکے آیا
تھا جس کی آنکھوں سے ایک وحشی پن جھلک رہا تھا اور ایک قتل کرنے کے بعد اس
کی آنکھوں کا رنگ لال ہورہا تھاان کے پیچھے شکاری کتے کی طرح جھپٹا امیراں
کی قسمت خراب تھی کہ وہ پہلے پکڑائی میں آگئی اور اس کے بھائی کو تو اس
وقت قربانی کے لیئے ایک ہی چاہیئے تھی ۔امیراں نے بھائی کی منت سماجت کی
اپنا دوپٹہ اس کے پاؤں میں ڈالا ۔واسطے دئیے ۔وہ کہتی رہی بھائی مجھے کیوں
مار رہے ہو ۔مجھے نہیں مرنا ،اس کی چیخوں کی آوازیں آسمان ہلا رہیں تھیں
۔لیکن اس کا بھائٖی اسے گھسیٹے جا رہا تھا ،امیراں کی ماں دہائیاں دے رہی
تھی ۔چھاتی پیٹ رہی تھی اور اپنے بیٹے کو اپنے دودھ کا واسطہ دے رہی تھی کہ
بہن کو چھوڑ دو ۔بے گناہ کو مت مارو ۔۔۔مغرب کی آذان کی آواز آئی تو
بولی دیکھو میرے بیٹے تم کو اس آذان کی قسم کا واسطہ میری بیٹی کو چھوڑ دو
۔۔ارے یہ تو سب سے چھوٹی ہے ۔۔تمھاری لاڈلی ہے۔۔۔تم سے کتنا پیار کرتی ہے
۔۔۔تمھارا راستہ دیکھتی ہے ۔۔تمھارے لیئے اللہ سائیں سے دعائیں مانگتی ہے
۔۔ابھی سے تمھاری شادی کے گیت گاتی ہے۔۔۔۔اسے چھوڑ دو۔۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی امیراں کا باپ جو کہ اب تک خاموش کھڑا تھا بول پڑا
۔۔قتل کرکے آیا ہے ساتھ والے گاؤں کے آدمی کو اگر بہن کو کالی کرکے نہیں
مارے گا تو اس کو سزا ہوگی اور مقتول کا بدلہ لینے آجائیں گے۔۔۔اور پھر
بہنیں بھائیوں پر قربان ہونے کے لیئے ہی تو ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔جلدی کر پتر اس
سے پہلے کہ پولیس آجائے ،چلو پکڑو امیراں کو ۔۔۔اس نے اپنے دوسرے بیٹوں کو
اشارہ کیا جو کہ اب تک خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے تیزی سے لپکے اور
امیراں کی آوازیں ۔۔اماں مجھے بچاؤ میں مرنا نہیں چاہتی ۔۔ ۔۔اماں مجھے
درد ہوگا ۔۔۔ابا سائیں ادے سائیں کو بولو مجھے چھوڑ دیں آپ کی تو میں
لاڈلی گڈی ہوں ۔۔۔امیراں کے باپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔میں مجبور ہوں
اور بیٹوں کی طرف اشارہ کیا دیر مت کرو ۔۔۔پینو اور اس کی ساس جو شروع سے
رورہی تھیں اور اسے بچانے کے لیئے آگے آرہی تھیں وہ بھی واسطے دینے لگ
گئیں ۔۔۔چاچا اللہ کا واسطہ ظلم مت کرو ۔۔۔خدا کے قہر سے ڈرو ۔۔۔لیکن اس
وقت کوئی بھی فریاد ،کوئی بھی واسطہ کوئی بھی آنسو امیراں کے باپ کے فیصلے
کو ٹس سے مس نہیں کرسکتا تھا ۔۔اس وقت اس کو اپنی بیٹی کی قربانی میں ہی
اپنے بیٹے کی زندگی نظر آئی اور بیٹی بچا کر وہ گھاٹے کا سودہ نہیں کرنا
چاہ رہا تھا آخر کو نسل تو بیٹوں سے چلتی ہے ۔۔۔امیراں کی ماں ان کے
پیچھےباہر کے دروازے کی طرف بھاگی لیکن اس کے شوہر نے اس کو بالوں سے پکڑ
کر پیچھے کی طرف دھکا دیا اور بیٹوں کو باہر سے دروازہ بند کرنے کا کہا
۔۔۔۔امیراں کی چیخوں کی آوازیں اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ساتھ دور ہوتی چلی
گئیں
۔اس کا دوپٹہ کچے صحن کے بیچ پڑا تھا ۔۔۔اس کی ماں نے دوپٹے کو اٹھا کر گلے
لگایا ۔۔۔آج امیراں کی گڑیا کی شادی تھی اور اس نے اپنی ماں سے خاص یہ سوٹ
سلوایا تھا اور دوپٹے پر گوٹا اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا ۔۔۔اس نے دوپٹے پر
گوٹا لگا کر ماں سے کہا ٌدیکھو اماں میں نے اچھا گوٹا لگایا ہے نا ۔۔۔بڑے
ادا(بڑے بھائی ) کی دولہن کے کپڑوں پر بھی میں گوٹا لگاؤں گی۔۔اماں کتنا
مزہ آئے گا میں ادے کو خود مہندی لگاؤں گی۔۔۔امیراں کی ماں غم سے نڈھال
تھی ۔۔پینو اور اس کی ساس اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہی تھیں اور خود بھی
زاروقطار رو رہی تھیں بھلا کیسے اسے دلاسا دیتیں ۔۔۔۔ادی اٹھو۔۔پانی پی لو
۔۔ہم عورتوں کی تو قسمت ہی خراب ہے ۔۔۔اللہ سائیں نے ہمیں پیدا ہی قربان
ہونے کے لیئے کیا ہے ۔۔۔اسی لئے تو درباروں میں جا جا کر ا بیٹی پیدا نہ ہو
دعائیں کرتے ہیں۔۔۔لیکن وہ بھی بادشاہ ہے اماں حوا کی سزا ہم سے لے رہا
ہے۔۔۔کیا ہوتا ہم عورتوں کو بلی ،کتا یا کوئی اور جانور بنا دیتا ۔۔ارے اس
عورت بننے سے تو وہ بہتر تھا۔۔۔چاچی اپنے غم میں بولے چلی جا رہی تھیں اور
امیراں کی ماں اس کے گلے لگا کر بین کر رہی تھی۔۔۔ارے میری امیراں کی گڑیا
کی شادی تھی آج۔۔۔میری بیٹی کتنی خوش تھی ۔۔۔مہندی لگائی اس نے اپنے
ہاتھوں پہ۔۔۔ہائے میری بچی آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔ہائے نظر لگ گئی
میری بچی کو میری۔۔۔۔اوہ ربا تو نے پیدا کیوں کیا اگر میری گود میرے ہی بچے
کے ہاتھوں اجاڑنی تھی تو ۔۔۔بین کرتے کرتے چاچی رحمت بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔
(اگلی قسط میں دیکھئے امیراں کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔)
|