کشمیر کی آزادی کی تحریک کا نوجوان مجاہد برہان
وانی 1994 ءمیں گاﺅں دادسرا،ترل،جمو ں کشمیر میں پیدا ہوا۔ایک اسکول پرنسپل
کے اس بیٹے نے16ِاکتوبر2010ءکو 15سال کی عمر میں کشمیر کی آزادی کیلئے اپنے
گھر کو چھوڑا اور اگلے چند سالوںمیں ہی اپنی محنت و جوانمردی کی وجہ سے اہم
رہنماﺅں میں نام پیدا کر لیا اور کمانڈر مقرر ہو گئے۔ایک طرف اُس کے قدم
بڑھنے شروع ہوئے اور دوسری طرف بھارتی سیکیورٹی ایجنسیوں کی رات کی نیندیں
حرام ہو نی شروع ہوگئیں۔آمنا سامنا کہاں ہونا تھا یہ تو ممکن نظر نہیں
آرہاتھا لیکن دُشمن کی چال اپنوں میں ہی گھیر کر سامنے لانے کی یا شہید
کروانے کی زیادہ آسانی سے کامیاب ہو گئی۔ ماضی کے میر جعفر و میر صادق ایک
دفعہ پھر ۔اوہ!
27اگست2019ءکو روزنامہ آوازکے اداریہ میں ایک کالم عنوان " کشمیری ہیرو"(
سپیشل رپورٹ )کے ساتھ شائع ہوا۔
7جولائی 2016ءکی رات تھی مقبوضہ کشمیر کے ضلع انت ناگ(اسلام آباد) کے علاقے
کوکرناگ کا گاﺅں بمدورارات کی تاریکی میں مکمل ڈوبا ہوا تھااور کشمیر کی
آزادی کیلئے جد وجہد کرنے والا 21 سالہ نوجوان ہیرو برہان وانی کو اُسکی
شہادت اُس گاﺅں تک کھینچ لائی تھی۔جہاںبرہان وانی کے قریبی ساتھی سر تاج
احمد شیخ کے ماموں کی رہائش گاہ تھی۔سر تاج احمد شیخ کو اپنے ماموں اور ان
کے اہل خانہ پر مکمل بھروسہ تھا ۔
برہان وانی اور سر تاج احمدشیخ بھروسے کی خوش فہمی میں ماموں کے گھر پر
بیٹھ کر مستقبل کے لائحہ عمل پر مذاکرات کر رہے تھے اور شیخ کی کزن امل جو
برہان وانی کی کشمیر کیلئے جدوجہد کی داستانیں سُنتی رہتی اُس رات بہت خوش
تھی کہ وقت کا مجاہد ہیرو اُسکے سامنے ہے۔بلکہ جب رات کے آ خری پہر برہان
وانی اپنے دوست سرتاج احمد شیخ کے ہمراہ ماموں کے گھر کے قریب پہنچے توچند
فُٹ پہلے ماموں کے گھر کی کھڑکی پر چھوٹے سے پتھر کے ذریعے اپنی آمد کی
اطلاع دی اور اُس پر گرین سگنل دیتے ہوئے دروازہ کزن امل نے ہی کھولا۔ اوہ!
کیا ہونے والا تھا کیوں اور کیسے؟
برہان وانی پر بھارتی حکومت نے 10لاکھ روپے انعام رکھا ہو اتھااور سرتاج
احمد شیخ کے ماموں اور اُسکے گھر والوں کیلئے یہ رقم بہت بڑی تھی۔ مخبری ہو
چکی تھی۔ ستم ڈھا یا جا چکا تھا۔ برہان وانی پر ہی نہیں کشمیری قوم پر۔
دھوکا سر تاج احمد شیخ سے ہوا اور زد میں آنے ولا تھابرہان وانی جو اپنے
مجاہد دوست کی خصوصی دعوت پر وہاں پہنچ چکا تھا جہاں اُسکے آنے سے پہلے
بھارتی فوج اُسکو پکڑنے کا جال بچھا چکی تھی۔
بس مناسب وقت کا انتظار تھا جو آدھی رات اور وہاں کا گہرا اندھیرا تھا جہاں
چند لمحوں بعد روشی کی شعائیں نظر آنی تھیں وہ شعائیں ہونی تھیں گولہ
بارُود کی ۔ لیکن اس سے پہلے کی پُرسرار خاموشی پر دونوں مجاہد حیران بھی
تھے لیکن تعلقات کی بنا پر نہ ایک دوسرے سے پوچھ پا رہے تھے نہ قربت کی وجہ
سے ماموں سے سوال۔۔۔ماموں کیوں ؟کیوں ماموں؟
برہان وانی اور سرتاج احمد شیخ نے رات کا کھانا کھایا اور پھرایک الگ کمرے
میں جا کر سو گئے ۔اصل میں اُنکی قسمت سو چکی تھی کیونکہ اگلے چند گھنٹوں
بعد گاﺅں میں فوجی گاڑیاں و ٹرک بمعہ ہیلی کوپٹر کی آوازوں نے سوتے ہو ئے
وہاں کے لوگوں کو جگا دیا۔جن میں وہ دونوں مجاہد بھی تھے جو بھارتی فوج کے
نشانے پر تھے۔دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے پھر ماموں ممانی کوجو اُن سے
آنکھیں نہیں ملا پا رہے تھے۔رہی امل تو وہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر۔
بھارتی فوجی گھر کے باہر جمع تھے اور لاوڈ سپیکر پر برہان وانی اور سرتاج
شیخ کو ہتھیار ڈالنے کیلئے کہہ رہے تھے۔زندگی اور شہادت کے درمیان اب صرف
چند لمحوں کا فاصلہ تھا۔ماموں کے نام کی آواز آئی اور اُنھیں بھی گھر سے
باہر آنے کیلئے کہا گیا۔ساتھ ہی بیوی اور بیٹی امل کو بھی نام کے ساتھ
پُکار کر گھر سے باہر آنے کا کہا جا رہا تھا۔ماموں ممانی باہر جانے کیلئے
اجازت بھری نظروں سے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔ کشمیری قوم کے ہیرو برہان
وانی جو جان چکے تھے کہ اُنکا سودا10لاکھ روپے میں کیا جا چکا ہے نے اُنھیں
جانے کی اجازت دے دی جبکہ سرتاج شیخ اپنے ہاتھوں سے ماموں کو غداری کی سزا
دینے کیلئے آگے بھی بڑھے لیکن کشمیر کی آزادی کی تمنا رکھنے والے ہیرو نے
اپنے دوست کو روک دیا اور ماموں بمعہ اہل خانہ کو گھر سے باہر جانے دیئے۔
ماموں نے باہر جاتے ہی بھارتی فوجیوں سے کہا کہ دونوں کو زندہ گرفتار کرنا
جسکا جواب ماموں کو ایک زناٹے دار تھپڑ تھا جو بھارتی فوجی کی جانب سے
ماموں کو رسید کیا گیا اور پھر باہر سے چاروں طرف سے گھر پر فائرنگ شروع کر
دی گئی۔برہان وانی اور سرتاج شیخ نے بھی جوابی فائرنگ کی لیکن بھارتی فوج
کی فائرنگ کی شدت کے دوران دونوں کشمیری مر دِمجاہد اپنوں کہ ہی سازش کا
شکار ہو کر 8ِ جولائی 2016ءکوشہید ہو گئے۔ اُنھوں نے آخرت کیلئے شہادت کا
درجہ حاصل کر لیا ۔
سرتاج شیخ کے ماموں ممانی کو بھارتی سیکورٹی تو مل گئی لیکن گھر کے باہر
ایک مدت تک ہر روز کشمیری جمع ہوتے خصوصاً برہان وانی کی برسی والے دن اور
ماموں اور اُنکے اہل خانہ کو کشمیر کا غدار کہتے۔قاتلانہ حملے بھی ہوئے
لیکن محفوظ رہے۔اُن کے مطابق اُنکی زندگی موت سے بھی بدتر اور لالچی و غدار
کا الفاظ سننا معمول بن چکا ہے جسکی باز گشت اُنکے مرنے کے بعد بھی اُنکا
پیچھا کرتی رہے گی۔غدار تو اُنھیں مرنے کے بعد بھی کہا جائے گا ۔دوسری طرف
برہان وانی نے کشمیر کے جوانوں میں ایک نیا عزم ،ایک نیا جذبہ اور آزادی کی
ایک نئی اُمنگ پیدا کی اور جوانی میں ہی شہید ہو کر اَمر ہو گئے۔
کاش! لالچی و غدار یہ جانتے آزادی صرف فرد ِواحد کا ہی نہیں قوموں کا بھی
خواب ہو تا ہے جسکو مجاہد و رہنماءحقیقت میں بدلنے کیلئے اپنی جانیں قربان
کرنے تک کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔
|