کون ہے اس قیامت کا ذمہ دار؟

ہاں یہ گھاؤکہاں بھرتاہے…رستارہتاہے…لگتاایسا ہی کہ بھرگیا لیکن نہیں کبھی نہیں بھرتا…تازہ رہنے والاسدا بہار……آپ کسی پراعتماد کریں۔اندھااعتماد۔ خودپربھروسہ نہ ہولیکن اس پرتکیہ کریں کہ ہاں یہ کبھی نہیں ہمارے اعتماد سے کھیلے گا۔جان پرتو کھیل جائے گا کہ جان اتنی قیمتی بھی نہیں لیکن اعتماد کبھی نہیں ……بالکل بھی نہیں۔آپ کے ایمان کاحصہ بن جاتاہے وہ اعتماد اورپھرآپ کومعلوم ہوکہ ختم ہوگیاسب کچھ………شیشے کے برتن کی طرح کرچی کرچی ہوگیا۔ تب کیا بیتی ہے………بس یہ وہ جانتے ہیں جن پربیتتی ہے۔شایدکانچ کرچی کرچی ہو کرجڑسکے لیکن دل نہیں…ناممکن ہے۔
جب آپ دل وجاں سے فدا ہوجائیں۔سب کچھ لٹادیں۔ہاں سب کچھ …اپنے رب سے دعائیں مانگیں…اورمانگتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں جھڑی لگ جائے۔مون سون کی برسات کی طرح۔تج دیں آپ سب کچھ ۔آپ نغمے گائیں تواس کے،قصیدے پڑھیں تواس کے۔ناز اٹھائیں تواس کے۔اپنے منہ کانوالابھی اس پرقربان کردیں۔تن من دھن سب کچھ اوروہ آپ کاسب کچھ بن جائے اور پھر وقت پڑے تو وہ منہ موڑلے اوردشمن کے ساتھ کھڑاہو جائےتب………آپ کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔
کچھ بھی تونہیں رہتاآپ کے پاس۔آپ کاخلوص منہ چھپائے پھرتاہے۔جذبات آہیں بن کرگونجتے ہیں۔آپ کے گائے ہوئے نغمے … …سسکیوں میں بدل جاتے ہیں۔خواب ریزہ ریزہ ہوکربکھرجاتے ہیں۔عہدوپیمان…پرزہ پرزہ ہوکرہوامیں اڑنے لگتے ہیں۔ خبر ہی نہیں ہوتی۔ کوئی یہاں گراکوئی وہاں۔ بہت مشکل ہوجاتی ہے زندگی…خواب بکھرجائے توانسان بکھرجاتاہے اور پھر یہی نہیں۔ جنہیں سینے سے لگایاتھا،وہ سینے چھیدنے لگتے ہیں اورایسے کہ چھلنی ہوجائے دل۔ تب کیابیتتی ہے۔
میں آپ سے مخاطب ہوں۔سن رہے ہیں آپ………کوئی ربط نہیں لگ رہاآپ کو میری باتوں میں۔ہاں مجھے بھی خبر نہیں…کیا کہہ رہا ہوں۔کس لیے اور کیوں کہہ رہاہوں۔جب کسی کوروگ لگ جائے تواس سے ربط کا تقاضا…بہت ناانصافی ہے۔ سومعاف کر دیجئے مجھے۔مجھے آپ کی وسیع القلبی پرناز ہے ۔ بہت ناز۔
لیکن ذرا ٹھہرئیے بہت جلدی میں ہیں آپ۔ میں بھی توآپ میں سے ہوں۔کوئی اعلیٰ نسب،کوئی خصوصی فرد،کوئی مراعات یافتہ نہیں ہوں۔بس آپ میں سے ہوں۔میرادل آپ کے ساتھ دھڑکتاہے۔آپ کے ساتھ ہی رہناچاہتاہوں میں۔بہت خوشیاں دی ہیں آپ نے مجھے ۔ہاں بہت اعتماد کرتے ہیں آپ مجھ پرجان…تو…کچھ نہیں ہے۔آنی جانی ہے۔ضرور جائے گی۔ جب لکھ دیا توپھرکیا ڈرنا، پھر آپ کا اعتماد میری زندگی کاحاصل ہے۔اسے میں کیسے روند سکتا ہوں۔مجھے آپ پرنازہے۔آپ کی محبتوں پرمیراسربلندہے۔آپ میری تلخ نوائی پربھی رنجیدہ نہیں ہوتے۔کون سنتاہے کسی کی تلخ باتیں۔آپ سنتے ہیں۔مجھے جان سے عزیزہیں آپ۔آپ نہ ہوتے توکون اٹھاتامیرے نازنخرے۔ بس میں آپ کے ساتھ رہتاہوں اوررخصت بھی آپ کے کاندھوں پرہو کرجاؤں گا۔میرامرناجینالوگوں کے ساتھ ہے۔اس مٹی میں آسودہ ہوجاؤں گا۔
اورپھرکوئی اورآئے گا۔ضرورآئے گا۔ کسی کے چلے جانے سے کاروبارحیات رکاہے نہ رکے گا۔اپنے آس پاس دیکھتاہوں توسانس لینادوبھرہوجاتاہے۔ کتنے دکھ ہیں۔کتنے آلام ہیں لیکن ان سے توہم لڑیں گے۔اپنوں سے کیالڑیں…کیسے لڑیں،بہت مشکل ہے ناں… بہت ہی مشکل اورظرف کابھی تومعاملہ ہے۔کیاکریں کہاں جائیں۔
وہ65ء تھا۔ہم سازوسامان کے نہ ہوتے ہوئے بھی سرخروٹھہرے تھے۔اللہ ہی اللہ کیابات ہے۔اورپھرکیاہوا۔مت پوچھیے کہاں بھولتا ہے۔ 6ءکے بعد71ء آگیاتھا۔صرف6برس بعد کیاہوا۔ کیسے ہوا؟سب توجانتے ہیں،آپ پھر،آپ گلہ کرتے ہیں…میں چپ ہی نہیں ہوتا۔ شروع ہوجاتاہوں اور بس ہی نہیں کرتا۔کیسے بھلاؤں……سب کچھ بکھرگیا۔پوراایک توانابازوکٹ گیا کیسے؟کوئی نہیں بتاتا، کس نے کیایہ سب کچھ ؟اورپھروہ لاکھ سے زیادہ جری سپوت بھارت کے قید خانوں میں تھے۔ صدیق سالک کوپڑھیں ناں۔کیا،کیوں اور کیسے ہوایہ سانحہ؟میں تواسے قیامت کہتاہوں۔کون ہے اس کاذمہ دار؟کوئی نہیں بتاتا،کیا بتائے۔
آج دسمبر2019ء ہے میرے وطن عزیزمیں کیاہورہاہے۔کل جوہماراسب کچھ بربادکرکے یہاں سے فرارہوگیا،اسے ملک کے وزراء اپناڈبل محسن قراردیکرزخموں پرنمک چھڑک رہے ہیں۔ کشمیر پرسودہ بازی کرنے کیلئے قرونِ اولیٰ کی نشانی سیدعلی گیلانی کو برے القاب سے یادکرنااس کامعمول تھا ۔ مساجداورمدارس اس کے تختہ مشق سے نہ بچ سکے،اورابھی توہواہے اسلام آباد میں،جامعہ حفصہ اورلال مسجد،بھول جاتے ہیں آپ۔وہ باجوڑ میں ننھے منے قرآن قتل کردئیے گئے۔وہاں چھوٹے چھوٹے مہندی والے ہاتھوں کوپہچان کرماں نے ایسی غش کھائی کہ بیٹی کی اسی نشانی کےساتھ قبرمیں جاسوئی۔
ہرجگہ ہرمحکمہ میں سب سے پہلے پاکستان، نہیں چھوڑیں گے۔ پتہ بھی نہیں چلے گا۔کہاں سے میزائل آیا۔وہ ڈاکٹر قدیر… نہیں بھولتا ناں، سرپھراانسان ……آیاتھاہمیں محفوظ کرنے۔71ء کابدلہ لینے آیاتھا۔برسوں سورج کی روشنی کوترستارہااواب تنہاء بیٹھا کیاسوچتاہوگا؟ ایسے پاگل کایہی انجام ہوتاہے۔
دراصل کیاہے جنوں جانتا نہیں کوئی
جنوں کے نام پرہوتے ہیں واقعات بہت
میں پھر بکھرجاؤں گا،سب جانتے ہیں آپ۔آج ہماراخواب ریزہ ریزہ، پرزہ پرزہ ہوگیالیکن میرے بہت ہی عزیزبھائی آصف بٹ کے اندرایک بابے نے بسیراکرلیاہے جس نے انہیں خوابوں کی حسین جیل میں مقیدکررکھاہے جہاں سے اب اگر”رہائی ملی تومرجائیں گے”لیکن کیابتاؤں یہ سب کچھ ۔کس نے کیا۔ کس نے ہمارااعتماداپنے بوٹوں تلے روند دیا۔میں اب کیسے گاؤں ،بتائیے مجھے؟ کیسے؟مجاہدکہوں توجہادسامنے کھڑاہوجاتاہے اورآج نئی لغت میں جہاددہشتگردی ہے۔مجھے یہ حکم دیا گیاہے کہ خبردار…… جوکشمیرمیں جہادکے بارے میں سوچے گابھی ،وہ ہم سب کادشمن ہوگا……ہاں آج مجاہد نہیں پیشہ ور فوج ہےاور پیشہ ورفوج حکم کی پابند ہوتی ہے ۔حکم چاہے کہیں سے بھی آئے۔یس سر………ٹھاہ ٹھاہ۔
اجازت دیجئے۔ بس نام رہے گا اللہ کا ۔موت اورزندگی میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ جب بھی بلاوا آیا۔تیار پائے گی وہ۔
فرعون مرے تخت پہ اتریں گے،کہاں تک
کب تک میں یونہی بیعت شدادکروں گا
اب تو دل وحشی درِاخلاق میں ہے بند
اس وقت سے ڈرجب اسے آزادکروں گا
صد دام صفت میراتواپنا ہے نشیمن
میں کیسے بھلا شکوۂ صیاد کروں گا
یہ عرض وگزارش توغلامانہ اداہے
میں ہونٹ ہلا ؤں گاتوارشاد کروں گا
تو کیسے بچے گامجھے رسوائیاں دے کر
تجھ کوبھی تومیں شامل روداد کروں گا

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.