طویل جدوجہد کے بعد مختلف ملکوں کے مسودہ حقوق اور بین
الاقوامی منشوروں کے مراحل سے گزر کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10
دسمبر 1948 کے دن ے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس UDHR کوایک قرار داد
نمبر 217A کے تحت منظور کیا اور 1950 میں اقوام متحدہ کی توثیق سے ہر سال
دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور دنیا بھر
میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے، انسانی
حقوق کے تحفظ و اس کی اہمیت پر سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں، اس ڈیکلریشن
میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کی واضع نشاندہی کی گئی ہے جوکہ تیس
آرٹیکلز پر مشتمل ہے اور تمام ممبر ریاستوں کے لیے عالمی انسانی حقوق چارٹر
کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے، موجودہ دور میں حقوق انسانی کے تصور کو
کافی فروغ ملا ہے، مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور مختلف
ممالک و اداروں کے انسانی حقوق کمیشن قائم ہیں اگر کہیں انسانی حقوق کی
خلاف ورزی ہوں تو اس کا نوٹس لیا جاتا ہے اس کے ازالے کی کوشش کی جاتی ہے
لیکن کچھ طاقتور و بااثر ممالک کے مفادات کی نذر ہوکر انسانی حقوق چارٹر پر
عملدرآمد یقینی نہ بنایا جاسکا، بھارت اور اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق
کی سنگین ترین خلاف ورزیاں اور عالمی انسانی حقوق چارٹر و عالمی اداروں سے
عدم تعاون اس کی روز روشن کی طرح واضح مثالیں ہیں، مریکہ و دیگر چند طاقتور
ممالک ذاتی مفادات کے باعث ان کی ہٹ دھرمی و انسانیت کے خلاف اقدامات کو
مسلسل نظرانداز کرتے آرہے ہیں جس وجہ سے یہ امر واقعہ ہے کہ باوجود انسانی
حقوق تنظیموں کی کوششوں کے علی الرغم حق تلفیوں و انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں میں کوئی کمی نہیں آرہی بلکہ مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے، طاقتور خواہ
وہ فرد ہو یا گروہ یا پھر کوئی ملک یا قوم اپنے سے کمزور کے حقوق غصب کرنے
میں اسے کوئی باک نہیں، بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں،۔ جینو سائیڈ واچ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے اب تک
70 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور 5 اگست کے بعد سے ابتک کرفیو کا
نفاذ ہے، مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ بند ہے، وادی میں انسانی حقوق کی سنگین
خلاف ورزیاں جاری ہیں، جینوسائیڈ واچ نے کشمیریوں کی متوقع نسل کشی کی
علامات بھی بیان کی ہیں، کہا گیا ہے کہ مودی کی جماعت بی جے پی کا نظریہ
ہندوتوا اور قابض انتظامیہ کی جانب سے جابرانہ فوجی آمریت، تشدد انسانی
حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی اور غیر قانونی گرفتاریاں اس کی واضح علامات
ہیں، اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی سالہا سال
رپورٹیں جاری ہوتی آرہی ہیں جوکہ ابتک بیمعنی ہی ثابت ہوئی ہیں، ستر سال سے
زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت کشمیریوں کے حقوق دینے پر راضی نہیں،
اقوام متحدہ سے اس ضمن میں 18 قراردادیں پاس ہوچکی ہیں لیکن ستم ظریفی
دیکھیں کہ اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پہ عملدرآمد کروانے میں مکمل طور
پر ناکام رہا ہے، جس کے نتیجے میں کشمیری آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی
غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوے ہیں، انسانی حقوق چارٹر کے مطابق حق
خودارادیت ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن بھارت کشمیریوں کو یہ حق دینے کے
لیے تیار نہیں، کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے بھارت نے کشمیر میں کالے
قوانین جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ نافذ کررکھے
ہیں جن کے زریعے کشمیریوں پہ بیپناہ ظلم ڈھائے جاتے آرہے ہیں اور 5 اگست کے
بعد سے کشمیر میں مکمل کرفیو کا نفاذ ہے اور شدید ظلم و بربریت کے پہاڑ
توڑے جارہے ہیں کسی عالمی تنظیم کے رکن یا میڈیا یا سماجی کارکن کو داخلے
کی اجازت نہیں جس پر دنیا کی طرف سے شور تو مچایا جارہا ہے لیکن کوئی ٹھوس
ایکشن نہیں لیا جارہا جبکہ امریکہ، فرانس، برطانیہ جیسے طاقتور ممالک بھارت
کو اپنا تجارتی و اسٹریٹجک پارٹنر ملک قرار دیکر ہر قسم کے انسانیت کے خلاف
جرم پر آنکھیں بند کیے ہوے ہیں گویا انتظار کیا جارہا ہو جیسے روہنگیا
مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، اسی طرح
اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر عمل پیرا ہوکر فلسطینیوں پہ ظلم و
بربریت جاری رکھے ہوے ہے، بھارت و اسرائیل کے ہاتھوں سنگین ترین انسانیت کے
خلاف جرائم پر کوئی ٹھوس ایکشن نہ لینے کی وجہ سے مختلف اقوام میں اقوام
متحدہ کے کردار کے لیے منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں اگر اب بھی اقوام متحدہ
نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو کوئی بعید نہیں کہ لیگ آف نیشنز کی طرح
اقوام متحدہ بھی قصہ پارینہ بن کر رہ جائیگی اور عین یقینی ہے کہ تیسری
عالمی جنگ کا باعث بھی بھارت و اسرائیل گٹھ جوڑ و جارحیت ہی بنے، رواں ہفتے
امریکی کانگریس میں بھارتی نژاد امریکی رکن پرمیلا جیاپال کی پیش کردہ
قرارداد برائے کشمیر منظور کی ہے جس میں بھارت سے انسانی حقوق کی بحالی کا
مطالبہ دہرایا گیا ہے بھارت کی طرف سے حق تلفیوں کا اندازہ پرمیلا جیاپال
کی قرارداد سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام تر جانبداری کے باوجود وہ بھی بھارت
کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نہیں چھپاسکیں، جبکہ امریکی
کانگریس کی جانب سے بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو جائز قرار دینے کی
کوشش نے انسانی حقوق چارٹر کی صریحاً خلاف ورزیوں کو جاری رکھنے کا جواز
پیدا کردیا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیلی جارحیت پر خاموشی کا بھی واضح مطلب
ہے کہ بھارت و اسرائیل عالمی انسانی حقوق چارٹر سے ماوراء ہیں اگر یہی روش
رہی تو یقیناً یہ عالمی امن و انسانیت کے وجود کے لیے خطرناک ہے جوکہ ایک
بھیانک جنگ کے نتیجے کے طور پر نکلے گی اس لیے اب یہ اقوام عالم پر ہیکہ
آیا وہ بھارت کو لگام ڈالتی ہیں یا پھر کسی بڑی تباہی کا انتظار کرتی ہیں۔
|