وزارت مذہبی امورنے تسلیم کیاہے کہ حجاج کرام کی رقم
پرسودوصول کیاجاتاہے ،قومی اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں وزارت مذہبی
امورنے بتایاکہ گزشتہ برس 3 لاکھ 74 ہزار 857 پاکستانیوں نے حج کی
درخواستیں جمع کرائی تھیں،حج درخواستوں کے ساتھ 106 ارب 41 کروڑ روپے سے
زائد رقم اکٹھی ہوئی اور سال 2018 میں حجاج کرام کی رقم پر 21 کروڑ روپے کا
سود حاصل ہوا تھا جبکہ گزشتہ 5 سال کے دوران کل 1 ارب 17 کروڑ روپے کا سود
حاصل ہوا،قرعہ اندازی کے بعد ناکام درخواست گزاروں کو رقم واپس کر دی جاتی
ہے جبکہ سود کی رقم حجاج کی ویکسین، تربیت، ادویات اور میڈیا مہم پر خرچ کی
جاتی ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ ریاست مدینہ کے دعویدارحکومت کی وزارت مذہبی امورنے پہلی
مرتبہ سچ بولاہے کہ وہ سود خورہے ورنہ موجودہ وزیرمذہبی امور،ان سے پہلے
وزاراء اوروزارت کے ترجمان سے جب بھی یہ سوال پوچھا جاتاتوان کاجواب یہ
ہوتاتھا کہ عازمین کی رقم شریعہ اکاؤنٹ میں رکھی جاتی ہے ، صرف یہ تسلیم
کرناکافی نہیں کہ وزارت مذہبی امور سود وصول کرتی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ
ریاست مدینہ بنانے کی طرف عملی قدم اٹھاتے ہوئے وزارت مذہبی امور اﷲ سے جنگ
ختم کب کرتی ہے ؟کیوں کہ سود خوری کوئی عام گناہ ہیں بلکہ وہ خطرناک ترین
گناہ ہے قرآن کریم کی سور بقر ہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اگر اﷲ
کا حکم مان کر اسے ترک نہ کیا جائے گا تو یہ عمل اﷲ تعالی سے اعلان جنگ کے
مترادف ہوگا۔
حیران کن بات ہے کہ وزیرمذہبی اموپیرنورالحق قادری سے حج مہنگاکرنے پریہ
سوال پوچھا گیا کہ کیاآپ عازمین پربوجھ ہلکاکرنے کے لیے انہیں سبسڈی دیں گے
توانہوں نے کہاکہ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ،محترم پیرصاحب سے یہ سوال
بنتاہے کہ کیا شریعت میں سود کی وصولی درست ہے ؟اوراس سود کی رقم سے وزارت
کے کچھ افسران جوگل چھرے اڑاتے ہیں وہ ٹھیک ہے ؟آپ کے وزیراعظم توریاست
مدینہ بنانے کااعلان کرچکے ہیں توایسے میں آپ آگے بڑھیں اوراعلان کردیں کہ
وزارت مذہبی امورآئندہ سود کی رقم وصول نہیں کرے گی ،ماضی میں اورآپ کے
دورمیں اس رقم سے جوعیاشیاں کی گئی ہیں اس تمام کاآڈٹ کرے گی ۔اس کے ساتھ
ساتھ وزیرمذہبی اموریہ بھی قوم کے سامنے لائیں کہ کس طرح حج کوٹے اورحج
فارم کی بندربانٹ کی جاتی ہے ؟وزارت میں موجود ایک طاقت ورمافیاکس طرح ہاتھ
کی صفائی دکھاتاہے احتساب کا نعرہ صرف سیاسی مقاصدکے لیے استعمال نہیں
ہوناچاہیے بلکہ یہ عمل وزارت مذہبی امورمیں بھی ہوناچاہیے ۔
صرف باتیں کرنے سے ریاست مدینہ نہیں بنتی بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات
اٹھاناہوں گے یہاں عمل تودرکنار اب تویہ سمجھاجارہاہے کہ ریاست مدینہ کے
نعرہ سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کیاجارہاہے جوکہ ایک اوربڑاگناہ ہے،حالانکہ
پی ٹی آئی کی حکومت نے مخالفین پرالزام لگایاکہ وہ مذہبی کارڈاستعمال نہ
کریں مگرخود سب سے بڑامذہبی کارڈ سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کیا، اس کے
ساتھ ظلم یہ ہواکہ وزیراعظم کی طرف سے مقدس شخصیات کے متعلق مسلسل ایسے
بیانات آرہے ہیں کہ جوکسی زمرے میں تہذیب ،اخلاق وادب کے دائرے میں نہیں
آتے چہ جائیکہ ایسے الفاظ کسی عام کے لیے بھی استعما ل کیے جائیں
مگروزیراعظم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ودیگرشخصیات کے متعلق کررہے ہیں ،چنددن
قبل وزیراعظم کی طرف سے ایک مرتبہ پھرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق
ایسالفظ بول دیاکہ علماء اورمذہبی جماعتیں کیاعام آدمی بھی تڑپ اٹھا حکومت
کے حمایتی علماء بھی خاموش نہیں رہے سکے ۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین علامہ طاہراشرفی نے وزیراعظم کے نام ایک خط
تحریرکیا کہ آپ اپنی تقاریرمیں جب مقدس شخصیات اورمقدسات کے بارے میں
گفتگوکرتے ہیں توخدارااحتیاط توکرسکتے ہیں جب کوئی بچہ اپنے باپ کے بارے
میں توہین آمیزجملہ برداشت نہیں کرتاتوجوہماراسب کچھ ہیں جن پرساری عزتیں ،عظمتیں
قربان کردیں ان کاذکرکرتے ہوئے خدارااحتیاط کریں ، آپ کے جملے سنے دل
کررہاہے کہ آپ کواپنی پوری قوت سے کہوں خان صاحب خدارااحتیاط کریں آپ
تقریرکرتے وقت پرچی سامنے رکھ لیں ،خان صاحب نہ کوئی دلیل ،نہ کوئی ترجمہ ،نہ
تشریح ،ایک ہی بات کہ معذرت ،اﷲ کے دربارمیں معافی اورمسلمانان عالم سے
معذرت اوردرود شریف کی کثرت ،وگرنہ مجھے خوف کہ ان جملوں سے اﷲ کریم کی
ناراضگی نہ آجائے ۔
معروف عالم دین مفتی محمدتقی عثمانی ،وفاق المدارس کے رہنماوں مولانا ڈاکٹر
عبدالرزاق اسکندر ،مولانا محمد حنیف جالندھری ،جامعہ نعیمیہ کے مہتمم علامہ
راغب حسین نعیمی ودیگرعلماء کرام نے خبردار کیا کہ وزیر اعظم بار بار توہین
آمیز کلمات بولنے سے گریز کریں,انہوں نے کہا کہ دینی معاملات میں ہی وزیر
اعظم کی زبان کا پھسلنا لمحہ فکریہ ہے,وزیر اعظم اپنے منصب کا خیال
رکھیں,علماء کرام نے مطالبہ کیا کہ توہین آمیز کلمات کی ادائیگی پر اﷲ رب
العزت سے اور پوری قوم سے غیرمشروط اور اعلانیہ معافی مانگیں، وزیر اعظم
اپنے منصب کا خیال رکھیں اور جملہ امور میں بالخصوص دینی معاملات میں ہر
قسم کی بے احتیاطی سے پرہیز کریں-
وزیراعظم کی طرف سے باربارایسے بیانات پرہمارے وزیرمذہبی امور خاموش ہیں
حالانکہ انہیں آگے بڑھ کروزیراعظم کوروکناچاہیے کہ مذہبی معاملات پراس طرح
کی بیان بازی نہ کی جائے ،اگروزیراعظم کواسلامی تاریخ پربات کرنے کااتناہی
شوق ہے تووہ اس کے لیے اپناایک خصوصی مشیررکھ لیں تاکہ وہ ان کی تیاری
کروائے انہیں بتایاجائے کہ ریاست مدینہ کاوالی ایسانہیں ہوتاجومقد س شخصیات
کے بارے میں الفاظ کاچناؤ درست اندازمیں نہ کرسکے ،اگروزیراعظم نے اقوام
متحدہ میں مقدس شخصیات او اسلامو فوبیا کے متعلق تقریرکرکے عوام کی حمایت
حاصل کی تھی تواس کابھی تقاضا ہے کہ وہ خود بھی ایسے بیانات سے گریزکریں کہ
جس سے غیروں کوبات کرنے یاواردات کرنے موقع ملے ۔
وزیراعظم اوروزاراء کے ایسے بیانات کی وجہ سے وہ علماء کرام بھی مہربلب ہیں
جوابتداء میں ان کی حمایت میں کھڑے تھے معروف مبلغ مولاناطارق جمیل اس
حوالے سے سب سے تواناآوازتھی مگرکچھ عرصے سے وہ بھی عمران خان کی حمایت میں
نہیں بول رہے ،سوشل میڈیاپروزیراعظم کی تقاریرکے الفاظ گردش کررہے ہیں کہ
جوانہوں نے مختلف مواقعوں پربیان کیے ہیں یہ ایسے بیانات اورالفاظ ہیں کہ
انہیں لکھنے کی بھی جسارت نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ ان الفاظ پرقائم
رہاجائے یاانہیں مسلسل دہرایاجائے ،حیران کن امریہ ہے کہ سیاسی تقلیدمیں
اندھے کارکن اسے کم علمی یاسبقت لسانی سے تعبیرکررہے ہیں حالانکہ ان الفاظ
کی کوئی تشریح یاتعبیرنہیں کی جاسکتی ۔وزیراعظم کی طرف سے دانستہ
یاغیردانستہ ایسے الفاظ کااستعمال کسی صورت درست نہیں ان الفاظ کی کوئی
تعبیروتشریح نہیں کی جاسکتی ۔
ہمارے وزیراعظم یوٹرن کے اعتبارسے مشہورہیں انہوں نے ماضی میں جواعلانات
اوربیانات دیئے وہ ان سب سے یوٹرن لے چکے ہیں مگرمذہبی معاملات پرانہوں نے
جتنے بھی بیانات دیئے ہیں ان میں سے کسی ایک پربھی یوٹرن نہیں لیاہے کاش وہ
ان بیانات پربھی ایک یوٹرن لے لیں ۔بارگاہ رحمت کی شان دیکھیے کہ عفو و
درگزر اس کی امتیازی صفت ہے۔ا ﷲ کی نافرمانی اگرچہ ہمارے لیے ہلاکت و تباہی
کا سامان ہے لیکن اصل تباہی اور ہلاکت یہ ہے کہ انسان کو توبہ کرنے کی
توفیق نہ ملے اور وہ ﷲ کی وسیع تر رحمت کا فائدہ نہ اٹھائے۔وزیرمذہبی
امورپیرنورالحق قادری عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ گدی نشیں بھی ہیں انہیں
اس سلسلے میں آگے بڑھناچاہیے اوربتاناچاہیے کہ ریاست مدینہ بنانے کے تقاضے
کیاہیں اورانہیں کس طرح عملی جامہ پہنایاجاسکتاہے ۔؟
|