مساوات اور مذہبی امتیاز:
ہندوستان کے آئین نے تمام ہندوستانیوں کو یکساں حقوق مہیا کیے ہیں- جن میں
بھید بھاؤ، امتیازات کا دخل نہیں- جو تعصب اور اونچ نیچ کی تفریق سے بَری
ہے- دفعات 24 اور 25 ملاحظہ کریں:
دفع14: مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا
قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی-
دفع 15 (1): مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی
کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی-
(بحوالہ: بھارت کا آئین، دفعات 14-15حصہ 3ص44، 2010ء قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان دہلی)
حالیہ بلCAB (citizenship amendment Bill) مذکورہ دفعات کے مغائر اور خلاف
ہے، کیوں کہ اس بل میں شہریت کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر کی گئی ہے- جس سے
دفع 14 کا مساویانہ تحفظ مجروح ہوتا ہے- CAB میں مسلمانوں کو باہر رکھ کر
مساوات کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں... اور مذہبی فاصلہ قائم کر کے مسلمانوں
کے شہری حقوق میں امتیاز برتا گیا ہے....
مذکورہ بل سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں اپنے تحفظات کے تئیں خوف و شبہ کا
ماحول بن چکا ہے- جس سے بھارت کے شہریوں بالخصوص جمہوریت پر یقین رکھنے
والوں اور مسلمانوں میں زبردست بے چینی ہے- عوام کا سکون درہم برہم ہے-
پورے ملک میں ہندوستانی عوام احتجاج کر رہی ہے- CAB ایک ظالمانہ بل ہے جو
جمہوری اصولوں سے ٹکراتا ہے- جس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی صاف محسوس
ہوتی ہے؛ اسی لئے پورے بھارت میں شدید بے اطمینانی کا ماحول مشاہدہ ہو رہا
ہے- مملکت میں سکون رُخصت ہو چکا ہے- یہ پہلو دُنیا کے عظیم جمہوری نظام کے
لیے شرم کی بات ہے- پوری دُنیا میں بھارت کے آئین کی یہ توہین ہے کہ مساوات
اور مذہبی آزادی پر قانون ساز ادارے سے حملہ کیا گیا ہے- اس عدمِ تحفظ کی
فضا نے ملک کے امن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے-
آئین کا تحفظ اور عوامی رد عمل:
بھارتی قانون Constitution of India کے تحفظ و احترام کے تئیں فی الحال
پورے ملک میں احتجاج جاری ہے- مطالبہ یہی ہے کہ جو بل پاس کروایا گیا ہے
اور قانون بنایا گیا ہے وہ مذہبی بنیادوں پر ہے؛ جسے فوراً منسوخ کیا جائے-
ملک بھر میں اس کے خلاف جو احتجاج کا سلسلہ جاری ہوا ہے وہ تھمنے کا نام
نہیں لے رہا ہے- صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم سنجیدہ طبقہ بھی آئین کی
پامالی پر سراپا احتجاج ہے- یہی مطالبہ ہے کہ یہ کالا قانون واپس لیا جائے-
اور ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ کیا جائے-
منفی اثرات:
1- ملک میں مشترکہ اقدار اور امن خطرے میں ہے-
2- ہندو مسلم رواداری کا سخت نقصان ہوگا- جن کے دل رقابت اور انتشار سے
خالی تھے ان میں دوریاں پیدا کرنے کا باعث یہ قانون بنے گا-
3- مسلمانوں اور اس بل سے باہر رکھے گئے طبقوں میں احساسِ کمتری پیدا ہونے
کا اندیشہ ہے- دوسرے درجے کا شہری بنانے کا سبب ہے یہ قانون!
4- طبقاتی کشمکش کو فروغ ملنے کا اندیشہ ہے!
5- ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ قانون رکاوٹ ہے کیونکہ جب دو طبقوں میں
منافرت کا ماحول تیار ہوگا تو معیشت کا پُر امن ماحول غارت ہو جائے گا-
جیسا کہ اصول ہے کہ پُر امن ماحول معیشت کی ترقی کے لیے لازم-
6- سی اے بی کے پیش نظر N.R.C کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے- کیوں کہ غیر
ملکی فرد کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جا رہی ہے؛ سوائے مسلمان کے؛ تو صاف
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے استحصال کے لیے ہی یہ قانون نافذ کرنے کا پلان ہے!
7- ہندوستانی مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر کی؛ اس ملک کو آزادی دلائی؛
مجاہدین آزادیِ ہند کے جانشینوں کو ہی ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینا کیا
توہین نہیں؟
8- ملک کا اٹوٹ حصہ (مسلمان) اگر جدا کر دیا جائے تو کیا بچے گا؟ ہم سے ملک
کی آبرو ہے؛ وقار و سنگھار ہے:
ہند کو جس پر ناز ہے وہ نشانی ہم ہیں
تاج اور لال قلعہ کے یہاں بانی ہم ہیں
امن سے ترقی:
امن کی نعمت سے ملک کو محروم کرنے کی کوشش بلاشبہ دہشت گردی ہے؛ نفرتوں کی
آبیاری کر کے بھاجپا نے اپنا اصل روپ دکھا دیا ہے؛ ہمیں یقین ہے کہ قدرت
انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کرے گی- ان کے دامن بے گناہوں کے خون سے داغ
دار ہیں- طلبۂ یونیورسٹی کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا- جمہوری و دستوری رو
سے بھاجپائی قانون کی مخالفت و مذمت میں جاری تحریک میں دیگر مذاہب کے
سنجیدہ افراد کو اور سیکولر سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کرنا چاہیے- تا کہ
کالے قانون کے خلافِ آئینِ ہند ہونے پر شروع ہونے والی تحریک مضبوط ہو اور
یہ جمہوری احتجاج اپنا اثر دکھائے:
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
***
١٦ دسمبر ٢٠١٩ء
|