موہالی کا جذبہ پائندہ باد

۰۳ مارچ ۱۱۰۲ءہندستان اور پاکستان کے لئے ایک تاریخی دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔موہالی میں ہندو پاک کرکٹ میچ کے ساتھ ہی دنیا کی نظریں وزیر اعظم ہند اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان مجوزہ ملاقات پر لگی ہوئی تھیں۔۹۲ کی شام جب میچ اور ملاقات دونوں کے لئے تیاریاں آخری مرحلہ میں تھیں تبھی دست قدرت نے حرکت میں آکر اپنا جلوہ دکھایا اور ہلکی بوندا باندی کے ساتھ موسم کی شدت کو خوشگوار ی میں بدل دیا گویا غیب سے ندا آئی ’اہلاً و سہلا یا سید ی یوسف رضا گیلانی‘ اور اعلان کردیا کہ اے فرزند پاکستان پورا برصغیر ہند میں تمہارے خیر مقدم کے لئے آمادہ و استادہ ہے۔

یہ بات کم اہم نہیں ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کا نسبی سلسلہ قادری سلسلہ کے اہم بزرگ صوفی ’سائیں بابا سید میر محمد صاحب عرف میاں میر ۰۵۵۱ ءتا اگست ۵۳۶۱ئ) سے جاکر ملتا ہے، جو دھرم پورہ (لاہور) میں منصب رشد و ہدایت پر فائز تھے۔ ان کو خلق خدا میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ سکھوں کے پانچویںگورو ارجن دیو بھی ان کے معتقدین میںشامل تھے ۔چنانچہ ۸۸۵۱ءمیں جب انہوں نے امرتسر میں اس خانقاہ( ہرمندر صاحب )کی تعمیر و توسیع کا ارادہ کیا، جو دربار صاحب کے نام سے آج مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ،تو اس کا سنگ بنیاد میاں صاحب کے ہی مبارک ہاتھوں سے ہی رکھوایا ۔ انکے تعلق باللہ کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ جب فرزند اکبر، شہنشاہ ہند ابوالفتح نورالدین سلیم بادشاہ جہانگیر شاہی کروفر کے ساتھ ان کی خانقاہ میں وارد ہوا تو خدام نے شاہی قافلے کو دروازے پر روک دیا اور جب میاں صاحب کی اجازت سے جہانگیر اندر داخل ہوا، تو شکوہ کیا: ’بہ در درویش دربانے نباید‘(درویش کے دروازے پر دربان نہیں ہونا چاہئے‘ تو شاہی جلال کی پروا کئے بغیر صوفی بزرگ نے فرمایا:’بباید کہ سگِ دنیا نہ آید‘(یہ اس لئے ہے کہ دنیا کا لالچی کتا اندر داخل نہ ہو) ۔ شاید یہ حضر ت میاں میرؒ کے تعلق کا ہی فیض تھا کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یوسف رضا گیلانی کا خیر مقدم ایسی گرمجوشی سے کیا جس کی مثال ہند پاک رشتوں میں نہیں ملتی ۔خود مسٹر گیلانی نے یہ اعتراف کیا کہ موہالی اسٹیڈیم میںجس طرح ہندستانی قائدین اور کھیل کے شائقین نے ان کا والہانہ استقبال کیا وہ فقیدالمثال ہے اور اس سے وہ بہت متاثر ہوئے ہیں۔ موہالی میں دو ممالک کے وزرائے اعظم ہی گلے نہیں ملے بلکہ دو دل ملے ، دو بھائی ملے، دو قومیں ملیں اور اس عزم کے ساتھ ملیں کہ ماضی کی ساری تلخیوں کو اس شربت محبت سے بدل دیا جائے گا جو عظیم صوفیائے کرام کا ورثہ ہے، جس کے نتیجہ میں مدت سے باہم آمادہ جنگ یہ پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے غم گسار، سراپا امن و عافیت اور قابل اعتماد ہمسایہ بن کردنیا کے نقشے پر ابھر آئیں گے۔

ہندو پاک کی اعلا قیادت کے درمیان کرکٹ کے بہانے رابطے دو بار اس سے پہلے بھی قائم ہوئے ہیں ۔ ۷۸۹۱ء میں صدر جنرل ضیاءالحق میچ دیکھنے کے بہانے جے پور آئے اور وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کی۔سنہ۵۰۰۲ءمیںجنرل پرویز مشرف دہلی آئے اور ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی۔یہ دونوں ملاقاتیں بھی ہند پاک تعلقات میں اصلاح کا ذریعہ بنیں۔۷۸۹۱ءمیں جنگ کا وہ خطرہ ٹل گیا جو پاکستان میں نیوکلیائی اسلحہ کے تجربہ کے بعد سے منڈلا رہا تھا اور ۵۰۰۲ ءمیں جنرل پرویزمشرف کے دورے کے بعد اعتماد سازی کے متعدد اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اسی ملاقات کے بعد کشمیر کے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پس پردہ سفارتی کوششوں کی طرح پڑی اور اصولی طور پر کنٹرول لائن کو بے اثر کرنا طے ہو۔ چنانچہ در اندازی کا زور بڑی حد تک ٹوٹ گیا،سرحد پر توپوں نے آگ برسانا بند کردیا اور ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کی راہیں کھلیں۔مگر ان سابقہ ملاقاتوں اور موہالی کی اس ملاقات میں ایک جوہری فرق ہے۔ وہ ملاقاتیں پاکستان کے فوجی حکمرانوں کی تھیں اور یہ ملاقات پاکستان کی جمہوری حکومت کے نمائندے کی ہند کے نمائندوں کے ساتھ ہوئی۔ سابق کی دو ملاقاتوں کو پاکستانی عوام کی ویسی تائید و حمایت حاصل نہیں تھی جیسی اس ملاقات کو ہوئی ہے۔

موہالی میں اس موقعہ پر دیگر لیڈروں کے علاوہ خصوصاً یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی اور کانگریس جنرل سیکریٹری راہل گاندھی کی موجودگی نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ امن اور بھائی چارے کی ان کوششوں میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تنہا نہیں ہیں بلکہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔یہ بات اس لئے اہم ہے کہ حال ہی میں وکی لیکس نے ہند میں امریکی سفیر ٹموتھی روئمر کا ایک مکتو ب جاری کیا تھا جس میں بڑے ہی وثوق کے ساتھ واشنگٹن کو یہ مطلع کیا گیا تھا کہ پاکستان سے مذاکرات کے معاملے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اکیلے پڑ گئے ہیں ،یہاں تک کہ ان کو نہ تو کابینہ کی حمایت حاصل ہے اور نہ اپنی پارٹی کی۔ محترمہ سونیا گاندھی کی موہالی میںموجودگی نے نہ صرف یہ کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں بلکہ یہ پیغام بھی دیدیا ہے کہ ہندستان پاکستان کے ساتھ جنگ کا نہیں امن کا خواہاں ہے۔ہندستان نے سرحدی اور علاقائی تنازعات کے باوجود آخر چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور کاروباری رشتے استوار کئے ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ بھی رشتوں کی استواری چاہتا ہے جو دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہیں۔ اس خطے کے مفاد میں ہیں ۔ہند کی جانب سے یہ پیغام اس لئے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ برسوں تک ہند کے بارے میںیہ تاثر عام رہا ہے کہ اس کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔وہ پڑوسیوں کے ساتھ برابری کے رشتوں کے بجائے’ بھائی‘ کی طرح پیش آتا ہے۔وزیر اعظم کی حیثیت سے جب اٹل بہاری باجپئی نے اس رویہ کو بدلنے کی کوشش کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن بہر حال اپنی ’بس ڈپلومیسی‘ سے انہوں نے ایک مثبت پیغام دینے کی جو کوشش کی تھی اس کو بڑی مضبوطی اور کامیابی سے یو پی اے سرکار نے نافذ کیا ہے اور اپنے قول و عمل سے بڑی حد تک اس تاثر کو بدل ڈالا ہے کہ ہندستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ خوش ہمسائگی کے اصول پر عمل نہیں کرتا۔ سابق میں ہند کی اس ناقص علاقائی پالیسی کا ایک بڑا سبب نوکر شاہی پر سنگھ کی گرفت ہے جو اپنی سرحد کی دونوں جانب مسلم اکثریتی ملکوں کے ساتھ دشمنی اور چپقلش کو اپنے داخلی ایجنڈے کے فروغ کےلئے ضروری سمجھتا ہے۔سونیا گاندھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت نے اس پالیسی کو بدلا ہے چنانچہ ہندستان اس نفسیات سے باہر نکل رہا ہے اور اس حقیقت کو قبول کررہا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ دوستی ہی ہند کے اور اس خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔ہندستان کے تعلق سے پاکستان کا نظریہ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔وہاں کے مذہبی اور سیاسی رہنما الا ماشاءاللہ ہند کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کرنے میں کچھ پیچھے نہیں رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی نظریہ بدل رہا ہے۔دونوں ممالک میں خیرسگالی کی ضرورت و اہمیت پر وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ ہند اور پاکستان کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق ان کے اس نظریہ کو مبینہ طور سے قومی سلامتی کے سابق مشیر این کے نارائنن نے مسترد کردیا تھا۔ مسٹرنارائنن پاکستان کے تئیں اسی روش پر قائم رہنے کے خواہش مند نظرآتے تھے جس کے پیش نظر ہر جائز و ناجائز طریقے سے عالمی سطح پر پاکستان کو گھیرنا رہا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس نظریہ کو بدلا ہے۔چنانچہ مسٹر گیلانی کے اس دورے کو پوری ہندستانی قوم کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔صرف بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کی طرف سے شاہنواز حسین، لال کرشن آڈوانی اور ارن جیٹلی نے مخالفت میں کچھ کہا ہے مگر اس کی حیثیت مخالفت برائے مخالفت سے زیادہ کچھ نہیں۔

دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی کو بھی پوری پاکستانی قوم کی پرزور تائید حاصل ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے نہ صرف یہ کہ اس ملاقات کے نتائج پر اظہار اطمینان کیا ہے بلکہ اس کی بھرپور تائید اس طرح کی کہ جب موہالی سے واپسی پر مسٹر گیلانی ان کو تفصیلات آگاہ کرنے پہنچے تو صدر نے ان کے اعزار میں عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں وزیر داخلہ رحمن ملک سمیت وفد میں شامل متعدد لیڈروں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر منموہن کے دعوت کی منظوری کے ساتھ ہی ایک ہندستانی قیدی گوپال داس کی سزا میں تخفیف کے فیصلے سے بھی خیرسگالی کے جذبہ کو تقویت ملی ہے۔ ۷۲ سال پاکستانی جیل میں گزار کر گوپال ہند واپس پہنچ گیا ہے۔توقع ہے ایسے ہی جذبہ کا اظہار دونوں ممالک دیگر قیدیوں کے معاملے میں بھی کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسٹر گیلانی اپنے ساتھ جو وفد لائے تھے وہ خود اس بات کا اعلان ہے کہ دوستی کےلئے ہند نے جو ہاتھ بڑھایا ہے، اس کا مثبت جواب دینے کےلئے پوری پاکستانی قوم کی تائید ان کو حاصل ہے۔ اس وفد میں سابق وزیر اعظم چودھری شجاہت حسین، وزیر داخلہ رحمن ملک،عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی خان، وزیر دفاع چودھری احمد مختار، وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، اسپورٹس منسٹر انجنئر شوکت اللہ، محکمہ ڈاک و تار کے وزیر سردار محمد ، وزارت خارجہ میں وزیر مملکت محترمہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر قمر زمن کیرا، محترمہ شیریںرحمن،لئیق محمد خاں (جمعیت علماءپاکستان) اور فاروق ستار (ایم کیو ایم) ارکان قومی اسمبلی سمیت تقریباً پچاس قائدین شامل تھے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکریٹریجناب مشاہد حسین رکن سینٹ بھی موجود تھے۔ پاکستانی دانشوروں اور صحافیوں نے اس پہل کا جس طرح خیر مقدم کیا ہے وہ بھی بڑا ہی حوصلہ مندانہ ہے۔

اس دورے کا ماحصل وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی کی اس تقریرمیں تلاش کیا جانا چاہئے جو انہوں موہالی واپسی پر یکم اپریل کو سینٹ میں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان اور پاکستان کو اپنے مسائل حل کرنے کےلئے ’جنگ کی نفسیات ‘ پر قابو پانا ہوگا۔ اور یہ کہ دنیا کی کوئی تیسری طاقت ہند پاک مسائل کو حل نہیں کراسکتی۔ یہ مسائل ہمیں خود باہم مذاکرات سے حل کرنے ہونگے۔ مسٹر گیلانی کا یہ اعلان پاکستان کی اس اہم ہے کہ سابق میںپاکستان ہمیشہ اصرار کرتا تھا کہ یو این اور امریکا ہند پاک مسائل حل کرانے میںمعاونت کریں۔ مسٹر گیلانی کے ان اعلانات سے دو باتیں صاف ہیں اول یہ کہ ایک جمہوری وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ پوری طرح پر اعتماد ہیں۔ یہ اعتماد اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا کہ ام مساعی میں صدرآصف زرداری اور پاکستانی فوج دونوں کی تائید ان کو حاصل ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور محترمہ سونیاگاندھی کی نیک نیتی پر اعتماد کرتے ہیں۔ باہم اعتماد سازی کی یہ بنیاد بہت مضبوط ہے اور ہم امید کرسکتے ہیں اس پر جو قصر تعمیر ہوگا اس میں مسٹر گیلانی کے اس خواب کی تعبیر بھی ہوگی جس کی طرف انہوں نے اپنی اسی تقریر میں جلی اشارہ کیا ہے۔ ’ہمیں اپنے دونوںملکوں کے غریب عوام کے حالت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ہمیں غریبی، بے روزگاری، بیماری، بھوک اور امن و قانون جیسے اپنے اصل مسائل کو حل کرنے کےلئے مل جل کر جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے غریب عوام کی طرف دیکھنا ہے اور ہاں ہم دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ‘ان کی اس تقریرمیںڈاکٹر منموہن سنگھ کی اس تقریر کی گونج صاف سنائی دیتی ہے جو انہوں نے مسٹر گیلانی کے استقبال میں کی تھی اور جس میں اسی نکتہ کو اہمیت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا تھا : ہندستان اور پاکستان کو اپنی ازلی دشمنی کو بھلاکران مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جس سے ہمارے عوام دوچار ہیں۔‘

ممبئی پر ۶۲ نومبر ۸۰۰۲ کے شاطرانہ حملے کے چند ہی ماہ بعد جون ۹۰۰۲ءمیں روس کے شہر ییکاتیرن برگ(Yekaterinburg) میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے موقع پر وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پاکستان کے ساتھ ٹوٹے ہوئے رشتوں کی از سر نو شیرازہ بندی کےلئے جس پر عزم راہ پر قدم رکھا تھا، گیلانی صاحب کا یہ دورہ اس کا ایک اہم موڑ ہے۔ اس سے قبل جولائی ۹۰۰۲ میں شرم الشیخ میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سید گیلانی سے بات چیت اور پھر اپریل ۰۱۰۲ءمیں تھمپو میں ملاقات اسی سفر کی منزلیں ہیں۔ شرم الشیخ کے مشترکہ اعلانیہ میںبلوچستان کا ذکر ہندستانی قیادت کی سیاسی پختگی کی غمازہے ۔ہندستان میں بعض حلقوں میں اس پر جو شور اٹھا تھا وہ ان کی کوتاہ نظری کا مظہر تھا۔ اس پورے خطے کے لئے یہ بات بڑی اہم ہے کہ پاکستان میں جو نیا جمہوری دور شروع ہوا ہے اس کو تقویت پہنچائی جائے اور پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ پاکستان میں ایک مضبوط جمہوری حکومت ہی ان پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کےلئے جرائتمندانہ فیصلے کرسکتی ہے جو ہند پاک رشتوں میں تلخی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ شرم الشیخ اعلانیہ ہندستان کی اسی سوچ کا مظہرتھا۔موہالی کی ملاقات میں خیرسگالی اور باہمی اعتماد کا جو ماحول بنا ہے اس کی حفاظت کرنا اور اس کو مزید مستحکم کرنا دونوں ملکوں کے سیاست دانوں، عوامی نمائندوں، باشعور شہریوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے ۔ ہند اور پاکستان کا بھلا اسی میں ہے کہ مل کر قدم بڑھائیںاور اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر پورے خطے میں خیرسگالی اور خوشحالی کا ماحول پیدا کریں۔ہند و پاک رشتوں میں استواری چین اور برما سے لیکر ترکی تک خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.