حکومتی ادارے٬ الیکشن 2011ﺀ اور عوام

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایران کا بادشاہ دارا ایک دفعہ شکار کھیلتے ہوئے اپنے لشکر سے بچھڑ گیا۔اسی عالم میں اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا اس کی طرف آرہا ہے۔دارا سمجھا کہ یہ کوئی دشمن ہے اُس نے فوراً تیر کمان میں جوڑ کر اُس آدمی کا نشانہ باندھ لیا۔وہ آدمی خوفزدہ ہو کر چلایا کہ جہاں پناہ میں دشمن نہیں ہوں بلکہ آپ کا چرواہا ہوں اور یہاں آپ کے گھوڑے چرا رہا ہوں۔بادشاہ نے کمان ہاتھ سے رکھ دی اور ہنس کر کہنے لگا کہ اے بیوقوف اگر آج فرشتہ غیب تیری مدد نہ کرتا تو تیری موت میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی۔چرواہے نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ بادشاہ سلامت اگر جان کی امان پاﺅں تو کچھ عرض کروں۔دارا نے کہا کہ کہو کیا کہتے ہو۔ چرواہے نے کہا کہو کیا کہتے ہو۔چرواہے نے کہا ”حضور ساری رعیت کے رکھوالے ہیں یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ دوست اور دشمن میں تمیز نہ کر سکے۔ آپ نے مجھے بارہا دربار میں دیکھا ہے اور مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہ کے حالات دریافت کئے ہیں۔ جب میں آپ کی طرف بڑھا تو آپ نے مجھے دشمن سمجھ لیا۔ حالانکہ مجھ جیسا غریب چرواہا اپنے گلے کے بے شمار گھوڑوں میں سے ایک ایک کو پہچانتا ہے۔ آپ جس گھوڑے کے پیش کرنے کا حکم دیں اُسے پل بھر میں لا کر حاصل کر دوں گا۔ عالم پناہ جہاں بانی کی شرط تو یہ ہے کہ آپ اپنے ہر ماتحت کو پہچانیں کہ وہ کون ہے اور کیسا ہے۔ میں گھوڑوں کا رکھوالا ہوں۔ رعیت کے رکھوالے جس طرح میں فہم و فراست سے اپنے ریوڑ کو قائم رکھتا ہوں اسی طرح آپ بھی اپنے گلے کو قائم رکھیئے۔اُس سلطنت کے زوال کا خدشہ ہے جہاں بادشاہ کی تدبیر چرواہے سے بھی کم ہو۔“

قارئین! پاکستان اور آزاد کشمیر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران آج تک وہ لوگ بنتے رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں تھے اور اُن کی فہم و فراست گھوڑوں کے اُس چرواہے سے بھی کئی درجہ کم تر تھی جس کا ذکر شیخ سعدیؒ نے اس حکایت میں کیا ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کے نام پر برسرِ اقتدار آنے والے حکومت کے سربراہ اس درجہ دوست نواز ہیں کہ مختلف اہم ترین محکموں اور اداروں کی سربراہی انہوں نے میرٹ پر دینے کی بجائے اپنے دوستوں میں ایسے بانٹی کہ مجبوراً پاکستانی سپریم کورٹ کو از خود نوٹسز لینے پڑے اور کرپٹ لوگوں کو معطل کرنا پڑا۔ یہاں ازراہِ تفنن یہ بھی ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ موجودہ پاکستانی حکومت کے سربراہ بھی گھوڑوں سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ خیر یہ تو برسرِ راہ ذکر آیا گیا ۔ اسی طرح اگر ہم آزادکشمیر حکومت کے مختلف فیصلوں اور مختلف اہم اداروں میں تعینات اہم ترین شخصیات کا ذکر کریں تو میرٹ کی پامالی اور اقرباء پروری کی ایسی ایسی داستانیں منظرِ عام پر آئیں گی کہ عوام حیران رہ جائیں گے۔سیاسی فیصلے ہمیں یہاں تک لا چکے ہیں کہ وہ آزادکشمیر کہ جس کے کل تین اضلاع تھے اور اس کا انتظام ایک کمشنر کے ذریعے انتہائی احسن طریقے سے چل رہا تھا وہاں ایک درجن کے قریب اضلاع بنا دیئے گئے۔ تین کمشنر اور دس ڈپٹی کمشنر اور اُس کے ساتھ ساتھ ہر ڈیپارٹمنٹ میں سینکڑوں کے حساب سے لاﺅ لشکر عوام کے ادا کردہ ٹیکسز کے اوپر پل رہا ہے اور کارکردگی ندارد....

یہاں تک بھی شنید ہے کہ سیاسی لحاظ سے آزادکشمیر کے اقتدار پر قابض چند گھرانے جب بھی اپنے کسی بیٹے بیٹی کو بیورو کریسی میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ایک نئے ضلع کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور ماضی میں موجود ایسی کئی زندہ وجاوید مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جو آج بھی حکمران طبقے کے لیے باعثِ شرم اور ذلت ہیں۔آزادکشمیر کا سب سے زیادہ آمدن دینے والا ضلع میرپور بیورو کریسی اور وزراء سے لے کر صدر و وزیر اعظم کی پسندیدہ چراہ گاہ رہا ہے اور یہ لوگ یہاں تعیناتی سے لے کر یہاں کے دورے کرنے تک دونوں ہاتھوں سے یہا ں کے وسائل لوٹتے رہے ہیں۔یہاں تک مشہور ہے کہ دوسرے اضلاع سے خالی ہاتھ آنے والا آفیسر اور حکومتِ پاکستان سے مستعار لیے جانے والے بیورو کریٹ”میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ سے پلاٹ الاٹ کرواتے اور اپنے دورے ہی کے دوران لاکھوں، کروڑوں روپے کا وہ پلاٹ بیچ کر یہاں سے رخصت ہو جاتے۔اگر احتساب بیورو اور عدالتِ عالیہ کو کھل کر انصاف کرنے دیا جائے تو ایسے ایسے شرفاء کے چہرے بے نقاب ہوں گے کہ عوام سراپا حیرت بن جائے گی۔
بقول غالب
جور سے باز آئے پر، باز آئیں کیا
کہتے ہیں ”ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ،گھبرائیں کیا
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاﺅ کہ ہم بتلائیں کیا

قارئین ماضی کی تمام باتیں اور ماضی کی تمام وارداتوں کا حساب لینے کا وقت آچکا ہے اور آزادکشمیر میں مئی یا جولائی 2011ءکے مہینے میں ہونے والے الیکشن جھوٹ سچ ، بے ایمانی دیانتداری اور غلط صحیح میں تفریق کرنے والے الیکشن ہوں گے۔یہ پہلا موقع ہے کہ ہٹیاں بالا سے لے کر نیلم تک، چکوٹھی سے لے کر مظفر آباد تک ، پونچھ سے لے کر باغ تک اور کوٹلی سے لے کر میرپور تک تمام اضلاع کے عوام بیدار ہو چکے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ آزادکشمیر کے تیس لاکھ کے قریب ووٹرز برادری ازم، علاقائی تقسیم ، عصبیت سے بے نیاز ہو کر مختلف سیاسی تنظیموں کے اُمیدواروں سے اُن کی دیانتداری ، سیاسی منشور ، ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی پلاننگ کے متعلق دریافت کر رہے ہیں اور سیاسی پیش گوئیاں کرنے والے ماہرین نے بڑے بڑے برج اُلٹنے اور ماضی کے بڑے بڑے ناموں کے قصہ پارینہ بننے تک کی پیش گوئی کر دی ہے اور ان بڑے بڑے ناموں میں ماضی کی سوادِ اعظم جماعت مسلم کانفرنس سب سے زیادہ متاثر ہونے والی سیاسی جماعت ہے۔مجاہدِ اول سردار عبد القیوم خان کی قیادت میں مسلم کانفرنس نے ماضی میں سب سے زیادہ حکومت کی ہے اور جوں ہی اس جماعت کی قیادت ولی عہد سردار عتیق احمد خان کے پاس آئی یہ جماعت جو دو تہائی اکثریت کے ساتھ 2006ءکے الیکشن میں برسرِ اقتدار آئی تھی اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اسلام گڑھ سے تعلق رکھنے والے مسلم کانفرنس کے سب سے سینئر رہنما سابق وزیر کیپٹن ریٹائرڈ سرفراز احمد کو یہاں تک کہنا پڑ گیا کہ سردار عتیق نے مالی منفعت اور لالچ میں آکر مسلم کانفرنس کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور یہاں تک باتیں منظرِ عام پر آئیں کہ کشمیر کونسل کے انتخابات کے موقع پر ٹکٹ کی تقسیم کا فیصلہ کرنے کے لیے جو پارلیمانی بورڈ بنایا گیا اُس کی سربراہی سردار عتیق احمد خان کے بیٹے عثمان عتیق کر رہے تھے اور یہ نوجوان رہنما سردار عبد القیوم خان کے بعد سب سے سینئر مسلم کانفرنسی رہنما کیپٹن سرفراز کا انٹر ویو کر رہے تھے۔اس خبر کا منظرِ عام پر آنا تھا کہ بزرگ مسلم کانفرنسی رہنما جو کئی دہائیوں سے اس جماعت کو اپنے خون پسینے سے پال پوس رہے تھے اُن سب کا حوصلہ اور ہمت جواب دے گئے اور مسلم کانفرنس کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی انقلابی آواز پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ مسلم کانفرنس سے ٹوٹ کر شامل ہو گئے۔آج ظاہری طور پر سردار عتیق احمد خان آزادکشمیر کے وزیر اعظم ہیں اور حکومت مسلم کانفرنس کی ہے لیکن اندرونِ خانہ اس تنظیم کو گھن کھا چکی ہے اور ظاہری ڈھانچہ باقی ہے اور 2011ءکے الیکشن میں سیاسی ماہرین نے پیش گوئی کر دی ہے کہ مسلم کانفرنس تین سے پانچ سیٹوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔اس وقت بھی موجودہ حکومتی وزراءمیں سے نصف سے زائد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے وعدے کر چکے ہیں اور الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی پرندوں کی پروازیں دیکھنے والی ہوں گی۔اس سب زوال کی وجہ بھی گزشتہ 63سالوں کے دوران مختلف ادوار میں مسلم کانفرنس کے رہنماﺅں اور وزراءکی جانب سے کی جانے والی مالی کرپشنز اور مختلف اداروں میں اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی کرنا ہے۔یہاں تک مشہور ہے کہ سڑکوں کے ٹھیکوں ، بلڈنگز کی تعمیر، منگلا ڈیم کی تعمیر اور اس کی اپ ریزنگ سے لے کر ہر ٹھیکے میں وزیر اعظم سے لے کر مختلف وزراء حصہ بقدر جثہ وصول کرتے رہے ہیں اور اسی زبان بندی کی قیمت کی وجہ سے متاثرینِ منگلا ڈیم 1960ء کی دہائی میں بھی لٹے اور اپ ریزنگ کے موقع پر اب 2011ءآچکا ہے جولائی میں ڈیم کو بھرنے کے اعلانات کئے جا چکے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد متاثرینِ منگلا ڈیم بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے اپنے ریوڑ کے چرواہے یعنی حکمرانوں کو دیکھ رہے ہیں۔

قارئین! سالارِ جمہوریت سردار سکندر حیات خان ، سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان، سابق سپیکر شاہ غلام قادر ، میرپور سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سابق وزیر ارشد محمود غازی، چوہدری سعید، چوہدری طارق فاروق، راجہ نوید اختر گوگا پر بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ الیکشن 2011ءپر اثر انداز ہونے والے سب سے بڑے سکینڈل”منگلا ڈیم اپ ریزنگ“ کے سلسلہ میں اپنے فرائض ادا کریں اور ایک لاکھ سے زائد متاثرینِ منگلا ڈیم کی اشق شوئی اور اُنہیں انصاف دلانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کشمیریوں سے دلی محبت رکھتے ہیں۔اگر پاکستان مسلم لیگ(ن) آزادکشمیر واقعی تختِ کشمیر پر براجمان ہونا چاہتی ہے تو اُنہیں چاہیے کہ اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں اور 1964ء کی دہائی میں اُس وقت کے آزادکشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے واپڈا اور وفاقی حکومت سے ”معاہدہ منگلا ڈیم“ کیا تھا۔ جس میں وعدے کیے گئے تھے کہ متاثرین ِ منگلا ڈیم مقیم میرپور کو بجلی مفت فراہم کی جائے گی، میرپور کو ریلوے نظام سے مربوط کیا جائے گا اور میرپور میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے جائیں گے۔ یہ معاہدہ آزادکشمیر میں تشریف لانے والے ایک سابق چیف سیکرٹری ایک سازش کے تحت یہاں سے اپنے ساتھ لے گئے اور اُس کے بعد آج تک نہ تو معاہدے کی کوئی کاپی آزادکشمیر حکومت کے پاس اور نہ ہی زبان بندی کی قیمتیں وصول کرنے والے ہمارے رکھوالوں نے اس پر کوئی بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب بھیڑیں جاگ چکی ہیں اور جواب مانگتی ہیں۔

قارئین آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
”ایک استاد نے اپنے ایک شاگرد سے پوچھا تمہیں مشہور لڑائیاں یاد ہیں۔ “
”شاگرد نے کہا جی اُستاد جی ساری لڑائیاں یاد ہیں“۔اُستاد نے کہا ۔ اچھا پھر سناﺅ۔
”شاگر د نے جواب دیا۔ مجھے امی جان نے سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ گھر کی بات باہر نہیں کہنی۔“

قارئین!آج تک کشمیری عوام گھر کی بات گھر میں ہی رکھنا چاہتے تھے لیکن اب لوٹ مار کا سلسلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ گھر کی بات باہر کرنے کا وقت آچکا ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339226 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More