صحافت برائے امن

انسانی معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت و ضرورت کی جب بات آتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی کا درج ذیل شعر دہرایا جاتا ہے۔
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

جو لوگ ترقی یافتہ ممالک کے عالم انسانی پر غلبہ و استحکام کی بات کرتے وقت ان کی دفاعی قوت اور بطور خاص ایٹمی قوت پر نظر رکھتے ہیں وہ شاید اس شعر کو اتنی اہمیت نہ دیں تاہم جو لوگ ان کی پروپیگنڈہ کی نفسیات اور ہتھکنڈوں سے واقت ہیں اور اُنہوں نے خاص اس موضوع پر لکھی گئیں بعض مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ضرور اس شعر کو پراز معنیٰ بتائیں گے۔اور جو اتنا جانتے ہیں وہ یقینی طور سے یہ بھی جانتے ہیں کہ گلوبل ولیج کے نام سے مشہور ہماری معاصر دنیا میں پروپیگنڈے کو فتح و شکست کی فیصلہ کن جنگ میں ایک اساسی اور بنیادی قوت کی اہمیت حاصل ہے اور جو اتنا جانتے ہیں وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ پروپیگنڈے کی سواری صرف اور صرف میڈیا ہے۔ پروپیگنڈے کے پلان اور منصوبوں میں جس چیز کے توسط سے رنگ آمیزی کی جاتی ہے وہ یہی ہے۔
جب ہم معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈال رہے ہوں گے تو ہمیں لامحالہ ہندوستان میں اردو صحافت کے حوالے سے جدوجہد آزادی میں اس کے کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اردو زبان و ادب کا اور بطور خاص ایک طرف مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان کے دشمن بریندر مودی کو بھارتی عوام نے اپنا نیا وزیراعظم منتخب کرلیا تو دوسری طرف افغانستان میں پاکستان مخالف عبداللہ کی حکومت بننے کے آثار واضع ہورہے ہیں اور ہم ہیں کہ تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں جو کسر رہ گئی تھی وہ غیر ذمہ دار آزاد میڈیا نے پوری کردی ۔بیرونی خطرات کے پیش نظر ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے مگر یہا ں تو ایک کے بعد ایک کو غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا جارہا ہے ۔سیاست کو دیکھیں تو الزامات ، پوائنٹ اسکورنگ اور پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں نظر آرہا ہے۔ حکومت ہے کہ تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ میڈیا چینلز نے ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی ہےاور خفیہ والے اس سب کو ہوا دے رہے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ سازی میں اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو اُکسایا جارہا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیں۔ آئین اور قانون کے تحت ایسا کچھ بھی میڈیا نشر یا شائع نہیں کرسکتا ۔مگر جب کوئی روک ٹوک نہ ہوگی تو قانون و آئین کے حدوں کے ساتھ ساتھ ہمارے مزہبی اور معاشرتی اقدار کو بھی تار تار کیا جارہا ہے۔ اب تو میڈیا کے اندر سے یہ آوازیں آنا شروع ہوگئیں ہیں کہ مادر پدر آزاد میڈیا اب پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لئے خود سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے ایک اہم عہدیدار سے رابطہ کیا تاکہ پوچھوں کہ ان حالات میں یہ تنظیم کیوں اپنا کردار ادا نہیں کررہی مگر اُن کے جواب سے تاثر ملا کہ وہ بھی کچھ کرسکنے کے بارے میں بہت پُر اُمید نہیں۔ بڑے بڑے صحافیوں سے بات کریں اُن کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے اس معاملے کو سلجھایا جائے۔ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اگر یہ معاملہ نہ رکا تو پاکستان میں صحافت کا مستقبل تاریک ہوگا۔پہلے میں اکیلا مادر پدرآزاد میڈیا سے منسلک خطرات کے خلاف آواز اُٹھاتا تھا اب ہر دوسرا صحافی یہ بات کررہا ہےکہ معاملات اب ایسے نہیں چل سکتے۔میڈیا کو حدود و قیود کے اندر رہنا ہوگا ورجہ جائز بات کرنے کا بھی حق چھن جائے گا۔کئ صحافی حدود و قیود کے تعین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جیسے آزادی رائے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہو،حکومتیں میڈیا سے ڈرتی ہیں اس لئے عموماً میڈیا سے ہی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے لئے حدود و قیود کا خود فیصلہ کرلیں مگر مجھے یقین ہے کہ میڈیا ایسا کبھی نہیں کرے گا۔یہ کام حکومت اور پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے جن کی ذمہ داری ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا خیال رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی ٹی وی چینل یا اخبار پاکستان کی اسلامی اور معاشرتی اقدار کے خلاف کوئی بات نشر یا شائع نہ کرے۔ حال ہی میں میں نے ایک ٹی وی شو میں جب یہ بات کی کہ ہمارے میڈیا کو اسلام کی مقرر کی گئی حدود کے اندر رہنا چاہیے مجھے کہا گیا کہ اگر اسلام کا نام لینگے تو پھر کیا معلوم ٹی وی بند کرنا پڑجائے۔میں نے جواب دیا کچھ بھی ہو بحیثیت مسلمان ہم اسلام کو اپنے سے جدا نہیں کرسکتے۔اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم اسلامی حدود کے اندر رہ کر بھی میڈیا کو زبردست انداز سے استعمال کرسکتے ہیں ۔اب ہمارا میڈیا جیسا بھی ہے اُسے سدھارنے کی ضرورت ہے۔میں گزشتہ کچھ سالوں سے میڈیا کے زریعے پھیلائے جانے والی فحاشی اور عریانیت اور عریانیت سے بڑھ کر اس حد تک آپہنچے گا۔ کوئی دو سال قبل ایک وقت ایسا آیا کہ جب تمام ٹی وی چینلز نے اپنے اینکرز کو مجھے اپنے شوز میں مدعو کرنے پر سختی سے منع کردیا کہ میں غیر قانونی انڈین چینلز اور فحاشی و عریانیت کے خلاف بول اور لکھ رہا تھا۔جس بات سے میں کل منع کررہا تھا ، جن خدشات کے بارے میں سب کو آگاہ کررہا تھا اور جس پر میرا مزاق اُڑایا جارہا تھا آج ایک شر کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ان تمام معاملات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے حکومت کو فوری مداخلت کرنی چاہیے تاکہ ایک طرف تو شر انگیزی کو روکا جا سکے اور دوسری طرف پاکستان کے اسلامی آئین اور قانون کے دائرے کے اندر میڈیا کو محدود کیا جا سکے

 

Shahzaib
About the Author: Shahzaib Read More Articles by Shahzaib: 4 Articles with 3942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.