ریاست مدینہ اور ہماری حکومت

اصغرلغاری
میرہزارخان تحصیل جتوئی ضلع مظفرگڑھ

ملک پاکستان میں سیاست دانوں نے عوام کو بے وقوف بنانے اور اپنے اقتدار کو پانے کےلیے کئی سلوگن اور نعرے قوم کو دیے جو صرف نعرے ہیں ان سے ملک اور قوم کو آجتک کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ قومی خزانے کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھرتے نظر آئے کسی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر ملک اور قوم کو لوٹا ۔کسی نے قرض اتارو ملک سنواروں کے نام پر عام کی جیبیں خالی کیں تو کوئی ڈیمیز کے نام پر چونا لگا گیا ۔ہر دور میں ہر نئے آنے والے مداری نے اپنے انداز میں ملک اور قوم کو دھوکے میں رکھا تو کسی نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر قوم کے جزبات کو مجروح کیا ۔اب آنے والی حکومت نے آتے ہی ایک نضی ٹرم ریاست مدینہ کے نام پر لوگوں کو بے وقف بنانا شروع کر دیا ہے ۔سب سے پہلے ہم ریاست مدینہ کی تھوڑی سی جھلک دیکھتے ہیں کہ ریاست مدیہ کیا تھی ۔اپنے پیارے آقا ومولا خاتم النبیین صلعم کے دور کو دیکھیں تو آپ صلعم صعوبتیں برداشت کر کے دعائیں دیتے نظر آتے ہیں ۔خدمت کا جزبہ یہ کہ کوڑا ڈالنے والی بوڑھی عورت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں ۔اور مدینہ چھوڑنے والی بڑھیا کا سامان اہنے سر مبارک پر رکھ کر جارہے ہوتے ہیں ۔مدینہ کی ریاست میں اپنے منہ سے نوالہ نکال لوگوں کے منہ دیا جاتا تھا ۔مدینہ کی ریاست میں پتھر کھا کر دعائیں دی جا رہی ہیں ۔مدینہ کی ریاست میں خلیفہ وقت چادروں کا حساب دینے کےلیے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے ۔ریاست مدینہ کا خلیفہ فرماتا ہے کہ اگر دریائے نیل کے کنارے پر کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں قیامت کے دن کیا جواب دوں گا ۔ریاست مدینہ میں بت پرستی کو نیست و نابود کرنے کی تعلیم دی گئی اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا محض زبانی یا تقریری نہیں عملی طور پر کافروں کے خلاف جہاد کیا گیا ۔ختم نبوت پر ریاست مدینہ کے خلیفہ وقت نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف اعلان جہاد کیا ۔ان کے ساتھ مراسم قائم نہیں کیے ۔انصاف اور عاجزی ایسی کہ مقررہ وظیفہ سے ہونے والی بچت کو وظیفہ سے کمی کی درخواست کر دیتے ہیں ۔اور اگر ہم اپنی حکومت کی طرف نظر دوڑائیں جو بات بات پر ریاست مدینہ کی رٹ لگاتے ہیں تو وہ اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کافروں کو مراعات اور مسلمانوں کے منہ سے نوالا چینتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ایک طرف ہمارے دشمن ہماری مساجد کی جگہ مندر بنا رہا ہے اور ہمارا حکمران چار سو مندروں کی آرائش اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیتا ہے جبکہ مسلمانوں پر ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ۔ ۔یہی نہیں آزادی کے وقت مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا دینے والا سکھ راجہ رنجیت سنگھ کو مسلمانوں کے قتل عام کے صلہ میں ان کا مجسمہ لاہور میں لگایا گیا ۔اور کرتار پور بارڈر کو سکھوں کےلیے کھول دیا گیا ان کے آنے اور جانے سے ملک کو کروڑوں روپے کی آمدن بند کر دی گئی ۔اور ختم نبوت کے منکرین قادیانی فتنہ کے سرکردہ لوگوں کو بھی اس دور میں اہم ذمہ داریاں دی جانے لگیں ۔اسی دور میں بابری مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ۔کشمیر کو اس کی اپنی مقبوضہ حیثیت ختم کر کے بھارت کا مسقل حصہ قرار دینا ۔اسی حکومت میں کرتار پور بارڈر پر مفت راہدری دینا۔اسی حکومت میں راجا رنجیت سنگھ کا مجسمہ پاکدستان کے دل لاہور میں نصب کرنا ۔اسی حکومت میں قادیانیوں کو مراعات دینا اور ان کو اعلی عہدوں پر فائز کرنا اور اوپر سے ریاست مدینہ کا نام استعمال کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔اور پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

Dr.Rukhsana Asad
About the Author: Dr.Rukhsana Asad Read More Articles by Dr.Rukhsana Asad: 6 Articles with 5571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.