مہاراشٹر :اقتدار کے بعد ووٹ بنک کو خطرہ

 آنجہانی گوپی ناتھ منڈے کی جینتی کے موقع پر جب پنکجا نے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل پیش کرنے کا اعلان کیا تو بی جے پی کے خیمہ میں ہڑکمپ مچ گیا ۔پنکجا کے بیان سے مختلف امکانات کا دروازہ کھلگیا۔ ان میں سب سے اول تواپنی نئی پارٹی بنا کر چلانا تھا لیکن ایسا کرنے کی ہمت خود گوپی ناتھ منڈے بھی نہیں کرسکے تھے اس لیے ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ کوشش ان کا سیاسی مستقبل کو تباہ کرسکتی تھی ۔ گوپی ناتھ منڈے کے بال ٹھاکرے سے قریبی تعلقات تھے اس لحاظ سے پنکجا اور ٹھاکرے ایک دوسرے کے واقف کارہیں۔ ایسے میں اگر وہ شیوسینا کے اندر ان کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔ این سی پی میں ان کے چچازاد بھائی دھننجئے منڈے ایک طاقتور رہنما ہیں ۔ اس لیے این سی پی بھی اس دراڑ کا فائدہ اٹھانے کی سعی کرسکتی ہے۔ گوپی ناتھ منڈے نے اپنی پارٹی سے ناراض ہوکر کانگریس کی جانب پیش قدمی کی تھی لیکن وہ بات درمیان میں رہ گئی۔ کانگریس کی حالت چونکہ خستہ ہے اس لیے اگر پنکجا اس میں جاتی ہیں تو انہیں دیگر جماعتوں سے زیادہ احترام اور اہم عہدہ مل سکتا ہے ۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کئی طریقے ہوتے ہیں ۔ ان میں سب سے آسان اپنے مخالفین کے اختلاف کا فائدہ اٹھانا۔ دیویندر فردنویس نے یہ کام کمال مہارت سے کیا اور اس میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس کی سب سے بڑی مثال وکھے پاٹل کا شکار ہے۔ وہ ایوان اسمبلی میں کانگریس پارٹی کے لیڈر تھے اور اپنے بیٹے کو پارلیمان کا رکن بنانا چاہتے تھے لیکن این سی پی نے اس سیٹ پر اپنا دعویٰ پیش کردیا تھا ۔ اس طرح دونوں حلیف جماعتوں کے درمیان جو اختلاف رونما ہوا اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے دیویندر فردنویس نے رادھا کرشن وکھے پاٹل کے بیٹے سوجئے پاٹل کو بی جے پی کاٹکٹ دے دیا۔ سوجئے کے خلاف بی جے پی رکن پارلیمان دلیپ گاندھی نے اپنے بیٹے سویندر گاندھی کو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتار دیا۔ سوجئے پاٹل انتخاب میں کامیاب تو ہوگئے لیکن اس حکمت عملی سے پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ گئی جس کا نتیجہ اسمبلی انتخاب میں نظر آیا۔

قومی انتخاب کے بعد دیویندر فردنویس چونکہ کامیابی کے نشے میں چور تھے اس لیے ان کواس کا ا حساس نہیں ہوا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر وکھے پاٹل کو وزارت کی لالچ دے کر انتخاب سے چار ماہ قبل اپنی پارٹی میں شامل کرکے کابینی وزیرِ رہائش بنا دیا ۔ اس طرح اپنے مخالف کو حرص و ہوس کا شکار کرکے زیرِ دام لانے کا حربہ بخوبی آزمایا گیا ۔ وکھے پاٹل کی غداری سے کانگریس کو جو جھٹکا لگا کہ وہ انتخاب کے نتائج تک اس سے ابھر نہیں سکی ۔ اب سرکار میں شامل ہونے کے بعد تھوڑا بہت حوصلہ بحال ہوا ہے۔ وکھے پاٹل کی جس وقت حلف برداری ہوئی پانچ سابق وزراء کی چھٹی کردی گئی جن میں مسلسل ۶ مرتبہ منتخب ہونے والا پرکاش مہتا جیسا سینئر وزیر بھی شامل تھا۔ اس طرح جہاں باہر والوں کی آمد سے پارٹی مضبوط ہورہی تھی وہیں اندر ہی اندر بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ سیاست میں دشمن کو کمزور کرنا جس قدر ضروری ہے اپنے آپ کو مضبوط کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کوئی خودپسند رہنما اگر دوسروں کو کمزور کرنے کے چکر میں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلاتا رہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جو فی الحال دیویندر فردنویس کا ہواہے۔

سیاست کے میدان میں تیسرا حربہ ڈرا دھمکا کر مخالفین کو رام کرنا ہے ۔ اس کے لیے اجیت پوار کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور جب نتائج اس کے خلاف نکلے تو انہیں گھر داماد بنالیا گیا اس طرح سارے کیے دھرے پر پانی پھر گیا ۔ایکناتھ کھڑسے نے بجا طور پر اجیت پوار کے ساتھ مل کر حکومت سازی کو نہ صرف اخلاقی شکست قرار دیا تھا بلکہ اسے برسوں کی محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ٹھہرایا تھا ۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ابھی حال میں جب ایکناتھ کھڑسے نے دہلی کا سفر کیا تو بی جے پی کے بڑے رہنماوں نے ان سے ملاقات کرنے کے لیے وقت نہیں دیا۔ اس کا جو نتیجہ ہونا تھا سو ہوا ۔ کھڑسے شرپوار کےپاس پہنچ گئے اور انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لے لیا ۔

کھڑسے اور پوار ملاقات کی وجہ تو غیر سیاسی بتائی گئی لیکن یہ اعتراف پھر بھی ہوا کہ پوار نے پوچھا مکتائی نگر جیسے حلقۂ انتخاب میں جہاں برسوں سے بی جے پی جیت رہی تھی ناکامی کیوں ہوئی ؟ ظاہر ہے اس کی وجہ اندرونی دغابازی بتائی گئی اور اس کے شواہد بھی پارٹی صدر کی خدمت میں پیش کیے جانے کا ذکر ہوا۔ شرد پوار نے انہیں وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے ملنے کا مشورہ دے کر بی جے پی کو مزید ذلیل کرنے کا سامان کیا ۔ دوسرے دن کھڑسے نے ادھو سے ملاقات کرنے کے بعد گوپی ناتھ منڈے کے تئیں ٹھاکرے کی عقیدت کو خوب سراہا۔ ایکناتھ کھڑسے نے پرلی کے اندر اپنی تقریر میں صاف کہا کہ ان پر بھروسہ نہ کیا جائے ۔ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ بتائی کہ پارٹی ان سے بلا واسطہ یہ کہہ رہی ہے کہ ’اب اور کتنی اہانت برداشت کروگے ناتھا بھاو(ایکناتھ کھڑسے ) اب نکل جاو‘۔ یہ پیغام ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ وہاں موجود پسماندہ طبقات کے لیے ہے کہ’’ اب ہمارے تمہارے لیے اس سیٹھ جی اور بھٹ جی کی پارٹی میں کو جگہ نہیں ہے۔ یہ احسان فراموش لوگ اب ہمیں رسوا کرکے بھگا رہے ہیں‘‘ ۔

کسی پارٹی کا رہنما توڑ لینا جتنا مشکل ہے اس سے زیادہ کٹھن حلیف کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لینا ہے کیونکہ اس طرح ایک آدھ مچھلی نہیں بلکہ پورا جھنڈ ہاتھ آجاتا ہے۔ یہ کام تو مہاراشٹر میں پہلے ہی ہوچکا لیکن اب بی جے پی کے پسماندہ ووٹ بنک پر سیندھ مارنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اس میں اگر حزب اختلاف کو کامیابی مل جاتی ہے تو بی جے پی کے ارکان کی تعداد پھر سے بیس کے آس پاس پہنچ جائیں گے کیونکہ سیٹھ جی اور بھٹ جی کی قومی سیاست میں یہی اوقات ہے ۔ گوپی ناتھ منڈے کی جینتی کے موقع پر پنکجا منڈے کو دعا دیتے ہوئے کھڑسے نے بڑے کرب کے ساتھ کہا کہ جو دن گوپی ناتھ منڈے کو دیکھنے پڑے اور جو وقت مجھ پر آیا ہے کاش پنکجا پر نہ آئے۔ کھڑسے کے اس درد کو وہاں موجود سارے لوگوں نے محسوس تو کرلیا ہے لیکن اس کی سیاسی قیمت کیا ہوگی ؟ یہ کوئی وقت بتائے گا ۔

بی جے پی کی حکومت سازی میں ناکامی سے حزب اقتدار سے زیادہ خوشی بی جے پی کے اندر موجود ناراض افراد کو ہوئی ہے۔ ایوان میں اعتماد کے ووٹ پر رائے شماری سے بی جے پی کے راہِ فرار کی وجہ اپنے ہی ناراض ارکان کی بغاوت کا خوف بتایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بیس سے زیادہ بتائی جاتی ہے جودیویندر کے خلاف ووٹ دے سکتے تھے ۔ اس رسوائی سے بچنے کے لیے ووٹنگ کرانے کے بجائے یہ لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ منڈے اور کھڑسے تعلق پسماندہ ذاتوں سے ہے ۔ عوامی سطح پر یہی طبقات بی جے پی کے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور اگر یہ دور ہوجائیں تو پارٹی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ فی الحال چند رہنما نہیں بلکہ مہارشٹر کے اندر ۵۲ فیصد کی آبادی والا سماج بی جے پی کے چنگل سے آزاد ہونے جارہا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222267 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.