سردی کا شہنشاہ چلہ کلاں دستک دے کر تشریف لے آیا ہے۔اس
بار چلہ نے آنے سے قبل ہی یہاں کے عوام کو سردی سے نڈھال کر دیا۔ چلہ کلاں
کی مقبوضہ وادی کشمیر سے صدیوں سے انفرادیت رہی ہے۔ اس موسم میں خوب
برفباری ہوتی ہے۔ برف جم جاتی ہے۔ شبنم کو بھی کورا لگ جاتا ہے۔ نل جم جاتے
ہیں۔ چھتوں اور آبشاروں کا پانی جم کر معلق ہو جاتا ہے۔ کشمیری میں اس کو’’
ششر گانٹھ‘‘ کہتے ہیں۔ چلہ انگریزی لفظ chillکا ہم ردیف و قافیہ ہو سکتا ہے۔
جس کے معنی شدید ٹھنڈ اور سردی کے ہیں۔چلہ کلاں دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔
دونوں فارسی کے جملے ہیں۔اس مناسبت سے ان کا فارس یا ایران سے ایک خاص تعلق
ہو سکتا ہے۔ اس لئے بھی کہ کشمیر کو ایران صغیر کہا جاتا ہے۔کشمیری میں
صدیوں سے شدید سردی کے موسم کو چلہ کلاں کہا جا تا ہے۔ جس کے لغوی معنی''
40بڑے ''ہے۔یعنی شدت کی سردی کے چالیس ایام۔ایسی ٹھنڈ جو خون کو بھی جما
دے۔ہڈیوں کو گلا دے۔ کشمیر میں شاید'' کانگڑی'' اور'' فیرن'' اسی وجہ سے
ایجاد ہوئے تا کہ شدت کی سردی کا مقابلہکیا جا سکے۔کشمیری ثقافت و تہذیب کا
اہم حصہ فیرن ہے، جسے آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر ، لاک ڈاؤن،
پابندیوں، تقسیم کشمیر کے ساتھ سرکاری سطح پر پابندی کا سامنا ہے۔جس کے
خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔جیسے کہ بھارت میں عوام کالے قانون شہریت بل کے
خلاف سڑکوں پر ہیں۔ جیسے بھارت جل رہا ہے۔ بھارت میں جیسے ایک اور پاکستان
قائم ہو رہا ہے۔ چلہ کلاں میں منفی ڈگری درجہ حرارت میں پانی کے نلکے جم کر
پھٹ بھی جاتے ہیں۔معروف جھیل ڈل اور نگین، ولر جھیل سمیت تمام جھیلیں جم
جاتی ہیں۔ یوں تو چلہ پرانے زمانے میں اولیائے کرام کی جانب سے دنیا و ما
فیھا سے بے خبر اور دور کسی صاف و پاک جگہ، پہاڑ ، بیاباں یا جنگل میں اﷲ
کو یاد کرنے کی مناسبت سے جانا جاتا رہا ہے۔ چلہ یعنی چالیس دن اﷲ تعالیٰ
کی عبادت۔ رہبانیت اگر چہ اسلام میں منع ہے،یعنی انسان کو دنیا ترک کرنے
اور جنگل اور بیابانوں کی راہ لینے کی ہر گز اجازت نہیں۔ ہمیں حقوق اﷲ
اورحقوق العباد دونوں کی ہدایت ہے۔ اﷲ اور اس کے بندوں کے حقوق لازمی ہی
نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں۔بلکہ اﷲ کے بندوں کے حقوق پر بہت زیادہ توجہ دی
گئی ہے اور تاکید ہے۔یہ بھی کہانیوں میں درج ہے کہ چلہ کے دوران لوگ غائب
بھی ہو جاتے تھے۔ کچھ لوگ جنات، بھوت پریت پر غلبہ پانے کے لئے بھی چلے
کاٹتے تھے۔ لیکن زیادہ تر چلوں کا تعلق عبادت سے جوڑا گیا ہے۔ آج کے دور
میں دین کی تبلیغ پر جانے والے چالیس ایام تبلیغ کے لئے لگائیں تو وہ اسے
بھی چلہ قرار دیتے ہیں۔ زیر بحث چلہ کلاں، موسم سرما سے تعلق رکھتا ہے۔ اس
کا کشمیر کی ثقافت اور تہذیب سے گہرا تعلق ہے۔ شدید سردی کے 40دن۔ یہ دن
22دسمبر یا 9پوہ سے شروع ہوتے ہیں۔ کڑاکے کی سردی۔ پھر چلہ خورد ہے۔ پھر
چلہ بچہ۔ چلہ کا فارسی میں مطلب چالیس ہے۔ یوں چلہ خورد کا مطلب کم سردی کے
چالیس دن ہو سکتا ہے۔تا ہم چلہ خورد چلہ کلاں کے بعد 20دن کو کہتے ہیں۔ چلہ
خوردکے بعد کے 10 ایام کوچلہ بچہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح22دسمبر سے 31جنوری تک
چلہ کلاں، یکم فروری سے 20فروری تک چلہ خورد(چھوٹے)، 21فروری سے یکم مارچ
تک چلہ بچہ ہوتا ہے۔
کوئٹہ بلوچستان میں بھی سردیوں کے چلے اسی حساب سے گنے جاتے ہیں۔ ناموں میں
کچھ فرق ہے۔ ''چلہ کلاں '' ایک بار پھر آ گیا ہے۔جسے آج کشمیری خوش آمدید
کہنے میں بھی ریاستی دہشتگردی کے شکار ہیں۔دھند یا کہر، چلہ کلاں نہیں۔بلکہ
ان کا بھی اسی موسم میں راج رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے شمالی بر صغیر، پنجا ب
اور سرحدمیں نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ جی ٹی روڈ اور موٹر ویز پر
گاڑیاں چلانا مشکل ہو جاتاہے۔ جہازوں اور ٹرینوں کے شیڈولز میں خلل پڑتا ہے۔
ایران اور کشمیر میں چلہ کلاں ایک اہم جشن کا نام بھی ہے۔ جشن بہاراں کی
طرح شدید سردی کی آمد کا جشن۔ چلہ کلاں گو کہ کشمیر میں زبان زد عام ہے،
راولپنڈی اور اسلام آباد، لاہور، دہلی تک اس کا چرچاپہنچتا ہے۔دھند اس کی
مشترکہ روایت ہے۔ یہ شہرت اس لئے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے آپریشن
کے تحت قتل عامتیز کیا ہے۔ چار ماہ سے بھی زیادہ عرصہ سے کشمیریوں کو
مواصلاتی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان پر پیلٹ، پاواکی فائرنگ کی جاتی ہے۔
زہریلی گیسوں کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ ہزاروں افراداس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
سینکڑوں کو بینائی سے محروم کیا گیا ہے۔ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔پیلٹ
فائرنگ کے شکار سیکڑوں طلبا ء و طالبات امتحانات نہ دے سکے۔ بھارت نے ان کا
مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کشمیر میں نظر نہیں آتی۔ یہ خطہ
ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔مگر بھارت اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لئے
کشمیریوں کا گرم خون بہا رہا ہے۔ کشمیر کے لداخ ریجن میں دراس ایسا علاقہ
ہے جس کا درجہ حرارت منفی 40ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران اس
علاقہ میں چلہ کلاں کاخوب احساس ہوا۔گلگت بلتستان کی دوسری طرف بھارت کے
قبضہ میں یہ علاقہ سائیبیریا کے بعد دوسرا سرد ترین علاقہ ہے۔جسے بھارت نے
اب اپنی کالونی بنا دیا ہے۔ سائیبیریا میں جب شدید سردی ہوتی ہے تو وہاں کے
پرندے فرار ہو کر وادی کشمیر اور پنجاب کے میدانوں میں بھی آ جاتے ہیں۔
وادی میں ''ہوکر سر''، جھیل ڈل، جھیل ولراور دیگر جھیلیں ان مہمان پرندوں
کی چہک سے گونج اٹھتی ہیں۔ان جھیلوں پر بھارتی بحریہ کا قبضہ ہو گیا ہے۔
راولپنڈی اسلام آباد میں بھی ان مہمان پرندوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ان
پرندوں کے ساتھ دلفریب داستانیں وابستہ ہیں۔ لیکن انہیں جاسوس پرندے یا
سراغ رساں کبوتر نہ سمجھا جائے۔سائیبیریا اور کشمیر کا تعلق قدیم لگتا
ہے۔اب روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور معاہدے بھی ہو رہے
ہیں۔ یہ مثبت پیش رفت ہے۔کبھی کڑاکے کی اس سردی کو کشمیری خوب انجوائے کیا
کرتے تھے۔ برفباری۔ ہاتھ میں کانگڑی(دہکتے کوئلوں سے بھری مخصوص انگیٹھی،
جس کا بھارتی فورسز کے خلاف کوئلہ بم کے طور پر استعمال ہوا)۔ فرن(چوغہ)
زیب تن۔ سماوار(کشمیری تھرماس جس میں کوئلے دہکتے ہیں) کی چائے۔ سردیوں میں
وادی میں تعلیمی اداروں کو اڑھائی ماہ کی تعطیل ہوتی ہے۔ یہاں کبھی چلہ
کلاں کے جشن کا اہتمام ہوتا تھا۔ ایران میں آج بھی جشن بہاراں کی طرح چلہ
کلاں منایا جاتا ہے۔ ایران میں چلہ کلاں کے جشن کے دوران تعطیلات ہوتی ہیں۔
ایرانی جشن مناتے ہیں۔ایرانی کبھی گیس پائپ لائن دہلی سے آگے کشمیر پہنچا
دینے کا بھی سوچ رہے تھے یا کشمیر کو راولپنڈی سے ہی کوئی کنکشن پہنچانے پر
غور ہو سکتا تھا۔ شاہ ہمدان کا کشمیر۔ لیکن امریکہ سے ایٹمی معاہدے کے بعد
ایران نے پاکستان کے ساتھ تعلق پر از سر نو غور کیا۔ امریکہ نے ایران اور
بھارت کو پاکستان کا نعم البدل بنانے کی مہم جوئی شروع کی ۔ بھارت اسی تعلق
کی وجہ سے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چابہار بندرگاہ بھارت
اور دیگر پاکستان دشمنوں کی منزل ہے۔گوادر کے مقابلے اسے کھڑا کیا گیا
ہے۔کشمیر میں چلہ کے ڈر سے'' دربار مو'' بھی کافی معروف ہے۔حکمرانوں کے
دربار اور درباری سرینگر میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی اپنے دفاتر سمیت جموں
فرار ہو جاتے ہیں۔ دہائیوں بعد بھی یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ آج سول سکریٹریٹ
سے وابستہ دفاتر سرینگر سے 300کلو میٹر دور جموں میں ہیں۔ گرمیوں کے 6ماہ
سرینگر میں اور سرما کے 6ماہ جموں میں۔ راجوں مہاراجوں کا مزاج اور روایات
آج بھی کشمیر پر مسلط ہے۔ مگر موسم کی انگڑائی کے بعداب چلہ کلاں نے جموں
کا بھی رخ کر لیا ہے۔ جموں ، سیالکوٹ کا کبھی جڑواں شہر تھا۔ اب چلہ کلاں
نے دربار مو کا جواز بھی ختم کر دیا ہے۔ عوام کو چلہ کلاں کے رحم و کرم پر
چھوڑ کر راہ فرار کا کوئی جواز نہیں۔ چلہ اب جموں ہی نہیں بلکہ دہلی، لاہور
تک پہنچ رہا ہے۔ پنجاببھی اس کی زد میں ہے۔انسان نے قدرت کے نظام میں خلل
ڈال کر شرارت کی ہے۔موسم بدل رہے ہیں، تو ان کے بارے میں آراء بھیتبدیل ہو
رہی ہیں۔کیا پتہ،حضرت انسان اپنی حالتکب بدلے گا۔انسان کب تلک کبھی آمریت،
کبھی سیاسی اور کبھی جوڈیشل مارشل لاء کا شکار ہوتے رہیں گے۔ |