ملائشیاء کانفرنس اورامت مسلمہ کااتحاد۔؟

ملائشیاء کانفرنس جو مبینہ طورپرامت مسلمہ کے اتحادکے لیے بلائی گئی تھی اسی کانفرنس کے دوران ترکی کے صدرطیب اردوان کاایک ایسابیان منظرعام پرآیاکہ جسے عالم اسلام کے دوبڑے ممالک پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان اختلافات اورغلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش سے ہی تعبیر کیاجاسکتاہے ،ایک طرف طیب اردوان کویہ زعم ہے کہ وہ عالم اسلام کے قائدہیں دوسری طرف ان کی طرف سے اس طرح کا بیان کسی سفارتی حماقت سے کم نہیں ۔اس بیٹھک سے قبل ہی یہ خبریں آناشروع ہوگئی تھیں کہ اوآئی سی کا متبادل فورم بنایاجارہاہے اب یہ با ت واضح ہورہی ہے کہ واقعی یہ اجلاس امت مسلمہ کومزیدتقسیم کرنے کی سازش تھی ،کانفرنس شروع ہونے سے قبل سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اور مملکت کے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ ایسے ایشوز پر صرف او آئی سی کے پلیٹ فارم ہی سے بات چیت کی جانا چاہیے کیونکہ او آئی سی نے اکثر مسلم ممالک کے اجتماعی مسائل و امور پر اجتماعی آواز کے طور کام کیا ہے۔

سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ میں اپنے عدم شرکت کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیا کے ایک ارب 75 کروڑ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے ایک غلط فورم ہے۔متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے سعودی عرب کے مؤقف کی تائیدکرتے ہوئے کہا کہ ملائشیا سمٹ مسلم دنیا کو درپیش مسائل پر غور کے لیے ایک غلط فورم تھا۔ کیا یہ اسلامی دنیا کے لیے ممکن ہے کہ وہ عربوں کی عدم موجودگی میں بلند ہوسکیں؟ اس کا واضح جواب ہے: نہیں، کیونکہ تقسیم ،علیحدگی اور تعصبات کبھی حل ثابت ہوئے ہیں اور نہ ثابت ہوں گے۔

پاکستان کے ترجمان دفترخارجہ نے اس حوالے سے کہا کہ اہم مسلم ممالک کے امہ میں تقسیم سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے ابھی مزید وقت اور کوششوں کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے پاکستان نے کوالالمپور میں منعقدہ چار روزہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستان امہ کے اتحاد اور یک جہتی کے لیے کام کرتا رہے گا اور یہ مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے 'او آئی سی' کے سیکرٹری جنرل یوسف العثیمین نے کہا کہ تنظیم کے فورم سے باہر اس کے متوازی کوئی بھی تنظیم یا فورم قائم کرنے سے مسلم امہ اور عالم اسلام کم زور ہوگا۔ کوالالمپور میں اسلامک فورم کا انعقاد اس میں شرکت عالم اسلام کے قافلے سے باہر نکل کرشور وغوغا کے مترادف ہے۔او آئی سی کی ساخت اور تشکیل شاہ فیصل شہید کی مرہون منت ہے21 اگست 1969 کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔.، آج او آئی سی میں 57 ممبر ممالک شامل ہیں، جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں ہے۔

یہ کہانی تب شروع ہوئی جب ہمارے وزیراعظم عمران خا ن ستمبرمیں سعودی ولی عہدکے خصوصی طیارے میں سفرکرکے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے ،وہاں ایک تقریرکے ذریعے مسلم ممالک ،کشمیری عوام اوراہل پاکستان کوجھانسہ دیاکہ وہ عالم اسلام کے نئے لیڈرہیں اسی جھانسے میں مہاتیراوراردوان بھی آئے ،وہاں ہی فیصلہ ہواکہ امت مسلمہ کودرپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یہ تینوں ممالک ایک ایسا مشترکہ ٹی وی چینل شروع کریں جو پوری دنیا تک ناصرف واضح موقف پہنچائے، بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے منفی پراپیگنڈے کو بھرپور جواب بھی دیا جاسکے۔یوں دیگراسلامی ممالک اورمشترکہ فورمزکواعتمادمیں لیے بغیر جلدبازی میں کوالالمپوراجلاس طے کرلیا گیا ۔

کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کے لیے ملائشیا نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تمام 57 ممالک کو دعوت نامے جاری کیے ، لیکن ان میں سے صرف بیس کے لگ بھگ ممالک نے اپنے مندوبین شرکت کے لیے بھیجے ، جبکہ پاکستان ،سعودی عرب ، مصر ، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا نے شرکت نہیں کی ،یوں عمران خان وہ تاریخی یوٹرن لیا کہ اسلامی ممالک بھی اس پرحیران رہے گئے ،اس حماقت(لوگ اسے سفارتی بلنڈرزسے بھی تعبیرکرتے ہیں ) کے بعد اگلی حماقت یہ کی کہ ترکی کے صدرکے کان میں ایسی سرگوشیاں کیں کہ اردوان نے بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑدیا۔

ترک صدراردوان نے کہاکہ پاکستان نے سعودی عرب کے دباؤ(دھمکی )پرملائشیاء کانفرنس میں شرکت نہیں کی اسلام آبادمیں قائم سعودی عرب کے سفارت خانہ نے ترکی کے صدر کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو۔ اس لیے کہ یہ گہرے تذویراتی تعلقات ہیں جواعتماد، افہام وتفہیم اورباہمی احترام پرقائم ہیں۔سعودی سفارت خانہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بیشترعلاقائی، عالمی اوربطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تاکہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔
پاکستان اورسعودی عرب کے تعلقات کسی دھمکی ،دباؤیامفادات کے تحت نہیں ہیں دونوں ممالک کے متعلق یہ کہاجاتاہے کہ یہ یک جان دوقالب ہیں دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی مددکی ہے ،جس طرح ایک بھائی دوسرے کی مددکرتاہے، گزشتہ سال جب پی ٹی آئی کی حکومت برسراقتدارآئی توملک کی خراب معاشی صورتحال کودیکھتے ہوئے سعودی عرب آگے بڑھا سعودی عرب نے ایک سال میں 3 ارب ڈالر نقد اور اگلے 3 سال کیلئے 9.6 ارب ڈالر کا ادھار یعنی مفت تیل دیا۔ سعودی عرب نے ایف اے ٹی ایف سے نکلنے میں ہماری مدد کی۔ امریکہ سے معاملات کی بہتری اور کشیدگی کے خاتمہ کیلئے براہ راست رابطے کروائے، آئی ایم ایف سے معاہدہ اور پیسوں کیلئے امریکہ کو قائل کیا۔ متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالر نقد دیئے۔ مستقبل کے کاروباری اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کے معاہدے کئے۔ صرف سعودی عرب اور امارات نے دو آئل ریفائنریوں کے منصوبوں کے لئے 16 ارب ڈالر کے معاہدے کیئے جن کے سبب دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور طویل عرصہ بعد ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کا عمل شروع ہوا۔

جہاں تک اس کاتعلق ہے کہ او آئی سی کے غیر فعال اور غیر موثر ہونے پر کسی نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے تو اس کے لیے بھی یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے ،جہاں تک ترکی کاتعلق ہے تو مرد بیمار تو اس وقت امت کی تقسیم کے ایجنڈہ پر ہے اسے تو اپنا کھویا ہوا ماضی اور اس کی شان وشوکت بحال کرنے سے دلچسپی ہے اور اس کام کے لئے دوبارہ انہی حدوں کے اندر خلافت عثمانیہ کا احیا چاہتا ہے، جہاں 1924 میں وہ ڈوبا تھا چاہے اس کے لئے اسے دوبارہ حرمین کے کنٹرول کا مطالبہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ کیا سو سال سے حرمین کی حفاظت اور خدمت کرنے والے آل سعود کواپنے زیر دست لانے کی خواہش میں پاکستان کو حصہ بننا چاہئے؟ایران ،قطراورملائشیاء کی امت مسلمہ کے لیے کیاخدمات ہیں؟وہ عالم اسلام کی قیادت کرنے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں ؟یاوہ بھی کسی کی ایماء پرامت کومزیدتقسیم کرناچاہتے ہیں ؟
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 95804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.