جنگِ آزادی پارٹ 2

ہندوستان میں 1803 سے1857 تک جنگ آزادی کیلئے راہیں ہموارکی گئی،1803 میں مسلمانوںکی جانب سے انگریزوںکے خلاف جنگ لڑنے کیلئے جہاد کا فتویٰ جاری کیاگیااوراس کے بعد ہندوستان کے بیشتر مسلمانوںنے اپنے آپ کواس جہادکیلئے پیش کیا اور انگریزوںکے خلاف اپنے جان ومال کی قربانی دینی شروع کی۔جن مسلمانوںنے اس جنگ آزادی میں شرکت کی تھی وہ نہ تو اقتدارکے بھوکے تھے نہ ہی عہدوںکی انہیں خواہش تھی،اگر وہ چاہتے تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے بڑے پیمانے پر فائد ے حاصل کرسکتے تھے،لیکن ان مجاہدین نے آزادی کو دوسری سہولیات پر ترجیح دی،جن کی قربانیوںکے نتیجے میں ہندوستان آزاد ہوا۔جب1803سے ہی مسلمانوںنے اس جنگ آزادی کی قیادت سنبھالی تو اس وقت انگریزوںنے اس لڑائی کو ملک اور برٹش کے درمیان کی سوچ سے ہٹا کر مسلم اور انگریز کی لڑائی کی شکل دینے کی کوشش کی جسے دیکھتے ہوئے مسلم علماء نے فوراً غیر مسلموں کو جنگ آزادی کی کمان سونپ دی جس کے نتیجے میں کانگریس پیدا ہوئی۔اس جنگ آزادی کے دوران انگریزوںکی فوج میں ہندوستانی بھی تھے،انگریزوںکی پولیس میں ہندوستانی تھے،انگریزوںکے دفاترمیں ہندوستانی تھے،انگریزوںکے گھروں کے نوکر بھی ہندوستانی تھے،انگریزافسروں کو خواتین کی سپلائی کرنے والے ہندوستانی تھے،مجرے کرنے والے اور کروانے والے ہندوستانی تھے،جسم فروشی کیلئے انگریزوں تک لڑکیاں پہنچانے والے ہندوستانی ہی تھے،وہی دور آج پلٹ آیا ہے۔آج ایک طرف سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہندوستان کے70 فیصد شہری ایک طرف ہوچکے ہیں تو30 فیصد ہندوستانی فسطائی حکومت کی تاویل کرتے ہوئے انگریزوںکے دورکے ہندوستانیوںکی خدمات کو دوہرا ررہے ہیں۔ایسے میں ہم ہندوستانیوں کو چاہیےکہ جس طرح سے انگریزوںکے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کمربستہ ہوئے تھے،جس طرح سے برٹش راج کو ختم کرنے کیلئے قربانیاں دے رہے تھے اسی طرح سے آج بی جے پی حکومت کی کالی کرتوں کوہٹانے اور پولیس راج کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے کمربستہ ہونےکی ضرورت ہے۔بھلے ہی سی اے اے( سٹیزن ایمنڈمینٹ ایکٹ،شہریت ترمیمی قانون)سے ہم ہندوستانی مسلمانوںکیلئے فی الحال کوئی نقصان نہیں ہےلیکن یہ نقصان آنے والے دنوںمیں این آرسی کو نافذ کرنے کے بعد ضرور ہوگا۔جس طرح سے سپولابچپن میں کاٹنےپر بھی زہر نہیں لگتااور جب وہ سانپ بن جاتا ہے تواس کے کاٹنے سے انسان مرجاتا ہے،بالکل اسی طرح سے سی اے اے ابھی سپولاہے اور جب وہ این آر سی کی شکل میں سانپ بن جائیگاتویقیناً اس کے ڈھسنے سے ہم مرجائینگے اور آخرمیں این آرپی کے تحت ہمیں اس سرزمین سے مٹادیاجائیگا۔آج یڈی یورپا سے لیکر مودی تک کی یقین دہانیاں،شاہی امام سے لیکر سجادہ نشین تک ہی تعریفیں،محمود مدنی سے لیکردیوبند کے مہتمم تک کی خاموشی بھلے ہی ہندوستانی مسلمانوںکیلئے سننے اور پڑھنے میںبات اچھی لگتی ہے لیکن یہ باتیں آنے والے دنوںمیںکس قدر خطرناک ہوسکتی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔آج جو سڑک پر اترکر احتجاج کررہا ہے وہی ہمارا قائدہے او رجو سڑک کنارے کھڑا ہوا ہے وہ بزدل ہے،آج سڑکوں پر اتر کر حق مانگنے کی ضرورت ہے،اگر احتجاج کرنا شریعت میں غلط تھا تو نبی کریمﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پراہل اسلام احتجاج نہ کرتے اور مکہ میں داخل ہونے کا مطالبہ نہ کرتے۔آج کچھ لوگ شریعت کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کررہے ہیں،ان ضرورت مندوں کو ایک طرف کریںا ور اپنی راہ خود بنائیں۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.