درست کہا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفورنے کہ
ہم آج ہائبرڈ وار کا سامنا کر رہے ہیں۔واحد ایٹمی اسلامی طاقت بہت سارے
ممالک کو کھٹکتی ہے۔ اپنے مخصوص جغرافیائی اہمیت کے حساب سے بھی پاکستان
بہت سارے ملکوں کو قبول نہیں ہے۔ حالیہ خلیجی بحران سے یہ اندازہ ہوا کہ اب
جنگوں کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔ جنگیں اب ہتھیاروں اورجنگی جہازوں کے بجائے
منصوبہ بندی سے لڑی جاتی ہیں۔کسی بھی ملک کو کھوکھلا کرنے کے لیے اس کے
اداروں میں تصادم، معاشی حیثیت کو تباہ اور عسکری اداروں کا اعتماد ختم کر
دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے مجھے یوں دیکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے وہ تمام
دشمن جو14 اگست 1947 ء سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ دیس چند ماہ بھی برقرار
نہیں رہ سکے گا، اپنی خفت اور ناکامی کو گمراہ کن سازشوں کا چولا پہنا کر
پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔
سابق صدراور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر
بھیجنا اور بعد ازاں طویل اقتدار کے بعدایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کر دینے
کو یقیناکوئی درست اقدام نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ ہی آمریت کی کوئی
توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے لیکن فیصلے وقت کے مطابق ہوتے ہیں جنہیں اخلاق کے
نہیں بلکہ حالات کے ترازو میں تولنا چاہیے۔میں شاید جمہوریت کا سب سے بڑا
علمبردار ہوں لیکن جو جمہوریت میں نے کتابوں میں پڑھی ہے وہ کم ازکم
پاکستان میں مجھے کہیں دیکھائی نہیں دیتی۔تمام کی تمام سیاسی جماعتیں شخصی
آمریت کے گرد گھومتی ہیں اور ایوان زیریں اور بالا تک پہنچنے والے لوگ کبھی
بھی حقیقی سیاسی کار کن نہیں ہو تے۔بلکہ ایک مخصوص شخص کی جی حضوری کر کے
کچھ مفا د پرست عناصران عہدوں تک پہنچتے ہیں یہ کبھی بھی قانون ساز نہیں
ہوتے بلکہ کٹھ پتلیاں ہوتے ہیں جو کسی مخصوص اشارے پراپنا ناچ دیکھاتی ہیں
اور داد سمیٹتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آمریت کے ادوارجمہوری
ادوار کی نسبت عوام کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوئے ہیں۔ ایک آمر سے لوگ نفر
ت کر سکتے ہیں، اس سے محبت کا رشتہ یقینا عوام کا نہیں ہو سکتا۔لیکن پھر
جزل رپرویز مشرف کو ایک خصوصی عدالت سے پھانسی کی سزا کے فیصلے کے بعدملک
بھر میں ہر شہر کی سطح پر جس طرح لوگ دیوانہ وارانکی کی حمایت میں نکلے ہیں
وہ ایک حیران کر دینے والا منظر ہے اور یہ جذبات یقینا کسی آمر کے لیے نہیں
بلکہ عام آدمی کی زندگی بدلنے والے اور اس کی آزووں کو تکمیل کا روپ دینے
والے ایک ہیرو کے لیے ہیں۔
19 دسمبر کو آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے تفصیلی
فیصلے کے پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے قانون
نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں
اور پانچ دفعہ پھانسی دیں اور اگر پھانسی سے پہلے ان کی موت واقع ہو جائے
تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے ، تین دن لٹکایا جائے ۔ یہ
الفاظ کسی جلاد کے تو ہو سکتے ہیں منصف کے نہیں۔ انصاف کا بنیادی تقاضا یہ
ہے کہ انصاف کرنے والارحم دل ہو۔او ر وہ اسباب وعوامل کو مدنظر رکھ کے مثبت
دل و دماغ کے ساتھ فیصلہ رقم کرے۔عدالتیں معاشروں میں انارکی اور بے چینی
ختم کرنے کے لیے لگائی جاتی ہیں اور ان کے فیصلوں کا بنیادی مقصد معاشرے
میں امن و امان کاقیام ہوتا ہے۔ایسے فیصلوں کو عدالتی تاریخ میں کبھی بھی
اچھے فیصلے نہیں مانا جاتا جن سے امن و امان میں خلل پیدا ہو اور معاشرے
میں بے چینی کے خاتمے کے بجائے ایک بحران کھڑا ہو جائے۔سابق وزیر اعظم
ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ایک سابق وزیرا عظم کی سزاء تک اور اب پرویز
مشرف کی پھانسی کی سزاء کے تفصیلی فیصلے کے بعدمجھے ان دانشوروں کی رائے
درست معلوم ہو تی ہے جو کہتے ہیں کہ ججزبغض اور عناد سے بھرے دماغ کے ساتھ
زمینی حقیقتوں کو فراموش کرکے آئین کی حد بندیوں کو توڑکرمن پسند فیصلے رقم
کر رہے ہیں۔
ہمیں از سر نویہ جائزہ لینا ہو گا کہ اداروں کو تصادم کی طرف دکھیلنے والے
عناصرکے پس پشت کون ہیں؟ یہ ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں اور ایک ایسے
وقت میں کہ جب ہمارے دشمن پڑوسی ملک نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم
کرتے ہوئے اس پر غاصبانہ قبضہ جما لیا ہے اور پورے ہندستان میں مسلمانوں کی
زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ سرحدوں پر تناؤ برداشت کی آخری حدیں پار کر چکا
ہے۔ ایک سابق فوجی سربراہ کو پھانسی دینے کاحکم ایسا نہیں ہے کہ جس کو ایک
روزمرہ کا فیصلہ سمجھ کے نظر انداز کر دیا جائے۔حکومت اور دیگر تمام اداروں
کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گااور تمام اداروں سے میر جفر کے وارثوں کو چن چن
کر نکالنا ہو گا کیونکہ اس نازک ترین صورتحال میں پاکستان ایسی اندرونی
شرانگیزیوں کا ہرگز ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان اندرورنی اور بیرونی کئی سنگین بحرانوں کا شکار ہے
|