اس وقت ہندوستان کی70 فیصد عوام ملک میں جاری کئے گئے سی
اے اے قانون کے خلاف آواز بلند کررہی ہے اور30 فیصد عوام حکومت کی تائید
میں اتری ہوئی ہے اور ان کا کہناہے کہ اس قانون سے ہندوستانی مسلمانوں
کوکوئی اثرنہیں ہوگا،مزید ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جولوگ حکومت کی مخالفت
کررہے وہ اس ملک میں رہنے کے قابل نہیں۔ان کی یہ تجویز بالکل برٹش دورکے
ہندوستانی بادشاہوںکی طرح ہی ہے۔آج ہندوستان میں جنگ آزادی کا دوسرا دور
جاری ہے اور اس دورمیں ہندوستانی عوام انگریزوںکے ساتھ وفاداری کرنے والی
سنگھ پریوارکے خلاف کھڑی ہوئی ہے۔اس دفعہ کی جنگ بھی آرپار کی جنگ
ہے،کیونکہ فرقہ پرست حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستان کی عوام اُن کے تابع میں
رہے۔ہندوستان راشٹر بنانے کا جو خواب سجا رکھا ہے،اُس خواب کو
پوراکیاجائے۔لیکن ہندوستان کی حکمت اور عدل پسند عوام حکومت کی شدید مخالفت
کیلئے اتر آئی ہے۔مگر بعض مقامات پر حکومت کے خلاف احتجاجات کرنے کیلئے
بہانے بنائے جارہے ہیں،صرف مسلمان ہی نہیںبلکہ ہندوئوںکی جانب سے بھی اس
طرح کی پیش رفت ہوئی ہے،کئی لوگ کہہ رہے ہیںکہ پولیس کی جانب سے احتجاج
کیلئے اجازت نہیں مل رہی ہے۔یقیناً پولیس کبھی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے
کیلئے اجازت نہیں دیگی،کیونکہ ہر دورمیں یہی ہوتا رہا ہے کہ حق کو دبانے
کیلئے ناحق نے اجازت نہیں دی ہے۔نبی کریمﷺنے جب مکہ میں اشاعت دین کا فیصلہ
کیا تو محض کچھ اقرباء ورشتے داروںنے ان کا ساتھ دیا اور مکہ کے بیشتر
کفارنے نبی کریمﷺ کو اشاعت دین سے روکا۔انہیں تبلیغ کرنے کا موقع نہیں
دیا،نجاشی بادشاہ کے دربامیں نبی کریمﷺکے خلاف شکایت بھی کروائی تھی اور
ابوجہل نے نبی کریمﷺ اور صحابہ اکرا م کو مکہ سے نکلنے کا الٹیم دیتے ہوئے
ان پر این آر سی کی طرح قانون نافذ کیا تھا۔باوجود اس کے نبی کریمﷺنے
مدینہ پہنچ کر ابوجہل اور دوسرے کفار مکہ کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا
اور مسلسل دین کی اشاعت کی۔یہاں دین کی اشاعت ہی کفار مکہ کیلئے ایک طرح سے
احتجاج ثابت ہوا ، جس میں حق نے کامیابی حاصل کی اور باطل ناکام ہوا۔جب کچھ
اور آگے ہٹ کر آتے ہیں تو جنگ آزادی کی مثال ہمارے سامنے ہیں،ٹیپوسلطان
شہیدؒ نے انگریزوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا تو اُن پر انگریز فوج حملے
کرتے رہیں،لیکن ٹیپوسلطان نے انگریز فوجوں کا منہ توڑ جواب دیا اور مسلسل
احتجاج کرتے رہے اور بلآخر انہوںنے شہادت قبول فرمائی۔پھر اس کے بعد اور
آگے تے ہیں تو ہمیںگاندھی جی کا دور یا د آتا ہے جس میں شدید مخالفت کے
باوجود گاندھی جی نے نمک ستیہ گرہ کی ،دانڈی مارچ نکالا اور کیویٹ
انڈیامومنٹ کی قیادت کی۔یہ تمام تحریکیں انگریزوںکی تائید یا تعاون میں
نہیں بلکہ انگریزوںکے خلاف کی گئیں،اس دورمیں بھی دفعہ144 سیکشن ڈالاگیا،اس
دورمیں بھی ڈالاجارہا ہے تو کیا گاندھی جی نے 144 سیکشن کو ڈرکر اپنے گھر
میں پناہ لے لی تھی ،نہیں نا۔تو پھر کیوں144 سیکشن سے اس طرح سے خوف کھا
رہے ہیں جیسے کہ302 کے تحت قیدکی صعوبوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔آج وقت
آگیاہے کہ ہندوستانی اس جنگ آزادی کی دوسری جنگ میں شرکت کریںاور سی اے
اےا ور این آر سی کے خلاف احتجاج پر اترآئیں۔ |