عالمی سطح پر جو مسائل اس وقت دنیا کے امن کے لیے شدید
خطرہ ہیں ان میں بلاشبہ کشمیر صف اول کا مسئلہ ہے۔دونوں ریاستیں مسئلہ
کشمیر پر کسی بھی وقت جنگ میں الجھ جائیں اور ایٹمی اسلحہ استعمال کریں تو
یہ خطہ جو دنیا کے حسین خطوں میں سے ایک ہے، تباہی و بربادی کی وہ ہولناک
تصویر پیش کرے گا جس کی مثال دنیا میں اس سے پہلے نظر نہیں آئی ہو گی۔ بلکہ
ہیروشیما اور ناگاساکی کے شرمناک باب بھی اس تباہی کے سامنے شرما جائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو پاکستان کے نام’’ک’’کا حرف
کشمیر کے لئے تھا۔یہ خطہ جنت نظیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنتا تھا۔
مذہبی خونی رشتوں، تجارتی روابط، بہتے دریاؤں کے آبی رشتے، پاکستان اور
کشمیر کے خطے کو باہم مربوط اور منسلک کرتے ہیں۔ کشمیر کے جنگلات کی قیمتی
لکڑی جن دریاؤں کے ذریعہ تجارت کی غرض سے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کے ساتھ
اسی خط میں جاتی تھی جو آج پاکستان کہلاتا ہے 3 جون 1947ء کے تقسیم ہند کے
منصوبے کے تحت بھی پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق ناگزیر تھا۔بدقسمتی سے
تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز کی باہمی سازش نے اس
خطہ جنت نظیر کو پاکستان سے ملحق کرنے کی بجائے ایک سازش کی اور کشمیر کی
وادی میں ہندو فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی۔ تاکہ آزادی کی روح کو کچلا
جا سکے۔ آج جو خطہ آزادکشمیر کے نام سے ہمیں نظر آتا ہے وہ ان چند سرفروش
مجاہدین کشمیر اور حریت پسند نوجوان طبقہ کی کاوش کا نتیجہ ہے جنہوں نے سر
پر کفن باندھ کر آزادی کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا۔عالمی سطح پر اقوام متحدہ
نے بھارت کے واویلا پر عارضی جنگ بندی 1948 ء میں اس وعدے پر کرائی کہ
کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں
رائے شماری کرائی جائے گی تا کہ کشمیری عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ
کرلیں کہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے؟ مگر افسوس کہ یہ ادارہ71
سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کرا
سکا۔بھارت اور روس کی ملی بھگت نے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر وینیو کے ذریعے
ہمیشہ دبانے کی کوشش کی۔ عالمی ادارہ کی اس مجرمانہ چشم پوشی سے فائدہ اٹھا
کر بھارت نے کشمیر میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں اور ایک جعلی اسمبلی کے
ذریعے کشمیر کے مقبوضہ علاقے کا ہندوستان سے الحاق کا ڈھونگ رچایا اور نوبت
یہاں تک پہنچی کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا راگ الاپنا شروع
کیا۔جب چین بھارت سرحدی تنازعہ ہوا تو بھارت نے اپنی مکاری کے تحت دنیا کو
دھوکہ دینے اور پاکستان کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شیخ عبداﷲ کو ایوب خان
مرحوم کے ساتھ مذاکرات کی غرض سے پاکستان بھیج دیا۔ 1965ء میں اسی مسئلہ پر
پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں کشمیر تو آزاد نہ ہوا مگر یہ ثابت ہو
گیا کہ پاکستان پر بھارتی قبضہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔ایوب
خان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے میدان جنگ میں جیتی ہوئی بازی مذاکرات
کی میز پر ہار دی اور بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری شادئی مرگ کا
شکار ہوئے۔ کشمیر کے مسئلے کا کوئی آبرومندانہ حل نہ نکل سکا بلکہ یہ مسئلہ
سرد خانے میں چلا گیا اور 1965ء کی جنگ میں عملاً شکست کا بدلہ 1971ء میں
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کامیاب اور 90ہزار جنگی قیدیوں کو بھارتی
جیلوں میں قید کرکے لیا گیا۔
کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جو قابل اعتماد تجاویز ہیں وہ حسب ذیل
ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا بھر میں قیام امن کا ضامن اور ذمہ دار ہے مگر
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ ادارہ چند بڑی طاقتوں کی جاگیر بن چکا ہے۔
روس کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ ادارہ عملا امریکہ کی لونڈی ہے۔ روس نے مسئلہ
کشمیر کو ویٹو کیا،امریکہ نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے اس مسئلہ پر اپنا
کردار نہیں ادا کیا۔ بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات میں یہ توقع نہیں کی
جاسکتی کہ عالمی ادارہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ خود پاکستان کی کمزور اور
ناقص خارجہ پالیسی نے اس مسئلہ کو عالمی مسئلہ بنانے میں بری طرح ناکامی کا
ثبوت پیش کیا۔ اقوام متحدہ کا کردار مسئلہ کشمیر پر صفر ہے-
مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعہ حل کرنے کی تجویز بھی متعدد مرتبہ سامنے آئی
ہے۔ برطانیہ نے ثالثی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ چین نے اس
پر آمادگی کا اظہار کیا، ایران نے اپنی خدمات پیش کیں مگر بھارت کی ہٹ
دھرمی میں نہ مانوں اور‘اٹوٹ انگ’کے سامنے ان مخلص ممالک کی تجویز موثر
ثابت نہ ہوئی۔
عالمی عدالت انصاف اپنے قیام سے لے کر اب تک دنیا میں کیا کردار ادا کرسکی
ہے؟ یہ ایک تاریخی سوال ہے جس کا جواب شاید بے مقصد ادارہ بھی نہ دے سکے۔
اس عدالت کے بارے میں ہر چند کہیں گے ''کہ ہے پر نہیں ہے ''والا معاملہ
ہے۔مگر اس عدالت نے پاکستان کے ساتھ جو انصاف کیا وہ خود انصاف کی توہین
ہے۔ لہذا مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں اس کا کردار بھی غیر مؤثر ہے۔
دو طرفہ مذاکرات کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں
جبکہ فریقین فراخدلی اور وسیع النظری کا ثبوت دیں۔ لیکن یہاں معاملہ غاصب
اور تنگ نظر فریق کا ہے۔ دو طرفہ مذاکرات صدر ایوب خان کے دور میں بھی ہوئے
انتہائی قابل اور تیز و شاطر وزیرخارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے
پاکستان کی نمائندگی کی مگر سورن سنگھ کے سامنے کوئی دال نہ گلی۔ صدر ضیاء
الحق کے دور میں یہ بے مقصد ورزش کی گئی اس کے بعد بھی کئی مرتبہ دہلی اور
اسلام آباد مذاکرات کی میز پر آئے۔ پاکستان کی پرجوش قیادت اگر سمجھتی ہے
کہ ان کی کامیابی ڈپلومیسی سے بھارت طشتری میں رکھ کر کشمیر پاکستان کو دے
دے گا تو یہ خود فریبی اور دھوکہ دہی ہے۔ بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے
عالمی سطح پر اپنی امن پسندی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور عالمی دباؤ کو کم کرتا
ہے۔ دوسری طرف کشمیر حریت پسندوں کی تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے۔
دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایٹمی قوتیں بن جانے کے
بعد اس مسئلہ پر جذباتی انداز میں ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کی احمقانہ
حرکت کے باوجود ایک دوسرے کو فتح نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بے گناہ شہریوں کا
قتل ہو سکتا ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ تو دہرائی جا سکتی ہے،
لاہور اور دہلی کھنڈر تو بن سکتے ہیں، دونوں ممالک کی معیشت تباہ ہو سکتی
ہے لیکن جنگ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
دونوں ممالک کی خیر خواہی اور عوام کی فلاح کا راستہ یہی ہے کہ موجودہ
سرحدوں میں مناسب رد و بدل کر کے دونوں ممالک اپنی فوجیں نکال لیں۔ جنگ نہ
کرنے کا معاہدہ کریں، کشمیریوں کو باہمی رابطے اور تجارت کی آزادی دے دیں،
اربوں روپے جو دفاع اسلحہ کی خریداری پر خرچ کر رہے ہیں وہ مفلوک الحال
عوام کی تعمیر و ترقی کے لئے خرچ کریں، کارخانے اور فیکٹریاں لگا کر بے
روزگاری کا خاتمہ کریں، سیاحت کے لیے سڑکیں تعمیر کریں تاکہ کشمیر جنت نظیر
کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے سیاح اس خطے کا رخ کریں۔ کشمیر کے دیگر ذرائع
اپنی جگہ مگر صرف سیاحت کی آمدنی بھی اس ریاست کے بجٹ کے لیے کافی ہے۔اگر
دونوں ممالک کی منتخب قیادت جرأت سے کام لے کر ایسا معاہدہ کر لیں تو یہ
خطہ جنگ اور تباہی کے منحوس سائے سے محفوظ ہوجائے گا یہ دونوں ممالک10 سال
کے اندر اتنی اقتصادی ترقی کریں گے کہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔(بشکریہ
پریس لائن انٹرنیشنل)
|