سورج یا چاند گہن کے وقت نماز، دعا، استغفار اور صدقے کی طرف متوجہ ہوں

عبدیت کا تقاضا ہے کہ بندہ تمام حاجتیں قاضی الحاجات کی بارگاہ میں پیش کرے ۔رحمت للعالمین اور محبوبِ خدا حضرت محمد ﷺ نے اپنی ہر ہر ادا سے عبدیت کے تقاضوں کو پورا کرنا سکھایااور امت کو یہ تعلیم دی کہ کس موقع پر کیا عمل انجام دیا جائے ! آپ کے قول و عمل سے پوری انسانیت کی رہنمائی ہوتی ہے ۔سورج گہن اور چاند گہن اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں، ان کے تعلق سے لوگوں میں جو غلط خیالات پائے جاتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ نے نہ صرف ان کی اصلاح فرمائی بلکہ اس موقع کے لیے مناسب ترین اعمال بھی سکھائے ۔آپ ﷺ کا امتی ہونے کے ناطے ہم سب کی ذمّے داری ہے کہ آپ کی ہر ہر ادا کی پیروری کریں، تاکہ دنیا و جہان کی خیر و بھلائی نصیب ہو۔

اسوۂ نبویؐ
حضرت عیسیٰ بن ابی عزہ کہتے ہیں کہ لوگ سورج گہن، چاند گہن یا ایسی کسی صورت میں گھبراگئے تو حضرت شعبی نے فرمایا کہ مسجد میں جاؤ، کیوں کہ اس موقع پر مسجد میں جانا سنت ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی رات شدید آندھی چلتی تو رسول اﷲ ﷺ فوراً مسجد میں آجاتے ۔ جب تک آندھی نہ رک جاتی، آپ مسجد ہی میں رہتے ۔ اور جب آسمان میں کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا، مثلاً سورج یا چاند گہن، تب بھی آپ مسجد میں آجاتے ۔(کنزالعمال) حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ گہن کے وقت تمھاری نماز کی طرح نماز پڑھتے تھے ۔ رکوع کرتے تھے ، سجدہ کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

بڑی نشانیوں کے وقت نماز
حنفیہ نے کہا ہے کہ کسی بھی گھبراہٹ کے وقت (انفرادی نفل) نماز پڑھنا مستحب ہے ، مثلاً تیز آندھی، زلزلہ، تاریکی، مسلسل بارش وغیرہ۔ اس لیے کہ یہ باعثِ خوف اور ہول ناکی ہے ۔ روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے بصرے میں زلزلے کی وجہ سے نماز پڑھی۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ)

کَسُوف اور خسوف کے معنی
عربی زبان میں سورج یا چاند کی مکمل روشنی یا کچھ روشنی ختم ہو جانے اور اس کے سیاہ ہو جانے کو ’کَسُوف‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : کسفت الشمس۔ اسی طرح: خسفت الشمس۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے : کسف القمر اور خسفت القمر۔ لہٰذا کسوف و خسوف ہم معنی ہیں۔ اور ایک قول کے مطابق کسوف سورج گہن کے لیے اور خسوف چاند گہن کے لیے استعمال ہوتا ہے اور لغت میں یہی زیادہ مشہور ہے ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ)

عہدِ نبویؐ میں سورج گہن
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ کے عہد میں سورج گہن ہوگیاتو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہوئے تو دیر تک قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو طویل رکوع کیا۔ پھر کھڑے ہوئے تو دیر تک کھڑے رہے ، لیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا۔ رکوع کیا تو طویل رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر سجدہ کیا تو طویل سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا جس طرح پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب روشن ہوچکا تھا۔اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ چاند و سورج دونوں اﷲ کی نشانیاں ہیں،انھیں کسی کی موت وحیات کے سبب سے گہن نہیں لگتا،جب تم یہ گہن ہوتے دیکھو تو اﷲ تعالیٰ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر فرمایا: اے امتِ محمدیہ ! اﷲ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں، اسے غیرت آتی ہے کہ اس کا بندہ یا اس کی بندی زنا کرے ۔ اے امتِ محمدیہ! جو میں جانتا ہوں اگر تم اسے جان لو تو ہنسو کم اور روؤزیادہ۔(بخاری)

ایک غلط خیال کی اصلاح
حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا، رسول اﷲ ﷺ کے عہد میں سورج گہن ہوا تو آپ چادر کھینچتے ہوئے باہر نکلے ، یہاں تک کہ مسجد میں پہنچے اور آپ کی طرف لوگ متوجہ ہوئے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔ چناں چہ آفتاب روشن ہوگیا تو آپ ﷺنے فرمایا: آفتاب و ماہتاب اﷲ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں اور یہ دونوں کسی کی موت کے سبب سے گہن میں نہیں آتے ۔جب یہ صورت پیش آئے تو نماز پڑھو، یہاں تک کہ وہ چیز دور ہوجائے جو تمھارے ساتھ ہے(یعنی گہن)۔یہ اس لیے فرمایا کہ حضرت نبی کریم ﷺکے ایک صاحب زادے نے جن کا نام’ابراہیم‘ تھا، اسی دن وفات پائی تھی اور لوگوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ گہن ان کی موت کے سبب لگا ہے ۔(بخاری)

استغفار اور نیکیوں کا اھتمام
ایسے موقعوں پر استغفار اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ سورج گہن ہوا ، آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز شروع فرما کر اتنی دیر تک قیام فرمایا گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے ۔۔۔غرض ہر ہر رکن اس قدر طویل تھا کہ گویا یہی رکن اخیر تک کیا جائے گا، دوسرا کوئی رکن ہی نہیں ہے ۔ شدتِ غم اور جوش سے سانس لیتے تھے اور روتے تھے اور حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہِ عالی میں عرض کرتے تھے : اے اﷲ تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میری موجودگی میں امت کو عذاب نہیں ہوگا! اے اﷲ تو نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے عذاب نہیں ہوگا۔ ہم سب کے سب استغفار کرتے ہیں!آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب نکل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے وعظ فرمایا،جس میں اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ شمس وقمرکو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گہن نہیں لگتا، بلکہ یہ حق تعالیٰ جل شانہ کی دو نشانیاں ہیں، جب ایسا ہو تو اﷲ جل جلالہ کی طرف فورا ًمتوجہ ہوجایا کرو اور استغفار و نماز شروع کردیا کرو۔(بخاری)

گہن کے وقت کھانا پینا وغیرہ
گہن کے وقت رسول اﷲ ﷺ نے قولاً و فعلاً اﷲ تعالیٰ کی طرف خصوصی طور پر متوجہ ہونے اور نماز کا اہتمام کرنے کی تاکید فرمائی ہے ، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس وقت میں دیگر مشغولیات سے فارغ ہوکر ذکر و اذکار اور نماز و دعا میں لگا رہے ۔ البتہ بقول حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒفافزعواالی الصلوٰۃ میں امرندب کے لیے ہے ، اکل وشرب بحالتِ کسوف مباح ہے ، البتہ بہت بھوکا نہ ہو توترکِ اکل اولیٰ ہے ، لانہ ینافی الفزع المندوب۔(امداد الاحکام)البتہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ چاند گہن یا سورج گہن کے درمیان نہیں کھانا چاہیے ، اس کے درمیان کھانے کی وجہ سے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں، یا اسی طرح سے اور کوئی بات تو یہ سب بے اصل ہے ۔اس طرح کی کوئی بات نہ کسی حدیث سے ثابت ہے ، نہ صحابہ ؓکے قول و فعل سے ، اور بظاہر میڈیکل سائنس بھی ایسا نہیں کہتی۔ سورج گہن اور چاند گہن اﷲ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ فطرت کے تابع ہے ، لیکن چوں کہ عام معمول کے خلاف ہے ،اس لیے اس کے ذریعے اﷲ تعالی کی قدرتِ کاملہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔اس موقع پر نماز اور ذکر کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ انسان کی غافل طبیعت بیدار ہو ،باقی انسان یا کائنات کی دوسری اشیا پر اس کا مؤثر ہونا، تو اس کا کوئی ذکر نہیں ۔(مستفاد از کتاب الفتاویٰ)

تسبیح، تحمید، تکبیر، تہلیل، دعا
حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ کے دور میں میں تیر اندازی کررہا تھا کہ اچانک سورج گہن ہوگیا۔ میں نے تیروں کو پھینک دیا اور اس کوشش میں لگ گیا کہ اس موقع پر حضور ﷺکون سا نیا عمل کرتے ہیں! میں نے دیکھا کہ آپ ﷺنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، تکبیر(اﷲ اکبر) وتہلیل(لا الٰہ الا اﷲ) اور حمد (الحمدﷲ) و تسبیح (سبحان اﷲ) کر رہے ہیں۔ پھر برابر دعا کرتے رہے ،یہاں تک کہ سورج چھٹ گیا۔ چناں چہ آپ ﷺ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع کیے ۔

خلاصہ
مختصر یہ کہ اگر چاند گہن کا واقعہ پیش آئے تو سب لوگ تنہا تنہا نماز ادا کریں، اس نماز کو با جماعت پڑھنا مسنون نہیں۔ جب سورج گہن شروع ہو اور جب تک گہن کا اثر باقی رہے ، اس وقت تک باجماعت نماز پڑھی جائے ، جب کہ مکروہ وقت نہ ہو۔اگر گہن مکروہ اوقات یعنی زوال یا عصر بعد ظاہر ہوا تو ان اوقات میں گہن کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ لوگوں کو دعا و استغفار میں مشغول ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ سورج گہن کی نماز کے لیے اذان و اقامت بھی نہیں کہی جائے گی، البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے اعلان کیا جا سکتا ہے ۔ قرأت سے متعلق امام ابو حنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ نمازِ کسوف میں امام آہستہ قرأت کرے گا، لیکن امام ابو یوسفؒ جہری قرأت کے قائل ہیں، اس لیے اگر مقتدیوں کو اکتا ہٹ سے بچانے کے لیے جہری قرأت کی جائے تو ایسا کیا جا سکتا ہے ۔ امام کو چاہیے کہ لمبی قرأت کرے مثلاً سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھے اور اسی مناسبت سے رکوع اور سجدے وغیرہ بھی خوب طویل کرے ۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اس قدر لمبی ہو کہ گہن کا پورا وقت اسی میں گذرجائے ، لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو نماز کے بعد دعاؤں میں مشغول رہنا مستحب ہے ، یہاں تک کہ گہن کا اثر بالکل ختم ہوجائے ۔ امام اگر چاہے تو اس موقع پر جہراً دعا بھی کراسکتا ہے ۔نیز گہن کے وقت عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اور دعا وغیرہ میں مشغول رہیں، جماعت میں شریک نہ ہوں۔

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347119 views (M.A., Journalist).. View More