جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ رگھوبر داس ابھی حیات ہیں اس
لیے ان لیے بابت یہ عنوان تعجب خیز نہیں کیونکہ ان کو ساری دنیا ایک
سیاستداں کی حیثیت سے جانتی ہے اور اب ان کی سیاسی موت واقع ہوچکی ہے۔
رگھوبر داس نے اس کراری ہار کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی اور کہا کہ یہ
بی جے پی کی شکست نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نہ صرف بی جے پی کی بلکہ
اس کے وزیراعظم اورپارٹی صدر کی ہار ہےکیونکہ ان دونوں نےرگھوبرداس کو
کامیاب کرنے کے لیے جمشید پور کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے دہلی والی گجراتی
بیساکھیوں کا سہارا لیے بغیر چوبیس سالوں سے انتخابات میں اپنے بل بوتے پر
کامیابی درج کرائی لیکن اس بار دوسروں کے سہارے الیکشن لڑا اور ہار گئے۔
انہیں خوف ہے کہیں مودی اور شاہ اپنا نزلہ اس زرخرید داس پر نہ اتاریں ۔
رگھوبر داس پر قبائلی ایک خطاب عام میں جوتے چپل کی بارش کرچکے ہیں لیکن
چونکہ اقتدار سلامت رہا اس لیے کوئی فرق نہیں پڑا لیکن اب پارٹی کے اندر سے
جوتے کھاکر نکالے جانے کے خوف سے وہ مکھن بازی کررہےہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے
کہ رکھوبر داس کو کسی پرائے نے نہیں بلکہ بی جے پی کے سابق وزیر سریو رائے
نے ہرایا۔ سریو رائے بھی رگھوبرداس کی طرح جمشید پور کے ہیں ۔ ان میں ایک
مشرق کا قلعہ سنبھالے ہوئے تھا اور دوسرا مغرب سے لڑتا تھا ۔ سریو رائے
۱۹۶۲ میں آرایس ایس سے منسلک ہوئے اور پرچارک کے طور پر اپنی خدمات پیش
کیں ۔ انہوں جئے پرکاش نارائن کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ۱۹۸۲
میں اڈوانی کے کہنے پر بی جے پی میں آگئے۔ تمام عمر بدعنوانی کے خلاف لڑنے
والےرائے نے اپنی پارٹی کی بھی رعایت نہیں کی اس لیے اگر نریندر مودی واقعی
کرپشن کے خاتمہ کی خاطر مخلص ہوتے تو ان کی سنگھ میں سیوا کی قدر کرتے لیکن
ایسا نہیں ہوا۔
سریو رائے کے ساتھ داس اور مودی نے وہی کیا جو فردنویس اور شاہ نے ایکناتھ
کھڑسے کے ساتھ کیا تھا۔ ان کو آخری وقت تک لٹکایا گیا تاکہ ایسے وقت میں
دھتکارا جائے کہ وہ کچھ نہ کرسکیں لیکن رائے صاحب کھڑسے سے بہت ہوشیار نکلے
۔ انہوں نے رگھبروداس کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے گھر میں گھس کر مارا۔
جمشید پور مغرب کے بجائے رگھوبر داس کے حلقۂ انتخاب سے آزاد امیدوار کی
حیثیت کاغذاتِ نامزدگی داخل کیا اور بتا دیا کہ ایک طرف وزیراعظم ہے۔ وزیر
اعلیٰ ہے اور وزیرداخلہ ہے اور دوسری جانب ایک آزاد امیدوار جو ان سارے
غلاموں پر بھاری پڑ گیا ہے۔
رگھوبر داس اور سرجو رائے کی رقابت 13 سال پرانی ہے۔ اس وقت رگھوبر داس
شہری ترقی کے وزیر تھے اور ان پر رانچی کے اندر سیوریج کے کام بدعنوانی کا
الزام لگا تھا۔ اس کی تفتیش کا کام سرجو رائے کی قیادت والی کمیٹی کے حوالے
کیا گیا تو انہوں نے اپنی پارٹی کے وزیر رگھوبرداس کے خلاف رپورٹ بناکر
وزیراعلیٰ ارجن منڈا کے حوالے کردی ۔ رگھوبرداس وزیراعلیٰ بنے تو بادلِ
ناخواستہ سرجو رائے کو وزیر بنایا لیکن پانچ سال بعد سازش کرکے ان سے
انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور اس کی بہت بڑی قیمت چکاتے ہوئےاسمبلی کے
رکنیت تک گنوا بیٹھے۔ رگھوبر داس چونکہ تیلی سماج سے ہیں اس لیے انہیں
دھوکہ دھڑی میں براہمنوں جیسی مہارت حاصل نہیں ہے ورنہ وہ بھی سرجو رائے کے
بیٹے یا بیٹی کو ٹکٹ دیتے اور اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے ہرا دیتے
اور خود فردنویس کی طرح حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے لال بتی والی گاڑی
لے کر گھومتے ۔
رگھوبر داس تو خیر انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اس لیے ان کی عقل پر پتھر
پڑگیا لیکن چانکیہ سمجھے جانے والے شاہ جی کو کیا ہوگیا؟ وہ کیوں ایک لنگڑے
گھوڑے سے دوڑ جیتنے کی کوشش کرتے رہے ؟ امیت شاہ تو بیچارے یہ اندازہ بھی
نہیں لگا پائے کہ جس لکشمن گلوا کو انہوں نے صوبے میں پارٹی کی باگ ڈور
سونپ رکھی ہے وہ خود انتخاب جیتنے کی حالت میں نہیں ہے۔ جس صوبے میں پارٹی
کا صدر اور وزیر اعلیٰ، اس کے بارا میں ۹ وزراء اور اسمبلی میں اسپیکر
انتخاب ہار جائے وہاں پارٹی کیسے جیت سکتی ہے ؟ ایسی غیر مقبول پارٹی دنیا
میں کہاں پائی جاتی ہے؟ عوام نے ان سب کا نام سیاسی این آر سی رجسٹر میں
سے نکال کر انہیں بن باس پر بھیج دیا۔
اس برے حال میں بھی گنتی کے دوران صبح کے وقت رگھوبر داس سے پوچھا گیا کہ
ابتدائی رحجانوں ان کی پارٹی کیوں پچھڑ رہی ہے تو وہ بولےوہ ابھی رجحان اور
قیاس آرائیوں پر کوئی ردعمل نہیں دیں گے لیکن یہ تو طے ہے کہ جھارکھنڈ میں
ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ شام تک ووٹوں کی
گنتی کے حتمی نتیجے آنے کے بعد وہ رانچی میں پریس کانفرنس کریں گے۔اپنے
وعدے کے مطابق شام میں رگھوبر داس نے نامہ نگاروں کے سامنے شکست کو تسلیم
کرلیا اور انتخاب میں پارٹی کے مظاہرہ کو اپنی نجی شکست بتایا لیکن جب تک
پورے نتائج نہیں آجاتے ہیں تب تک امید جتا کر ثابت کردیا کہ دنیا
سیاستدانوں سے زیادہ خوش فہمی کا شکار کوئی اور نہیں ہوتا۔ سابق وزیرخزانہ
اور دفاع یشونت سنہا کا تعلق جھارکھنڈ سے ہے انہوں نے ان انتخابی نتائج پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ مودی دور کےخاتمہ کی ابتداء ہے ‘‘۔
|