بھارتی مسلمان کے صبر کا پیمانہ

آج سارے انڈیا میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی ایشو کی آڑ میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بھارتی پولیس کے تششد سے درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ مگر یہ مظاہرے سارے ملک میں پھیل رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے اپوزیشن پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ مگر اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت اپنے بیانات کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دلی حکومت اس مسئلہ پر واضح طور پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کے ارادے صاف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے موقف اور اس کے بیانات ہی میں تضاد پایا جاتا ہے۔نریندر مودی کا دعوی ہے کہ 2014 میں اقتدار پر آنے کے بعد سے بی جے پی نے کبھی این آر سی کی بات نہیں کی ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر صرف آسام کی حد تک این آر سی کروانا پڑا ہے۔ اس طرح وہ اپنی معصومیت کی دہائی دیتے ہوئے عوام کو گمراہ کر نے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار موقعوں پرمودی کے نمبر دو وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ ملک بھر میں این آر سی نافذ کیا جائیگا اور 2024 تک این آر سی لاگو کردیا جائیگا۔امیت شاہ نے خود مودی کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں کہا کہ این آر سی سارے ملک میں نافذ ہوگا۔ اس کے باوجود مودی کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے ابھی تک این آر سی پر کوئی تبادلہ خیال نہیں کیا ہے۔بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں جہاں بی جے پی حکومت ہے، این آر سی کا عمل شروع بھی کردیا گیا ہے۔ چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر نے ریاست میں این آر سی لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی کے دوسرے قائدین بھی مسلسل این آر سی لاگو کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں اور اس سب کے باوجود وزیر اعظم اس پر غلط بیانی کر رہے ہیں۔

مودی نے ایک اور دعوی بھی کیا تھا کہ انڈیا میں کوئی حراستی سنٹر قائم نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی صریح جھوٹ ہے۔مودی کے وزراء نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا کہ آسام میں چھ حراستی مراکز قائم ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست کرناٹک میں گزشتہ روز ایک ڈیٹنشن سنٹر قائم کردیا گیا ہے۔ بھارت کی تقریبا ہر ریاست میں ڈیٹنشن مراکز قائم کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ عمل بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ایک طرف تو بھارت کے وزیر داخلہ (جو بی جے پی کے صدر بھی ہیں) سارے ملک میں این آر سی لاگو کرنے کی بات کرتے ہوئے سماج میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت کے سربراہ نریندر مودی اس سے انکار کرتے ہیں۔ یہ ایک کھلا جھوٹ ہے جو بھارت کے ٹی وی چینلوں پر بھی دکھایا جارہا ہے، جو مسلمانوں کے لئے شروع سے جانبداری دکھا رہے ہیں۔ یہ تضاد بیانی بھی بی جے پی حکومت کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف انڈیا میں مظاہروں کے دوران مظاہرین پر ظلم وستم کاپہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اندھا دھند فائرنگ میں متعدد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ پولیس نے مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کے پوسٹر مختلف چوراہوں پر چسپاں کردیئے ہیں۔ ان پوسٹروں میں نظر آرہے افراد کو تشددکا ملزم قرار دیتے ہوئے عوام سے معلومات دینے کی اپیل کی جا رہی ہے اور وعدہ کیا جا رہا ہے کہ اطلاع دینے والوں کا نام مخفی رکھ کر نقد انعام بھی دیا جائیگا۔ اتر پردیش کے غازی آباد، میرٹھ، گورکھپور، ہاپوڑ اور دیگر علاقوں کے بعد کانپور میں بھی اس طرح کے پوسٹر چسپاں کردیئے گئے۔ پہلے ہی خوف وہراس میں مبتلا افراد چوراہوں پر پوسٹر میں چھپی تصویریں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ پوسٹروں نے لوگوں میں شدید ہیجان پیدا کردیاہے۔ جن کی تصویریں ہیں ان کے علاوہ ان کے اہل خانہ اور محلے کے پولیس کے ظالمانہ ایکشن کے اندیشوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کیخلاف لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر پر امن مظاہرہ کیا ۔ پولیس حالات سدھارنے کے بجائے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بے قصوروں پر تشدد کر رہی ہے بلکہ خود ہی توڑ پھوڑ میں بھی ملوث ہے۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج اورفائرنگ کی وجہ سے حالات بگڑ رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں لگے اسمارٹ سٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے پولیس مظاہروں کے شرکاء کو تلاش کر رہی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ دلی حکومت کی قیادت نریندر مودی کر رہے ہیں یا پھر عنان اقتدار امیت شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ مودی کسی این آر سی سے انکار کرتے ہیں اور ملک کی تقریبا ہر ریاست کا دورہ کرتے ہوئے امیت شاہ این آر سی نافذ کرنے کے اعلانات کرتے ہیں۔ یہ حکومت کی دروغ گوئی اور تضاد بیانی ہے۔مگربھارتی حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے طلبا اور نوجوانوں نے کمر کس لی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مظاہروں کے دوران آر ایس ایس کے لوگ بھی غنڈہ گردی کر رہے ہیں۔برطانیہ میں ورلڈہیومن رائٹس واچ کے اجلاس میں کہا گیا کہ انڈیا کی انتہاء پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے برطانیہ میں منعقدہ حالیہ انتخابات میں منفی کردار ادا کیا جو برطانیہ کی روایات اور قوانین کے خلاف ہے۔ اس موقع پر ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں شرکاء نے آر ایس ایس کو دہشت گرد قرار دینے اور برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کرنے کیلئے مہم چلانے کا اعلان کیاگیا۔ورلڈ ہیومنٹ رائٹس واچ کے چیرمین نذر لودھی نے کہا کہ آر ایس ایس کی وجہ سے پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ آر ایس ایس نہ صرف مسلمانوں‘عیسائیوں‘سکھوں‘دلتوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے خطرناک ہے بلکہ عالمی امن و استحکام کیلئے بھی ایک خطرہ ہے۔مودی اور امیت شاہ کے ہاتھ میں بھارت میں اقتدار کی کمان آجانے کے بعد بی جے پی کھلم کھلا مسلم منافرت کا کارڈ کھیلنے لگی تھی۔ شہریت ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے بھی زعفرانی پارٹی کے یہی تیور تھے لیکن بل کے قانونی شکل اختیار کرتے ہی جو ملک گیر احتجاج شروع ہوا، تو بی جے پی کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے اپنے زرخرید میڈیا کا سہارا لیا ہے، اخبارات میں اشتہار دیا ہے اور اپنے کچھ ’جموروں‘ کو بھی میدان میں اُتار دیا ہے جو اپنا حق نمک ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس قانون سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ امیت شاہ جب کبھی مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں ایک طرح کی سفاکیت نظر آتی ہے۔ دراصل بی جے پی کے مزاج میں دھول جھونکنا نہیں ہے.... بلکہ اذیت دینے، تڑپانے اور چڑا کر کام کرنے میں اسے زیادہ مزہ آتاہے۔طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو، دفعہ 370کا خاتمہ ہو یا پھر زیر بحث شہریت ترمیمی قانون کا معاملہ ہو، بی جے پی نے کبھی عوام اور اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لایابلکہ ان قوانین کے متاثرین کی پریشانیوں کو دیکھ کر اس کے لیڈران محظوظ ہوتے رہے اور
طنزیہ بیانات دیتے رہے۔ بی جے پی کو خدشہ ہے کہ کہیں اس کے لہجے کی سختی اس کی دیرینہ آرزو یعنی پورے ملک میں این آر سی کے نفاذ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔2025 میں آر ایس ایس کے قیام کے100سال مکمل ہورہے ہیں اور اس سے پہلے یعنی 2024ء میں آئندہ لوک سبھا کا الیکشن ہوگا۔ بی جے پی کی خواہش ہے کہ اس سے قبل ملک کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کردیا جائے۔بی جے پی کہہ رہی ہے کہ اس قانون کا تعلق کسی بھی طرح مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ’پریشان حال‘ اقلیتوں سے ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ ان کیلئے یہاں شہریت دینے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جسے کچھ راجیہ سبھا میں بی جے پی ہی کے ایک وزیر نے فاش کردیا ہے۔ وزیرمملکت برائے داخلہ نتیا نند رائے نے ایک سوال کے جواب میں کہاتھا کہ2016ء سے 2018کے درمیان 1988 افراد کوشہریت عطا کی گئی ہے جن میں سے1595کا تعلق پاکستان اور 391 کا افغانستان سے ہے۔ اسی طرح رواں سال میں اب تک 712 پاکستانی اور40 افغان شہریوں کو ہندوستان کی شہریت دی جاچکی ہے۔یعنی پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں کو اس قانون کے وجود میں آنے سے قبل بھی شہریت دی جاتی رہی ہے،اسلئے محض ان ’پریشان حال اقلیتوں‘ کی وجہ سے اس قانون کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے۔ دوسرے ممالک میں اقلیتوں اور ان کی پریشانیوں کی دہائی دے کر بھی بی جے پی گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ زعفرانی پارٹی کو اگر واقعی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام نہیں لیتی بلکہ وہ سری لنکا، نیپال، چین اور برماکا بھی تذکرہ کرتی۔ سری لنکا میں تمل، نیپال میں مسلمان، چین میں ایغور اور برما میں روہنگیا مسلمان اقلیت میں ہیں۔سری لنکا کو چھوڑ کر باقی تینوں ممالک میں اقلیتوں کی پریشانی کی واحد وجہ ان کی مذہبی اور نسلی شناخت ہے۔مگر یہ سب مسلمانوں کی شہریت کو خطرے میں ڈالنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کی پریشانی کے تعلق سے بھی بی جے پی نے ایک جھوٹ گھڑا ہے جو سراسر دروغ گوئی پر مبنی ہے۔ امیت شاہ نے یہ جھوٹ پارلیمنٹ میں بولا ہے ،وہ یہ کہ بھارت کی تقسیم کے وقت پاکستان میں 23فیصد ہندو تھے جو اَ ب صرف تین فیصد رہ گئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس کی وجہ تو انہوں نے بیان نہیں کی لیکن پارلیمنٹ سے باہر بی جے پی اس جھوٹ کو اکثر ہوا دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ پاکستان میں تبدیلی مذہب کی وجہ سے ہندوؤں کی تعداد بہت کم ہورہی ہے۔ اس تعلق سے ایک محقق ’ہمانشو پنڈیا‘ کہتے ہیں کہ1947ء میں مردم شماری نہیں ہوئی تھی بلکہ1941ء میں متحدہ ہندوستان کے طور پر ہوئی تھی۔ اُس وقت موجودہ پاکستانی خطے میں22 فیصد ہندو آبادی تھی۔ وِکی پیڈیا کے مطابق یہ تعداد59 لاکھ تھی۔ قیام پاکستان کے وقت ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے تقریباً 50لاکھ ہندو بھارت گئے۔ جن میں سے تقریباً 39 لاکھ کا تعلق صرف پنجاب سے تھا۔1951ء میں پاکستان میں جو مردم شماری ہوئی،اس کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کا تناسب12.3 فیصد تھا.... لیکن ان کی بڑی تعدا دمشرقی پاکستان میں تھی جو اَب بنگلہ دیش ہے۔ اُس مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش میں28فیصد ہندو تھے جبکہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں صرف1.6فیصد ہندو تھے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو آج پاکستان میں 3فیصد ہندو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔بی جے پی پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپگنڈہ کر کے دنیا کے سامنے پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بھارت میں ایک اور پاکستان کے قیام کی پیشن گوئیاں ایسا لگتا ہے کہ سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ شاید مودی کو اسی بات کا خوف ہے۔شہریت قانون میں دیگرتمام مذاہب کا تذکرہ ہونے اور مسلمانوں کو چھوڑ دینے کے تعلق سے بی جے پی کہتی ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے پاس بہت سارے ممالک ہیں،اسلئے ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہندوؤں کیلئے مسئلہ ہے کیونکہ دنیا کے نقشے پر ان کیلئے کوئی بھی ملک نہیں ہے۔ یہ کہہ کر بی جے پی یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہندؤں کیلئے دوسرے ممالک میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پونے دو کروڑ لوگ بھارتی تارکین وطن ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب مسلم نہیں ہیں بلکہ ان کی اکثریت ہندؤں ہی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں آباد ہے جنہیں بھارتی وزیرداخلہ مسلم ممالک قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی پروپگنڈہ ، مسلم اور پاکستان دشمنی سب پر عیاں ہے۔ بھارتی مسلمان اب جاگ رہا ہے۔ یہ ایک انقلاب ہے۔ جس کی قیادت نوجوان کر رہے ہیں۔ اس لئے بھارت میں ایک اور پاکستان بننے میں شاید بیہ جے پی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ مودی حکومت کشمیر کی جنگ بندی لائن پر آزاد کشمیر کی آبادی پر جارحیت کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ مگر یہ سب حربے شاید بھارت کو توڑنے سے بچا نہیں سکتے۔ کلسٹر بم بھارت کے کسی کام نہیں آسکتے۔ کیوں کہ کشمیری اب بھارتی بموں کو کھلونہ بم ہی سمجھتے ہیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483804 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More