محاذ

تحریر ۔میاں محمد ارشد ساقی بیوروچیف اوکاڑہ
پاکستان میں اقتدار کی لڑائی کبھی سیاسی قوتوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ یہ لڑائی ہمیشہ جی ایچ کیو میں لڑی جا تی ہے،حالیہ دنوں میں جاری یہ جنگ دو گروپوں کے درمیان ہے پہلا گروپ جنرل باجوہ کا ہے جو جنرل باجوہ کی بحیثیت سربراہ مزید تین سال کی توسیع چاہتا ہے اس گروپ میں وہ تمام کور کمانڈر شامل ہیں جو جنرل باجوہ کی عنایات کی بدولت دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں دوسرا گروپ جنرل سرفراز ستار کا ہے جو باجوہ کی ریٹائرمنٹ چاہتا ہے ،سرفراز ستار اس وقت باجوہ کے بعد سب سینئر جرنیل ہونے کے ناطے فوج کی سربراہی کا سب سے بڑا امیدوار ہے اور اس کا گروپ انتہائی طاقتور ہے کیونکہ اس میں وہ تمام تھری سٹار جرنیل شامل ہیں جو بطور آرمی چیف باجوہ کی ملازمت میں توسیع کی صورت میں فور سٹار جنرل بننے سے محروم رہتے ہوئے ریٹائر ہو جائیں گے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق سرفراز ستار گروپ نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے ایک ملک گیر سیاسی احتجاج کروایا تاکہ جنرل باجوہ کو توسیع دینے والی سولین حکومت پر دباو پڑے اور وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے،دوسری طرف سپریم کورٹ میں جنرل باجوہ کی توسیع کے خلاف درخواست داخل کروائی گئی اور پھر جسٹس کھوسہ کی مدد سے قانونی اعتراض اٹھاتے ہوئے آرمی چیف کی توسیع کو متنازع بنوا کر پارلیمنٹ میں قانون سازی سے مشروط کروا دیا گیا،توسیع کو قانون سازی سے مشروط کرنے کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ یہ تھا کہ جب توسیع کے لیئے قانون سازی ہو تو فوجی سربراہ کی تعیناتی سے متعلق آئینی شق میں امیدوار کے سینئر ترین ہونے کی شرط ڈلوا دی جائے،درحقیقت آرمی چیف کا ملازمت میں توسیع لینا ڈکٹیٹروں کا ایجاد کردہ ایک غیر قانونی عمل تھا اور اس عمل کا ذکر آئین میں کہیں موجود نہیں،جنرل سرفراز اور اس کے ہمنواؤں نے عدالت کے زریعے اس راز کو آشکار کر دیا تاکہ جنرل باجوہ پر اخلاقی دباؤ کے ساتھ ساتھ قانونی دباؤبھی ڈالا جا سکے۔جنرل باجوہ نے جوابی چال چلتے ہوئے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کو مولانا فصل الرحمن کے احتجاج میں شمولیت سے روکا جس کی وجہ سے مولانا اپنے سیاسی احداف حاصل کرنے میں ناکام رہا،پھر عدالتی درخواست دائر ہونے کے بعد باجوہ نے جسٹس کھوسہ پر دباو ڈالتے ہوئے سولین حکومت کو قانون سازی کے لیئے 6 ماہ کا وقت دلوا دیا،اسی دوران جنرل باجوہ نے جنرل سرفراز کی جگہ ایک جونیئر جرنیل ندیم رضا کو جوائنٹ چیف بنوا دیا تاکہ فوج کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک جونیئر افسر کی ترقی پر سرفراز ستار قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دے لیکن سرفراز ستار نے روایات کے برخلاف ریٹائرمنٹ لینے سے اجتناب کرتے ہوئے ایک طرح سے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے یاد رہے کہ جنرل سرفراز نے ستمبر 2020 میں ریٹائر ہونا تھا تاہم جنرل ندیم رضا کے جوائنٹ چیف بننے پر فوجی روایات کے مطابق جنرل ستار کوفوری طور پر ریٹائر ہو جانا چاہیئے تھاجنرل سرفراز کے ریٹائرمنٹ نہ لینے کا مطلب صاف ہے کہ یہ جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ملک کے اصل اقتدار کی خاطر جرنیلوں کے درمیان ہونے والی جانے والی یہ جنگ ملکی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے،یہ جنگیں پچھلے ستر سالوں سے ہوتی آرہی ہیں لیکن ایسی لڑائیوں سے عوام کو ہمیشہ بے خبر رکھا جاتا ہے عوام کی توجہ بٹانے کے لیئے سیاسی مہروں کو پارلیمنٹ یا سڑکوں پر لڑایاجاتا ہے،کبھی دھرنے کروائے جاتے ہیں تو کبھی احتجاج اور اس کی آڑھ لے کر جرنیل درپردہ اپنی کاروائیاں کر گزرتے ہیں،یہ لڑائی پہلی مرتبہ 1958 میں لڑی گئی جب میجر جنرل اسکندر مرزا کو پستول دکھا کر جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا دس سال بعد جنرل یحیٰ کی قیادت میں فوجی جرنیلوں کے گروپ نے سیاسی چال چلتے ہوئے بار بار توسیع لینے والے جنرل ایوب کے خلاف چند سیاسی پارٹیوں کو استعمال کر کے احتجاج کروایا اور ''ایوب کتا ہائے ہائے'' کے نعرے لگوائے جس کی وجہ سے ایوب خان کی طبیعت ناساز ہوئی اور اس کو ہسپتال جانا پڑ گیاہسپتال میں جنرل یحی نے پستول دکھا کر جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا1988 میں بار بار توسیع لینے والے جنرل ضیاء کو اس کے مخالف جرنیلوں نے آموں کی پیٹی کی مدد لے کر اقتدار کے ساتھ ساتھ زندگی سے بھی محروم کر دیا آموں کی پیٹی جہاز میں کس نے رکھوائی یہ راز آج تک نہ کھل سکا2007 میں بالکل حالیہ دنوں جیسی لڑائی جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے گروپوں کے درمیان ہوئی جس میں جنرل کیانی نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو استعمال کرتے ہوئے جنرل مشرف کو بالکل بے بس کر دیا اور بعد میں جنرل کیانی نے جنرل یحی کی طرح پستول دکھا کر جنرل مشرف کو خاموشی سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیاجنرل سرفراز ستار گروپ نے جنرل کیانی گروپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ہمنوا چیف جسٹس آصف کھوسہ کی مدد سے جنرل باجوہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے جنرل سرفراز گروپ کی فتح اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کے زریعے دباؤ ڈلوا کر پارلیمنٹ کو فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی قانون سازی کرنے سے باز رکھ سکے اور عدالت کے فیصلے کے مطابق چھ ماہ بعد جنرل باجوہ کو الوداعی پارٹی دے کر رخصت کر دے یا پھر پارلیمنٹ کو آئین کی شق 243 میں ترمیم کر نے پر مجبور کرے اور فوجی سربراہ کی تعیناتی کو سینیارٹی سے مشروط کروا کر جسٹس کھوسہ کے ریٹائر ہونے سے پہلے آئین کی تبدیل شدہ شق پر عدالتی مہر بھی ثبت کروا لے اگر جنرل سرفراز فتح یاب ہوتا ہے تو موجودہ حکومت کی وفاداریاں اور تعبیداریاں خودبخود اس کی طرف ہو جائیں گی کیونکہ فوج کی مدد کے زریعے پکڑ دھکڑ کر بنائی گئی سیاسی پارٹی اقتدار کے لیئے ہمیشہ فوج کی مرہون منت رہے گی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ کے پاس اپنے بچاو کے کیا راستے ہیں؟ظاہر ہے موجودہ حکومت جنرل باجوہ کی تابعدار ہے اور وزیر اعظم وہی کرے گا جو باجوہ چاہے گا کیونکہ جنرل باجوہ نے ہی ان لوگوں کو اقتدار دلوایا ہے اب اگر جنرل باجوہ اپنا اثر رسوخ اور طاقت استعمال کر کے اپوزیشن پارٹیوں کو فوجی سربراہ کی ملازمت میں توسیع کا من پسند قانون پاس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور جسٹس کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف جسٹس پر دباو ڈال کر موجودہ عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دلوا دیتا ہے تو اس کو آدھی فتح نصیب ہو جائے گی،مکمل فتح اس صورت میں ممکن ہو گی کہ جنرل باجوہ کسی طرح جنرل سرفراز ستار کو ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دے اور اس گروپ میں شامل دیگر جرنیلوں کو مزید سازشوں سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جائے،ورنہ سیاسی افرا تفری پھیلا کر اور بعد میں پستول دکھا کر اقتدار چھین لیئے جانے کا خطرہ برقرار رہے گا۔اس جنگ میں کامیابی کس کو حاصل ہوتی ہے اس کا اندازہ فی الحال ممکن نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس بار جیتنے والے گروپ کے وارے نیارے ہو جائیں گے کیونکہ ایک کٹھ پتلی سولین حکومت اقتدار میں ہے اور یہ حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیئے جرنیلوں کے آگے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہے موجودہ سولین حکومت سی پیک ریکو ڈک اور انفراسٹرکچر کے ٹھیکوں سمیت ملک کے تمام وسائل اور ریٹائر جرنیلوں کی بحیثیت سربراہ تعیناتی کے زریعے ملک کے کم و بیش تمام اہم سولین اداروں کا کنٹرول فوج کے حوالے کر چکی ہے لہذا اقتدار کی یہ جنگ جیتنے والے جرنیل کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہونگی.اب دیکھنا یہ ہے کہ
وہ کون خوش نصیب ہو گا۔

 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 64251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.