مودی سرکار جارحانہ اور متعصبانہ رویے مسلمان دشمنی کی
آخری حدود کو چھو رہے ہیں تو دوسری طرف آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا ایشو
کھڑا کر دیتی ہے جس سے خطے میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد اب اس نے ہندوستان صرف
ہندوؤں کا کی سوچ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل
رجسٹر آف سٹیزن کے تحت وہاں کے مسلمانوں کو ریاست بدر کرنے کے لیے نیا
مسئلہ کھڑا کر دیا گیا۔
بھارت میں پہلی بار 1955ء میں شہریت کا قانون متعارف کرایا گیا تھا جس میں
مختلف حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئیں، اس قانون میں حالیہ
ترمیم کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی 6 اقلیتی برادریوں سے
تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، جن میں ہندو،
بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں۔
جسکے تحت 31 دسمبر 2014ء کے بعد بھارت آنے والے لوگوں کو شہریت نہیں ملے گی
تاہم ہندوؤں، بدھوں، سکھوں اور عیسائیوں کو اس ضمن میں استثنیٰ دینے کا
اعلان کیا، جس سے واضح ہو گیا کہ بل کا مدعامسلمانوں کو بھارت میں قبول
نہیں کیا جائے گا۔
بھارتی شہریت کے نئے قانون کی مخالفت کرنے والوں نے اسے آئین سے متصادم
قرار دیتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 اس طرح کے قانون
کی اجازت نہیں دیتے، جس میں بھارت کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا ہے۔
کانگریس نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں
مذہب کی بناد پر تفریق اور امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا، اس ترمیمی بل میں
مسلمانوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
بھارت میں 26 جنوری 1950ء سے نافذ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت جو شخص بھارت
میں پیدا ہوا، جس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھارت میں پیدا ہوئے یا
جس نے آئین کے نفاذ سے قبل 5 سال مسلسل یہاں قیام کیا وہ بھارت کا شہری
ہوگا۔
جبکہ آرٹیکل 14 اور 15 میں شہریوں کیلئے بلا تفریق مساوی حقوق اور ان کے
تحفظ کا ذکر ہے، آرٹیکل 15 میں مذہب، ذات پات، نسل، جنس، جائے پیدائش سمیت
کسی بھی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک کی بات کی گئی ہے۔
بھارتی قانون دان کے مطابق ترمیمی قانون میں 6 برادریوں کا ذکر اور
مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کرکے آئین سے انحراف کیا گیا۔ قانونی ماہرین کا
یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ بل کو قانونی شکل دیدی گء، یہ براہ راست مسلم
مخالف ہے اور آئین سے متصادم بھی۔
بھارتی کی انتہاء پسند بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات کا
سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے، رواں سال 5 اگست کو پہلے کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس
سے متعلق آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 میں ترمیم کی گئی، جس کے بعد آج
شہریت کے متنازع ترمیمی بل نیا معمہ بنا یا جا رہا ہے۔
اس بل کی سب سے متنازع بات جس پر سب سے زیادہ رد عمل سامنے آیا ہے وہ یہ ہے
کہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے، یعنی آئندہ ان ممالک سے بھارت
آنیوالے مسلمانوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
ہندوستان خصوصاً کشمیرمیں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ آج بھی مقبوضہ
کشمیر کے 90 لاکھ مسلمانوں کو 9لاکھ فوج یرغمال بنا کر اُن پر ظلم و ستم
ڈھا رہی ہے۔ جینوسائڈ (Genocide) کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم
کی نسل کشی کی تشریح کے 10 مراحل ہوتے ہیں۔ بھارت ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر
میں جینوسائڈ کے 9 مراحل مکمل کر چکا ہے۔
مذہبی آزادیوں پر امریکا کے وفاقی کمیشن نے شہریت کے بل کو ”غلط سمت میں
خطرناک قدم“ سے تشبیہ دی، تو اقوام متحدہ نے بھی اسے مسلمانوں کیخلاف
امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
بی جے پی حکومت کے متنازع بل کیخلاف بھارت بھر میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ
شروع ہے، چینئی، حیدرآباد سے لیکر کولکتہ اور پٹنہ سے لے کر پونے تک ہر جگہ
احتجاج کیا جارہا ہے، صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی اس بل کی مخالفت میں
سڑکوں پر نکل آئے ہیں، درجنوں مسلم طلبہ کے ساتھ ساتھ سابق آئی اے ایس کنن
گوپی ناتھ سمیت سیکڑوں افراد کو حراست میں لے کر اس ظالمانہ بل کو لاگو
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بھارت نے حال ہی میں ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن نافذ کیا یعنی
ریاست کے شہری کون ہیں، اس کی نشاندہی کرائی جس میں تقریبا 20 لاکھ افراد
بھارتی شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئے، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل
ہیں، تاہم رپورٹس میں اکثریت ہندوؤں کی بتائی جارہی ہے۔
ترمیمی بل کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہریت سے محروم ہونیوالے آسام کے
ہندوؤں کو شہریت مل جائے گی لیکن برسوں سے وہاں آباد مسلمانوں کو محض
دستاویزات کی کمی کے سبب غیر شہری، غیر ملکی، غیر قانونی در انداز قرار
دینے کے ساتھ ساتھ کیمپوں میں رکھا منتقل کیا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں ایک
بڑے انسانی المیے کا جنم لینا طے ہے۔ بل کا غلط استعمال حقیقی طور پر صرف
مسلمانوں کیخلاف ہوگا کیونکہ وزیر داخلہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ پورے ملک میں
این آر سی نافذ کریں گے، اس رو سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تو شہریت مل
جائے گی لیکن بھارتی مسلمان شہریت سے محروم ہوجائیں گے۔
بھارت میں کئی طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے ٗ پہلے کشمیر میں
مسلمانوں کا قتل عام ہوا، پھر بابری مسجد کا غیر منصفانہ فیصلہ سامنے آیا،
اب یہ متنازعہ شہریت بل اور اُس کے اوپر احتجاج کرنے پر پولیس کا شدید
لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کے بعد مسلمانوں کا پیمانہ صبرلبریز ہو رہا۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی ایک واضح اکثریت بھی اس بل کے خلاف ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ بل سے جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان
کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے وہیں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں رہنے
والے ہندو بھارت کا رُخ کر لیں گے جس سے بھارت میں غیر قانونی تارکین وطن
کا سیلاب آ جائے گا۔ جامعہ ملیہ، لکھنو میں ندوۃ العلما کالج کے علاوہ
بنارس میں ہندو یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احتجاج میں حصہ لیا۔ چندی گڑھ میں
پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے اس کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی۔ بمبئی، پونہ،
احمد آباد، جے پور میں بھی طلبہ نے اس قانون کے خلاف ریلیاں نکالیں۔ انڈیا
ٹو ڈے کے مطابق احتجاجی مظاہرہ کی لہر بھارت کے 17 شہروں تک پھیل چکی ہے۔
ریاست کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ اور فوج گشت کر رہی ہے۔مغربی بنگال کے
دارالحکومت کولکتہ میں پندرہ بسوں اور دیگر شہروں میں کئی ریلوے سٹیشنوں
اور عوامی املاک کو آگ لگا دی گئی ہے۔ نئی دہلی میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں
میں پولیس کی بھاری نفری جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر طلبہ اور طالبات
پرتشددکرتی رہی۔ اس کے علاوہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ
مودی نے اپنے ہی عوام سے جنگ چھیڑ دی ہے۔ ایک ہندو طالب علم شری کمار
کاکہنا ہے کہ شہریت بل مسلمانوں اور بھارت کے سیکولر نظریے کے خلاف ہے۔
بایں ہمہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتہائی ڈھٹائی اور مسلمانوں کے
ساتھ نفرت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس شہریت بل کو ہزار فیصد درست قراردیا
ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بھارت کے اس متنازع شہریت بل کو بنیادی طور پر
مسلمانوں کے خلاف ایک امتیازی قانوں قراردیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین
الاقوامی مذہبی آزادی نے اس بل پرانتہائی تنقید کی ہے اور اس بل کو غلط سمت
میں ایک خطرناک قدم قرار دیا ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل گوگلمین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت سے
سخت مایوسی ملی ہے کیونکہ بھارت سیکولر ازم، کی روایات کو ظاہر طور پر ختم
کر رہا ہے۔ مودی سرکار کے اقدامات مسلم دشمنی میں خطہ پر امن کو داو پر
لگانے کے علاوہ،بھارت کے ٹوٹنے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔
|