جب سے رانا ثناءاللہ کے حق میں ضمانت کا فیصلہ آیا ہے،
عجیب سی کنفیوزن میں ہوں، سمجھ نہیں آ رہی کہ اس فیصلے کی حمائیت میں لکھا
جائے یا مخالفت میں ،عجیب سی کش مکش اور ذھنی خلفشار کا شکار ہوں-
یکم جولائی 2019 کو جب رانا ثناءاللہ کو ھیروئن سمگلنگ کے الزام میں پکڑا
گیا تو اس وقت بھی کئی دن تک ایسی ہی صورتِ حال اور گوناگوں کیفیت میں
مبتلا رہا،اس کی وجہ یہ تھی کہ میں 2018 کے الیکشنز سے پہلے اور بعد تک
عمران خان کا سخت ناقد رہا، اور بہت سارے لوگوں کی طرح یہ سمجھتا رہا کہ
خان صاحب ایک قول و فعل کے تضاد کا شکار شخصیت ہیں ،جو اپنے پیروکاروں کو
خوبصورت اور چکنی چپڑی باتوں میں بہلا پھسلا کر اور نام نہاد احتساب کا
نعرہ لگا کر اقتدار میں آنا چاھتے ہیں-
اس واقعے نے میرے اس تاثر کو زائل کرنے میں کافی مدد کی، اور ایک طرح سے
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا، کہ خان صاحب جس مافیا کا نام لیتے ہیں ، وہ اگر
واقعی ایسا ہے کہ رانا ثناءاللہ کی گاڑی سے 21 کلو ھیروئن برآمد ہوئی تو
یقیناً سچ ہے ،اور یہ حقیقت میں ایک بہت بڑا المیہ اور سانحہ بھی ہے، کہ
ایک ایسا شخص جو کئی کئی سال حکومت میں بڑی بڑی وزارتیں چلاتا رہا ،وہ ایک
منشیات فروش نکلا-
رانا ثناءاللہ کے گھر والے اور اس کی پارٹی کا موقف تو شروع سے ہی یہ تھا
کہ یہ سب جھوٹ اور من گھڑت کہانی ترتیب دی گئی ہے، اور یہ سارا ڈرامہ
اپوزیشن راہنماؤں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کے لئے رچایا گیا
ہے-اگرچہ ن لیگ کے خلاف کرپشن کے الزامات پر تو ان کے اس موقف کا کسی نہ
کسی حد تک میں حامی چلا آ رہا ہوں، کیونکہ پچھلی 72 سالہ پاکستانی سیاست
میں بحرحال ایسا ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے، کہ سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آنے
کے بعد پہلے والوں کو خزانے کے چور اور ڈکیت ثابت کرتی رہی ہیں- لیکن
کیونکہ اس طرح کا واقعہ ایک منفرد اہمیت کا حامل تھا اس لئے اس سلسلے میں
مکمل طور پر حکومتی موقف کا حامی اور کسی بھی طرح کا کوئی نرم گوشہ اپوزیشن
کے لئے نہ رکھتا تھا ، اور اس معاملے پر صاف،شفاف تحقیقات کے بعد کڑی سے
کڑی سزا کا بھی طالب تھا-
حکومتی حلقوں اور خصوصاً شہریار آفریدی جیسے ذمہ دار بندے نے اس معاملے پر
جس قدر پراعتماد انداز اپنایا اور اس واقعے کو حقیقت ثابت کرنے کے لئے جس
قدر ٹھوس اور مدلل ثبوت دینے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے اور جس طرح
سے اللہ ، رسول کی قسمیں کھائیں، اس سے یہ یقین مزید پختہ ہو گیا کہ رانا
ثناءاللہ جس طرح کی شباہت رکھتا ہے، یقیناً یہ بڑے مافیاز کا ہی کارندہ ہو
گا ،اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ کیس میرے نظریات و سیاسی عقائد کا ضرور
ٹرننگ پوائنٹ ہو گا، اور میں برملا اس بات کا اعتراف کروں گا کہ میں اب تک
غلط لوگوں کی طرف داری کرنے کے گناہ میں ملوث رہا، اور کئی بار خود سے بھی
یہ عہد کیا، کہ جس روز بھی رانا ثناءاللہ پر یہ جرم ثابت ہوا ، اسی روز نہ
صرف اس گناہ سے توبہ کروں گا،بلکہ اس مافیا کو کھل کر بے نقاب کرنا فرض عین
بھی سمجھوں گا-
اگرچہ یہ خبریں تو کافی دنوں سے چل رہی تھیں کہ رانا ثناءاللہ کے خلاف ابھی
تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ،بلکہ پچھلے دنوں سیف سٹی کیمروں
والی فوٹیج کا بھی چرچا رہا ،اور یہ تاثر عام ہوا کہ اس کیس سے کچھ نکلنے
والا نہیں، لیکن کل جب سے رانا ثناءاللہ کی ضمانت والی خبر سنی تو دوبارہ
اسی کیفیت کا غلبہ محسوس ہوا جو اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے کے فوراً بعد
تھی، ذہن میں بار بار ایک ہی سوال کلبلاتا رہا ، کہ کیا رانا ثناءاللہ پر
لگایا گیا الزام جھوٹا تھا؟ کیا یہ سارا ٹوپی ڈرامہ تھا؟ -
رات کو خبر آئی کہ کل شہریار آفریدی کوئی پریس کانفرنس کرنے والے ہیں ،دل
کو کچھ دلاسا دیا کہ شائد ججز نے کچھ زیادہ ہی لچک دکھائی ہے اور آفریدی
صاحب کل کوئی ثبوتوں کا پٹورا ضرور کھولیں گے، سارا دن خیالات اور نگاہوں
میں ٹی وہ سکرین کے متوقع مناظر گھومتے رہے ،جن سے اس تقویت پاتے بیانیے کے
بخئیے ادھڑنے والے تھے، کہ یہ سارا واقعہ جعلی،اور انتقامی کاروائی کا
شاخسانہ ہے، نیز یہ کہ کوئی حکومتی ذمہ دار شخصیت چاہے جتنی بھی جانبدار
کیوں نہ ہو کم ازکم اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتی کہ وہ اپنی جان اور ایمان
کی قسمیں کھانا شروع کر دے-کل دوپہر تک یہ یقین ہو چکا تھا کہ ایسا ممکن ہی
نہیں، اور یقیناً آج کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا-
شہریار آفریدی صاحب کی اس پریس کانفرنس کا مجھے ہی نہیں ان لاکھوں
پاکستانیوں کو بھی انتظار تھا، جو ملکی حالات پر پچھلے کئی سالوں سے تذبذب
اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھے، جو کبھی تو خوب صورت تقریروں کے سحر
میں گرفتار ہو کر خوابی اور کتابی باتوں پر ایمان لے آتے ،اور کبھی حکومتی
ناکامیوں اور نالائقیوں کے خلاف کوئی آواز نکالنے پر طعن وتشنیع کا نشانہ
بنائے جاتے- میری طرح کے یہ خاموش سامعین اور ناظرین اس وقت مجسم حیرت اور
انگشت بدنداں ہوئے ،جب موصوف وزیر پریس کانفرنس کے دوران نہ صرف موضوع سے
ہٹ کر اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگے ،بلکہ وہی پرانا گھسا پٹا کرپشن اور
چوریوں والا راگ الاپنا شروع کر دیا، اور پوری پریس کانفرنس میں سے ایک ہی
متعلقہ بات نکلی کہ میں نے کسی ویڈیو کا نہیں بلکہ لفظ "فوٹیج" کا تذکرہ
کیا تھا-
موصوف وزیر صاحب کی اس پریس کانفرنس سے سخت مایوسی ہوئی، اور اس بچی کھچی
امید نے بھی دم توڑ دیا کہ اپوزیشن کا واویلا محض مرے ہوئے سانپ کے بل
کھانے کے مترادف ہے،اور انتقامی کاروائی کا ڈھنڈورا ضرور جھوٹا ثابت ہو
گا،لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا....مزید یہ کہ اس تاثر کو اور تقویت ملی
کہ اپوزیشن رونے پیٹنے میں حق بجانب ہے-
لیکن اب یہ الجھن اور مخمصہ صرف میرا ہی نہیں ان لاکھوں سنجیدہ اور غیر
جانبدار ذہنوں کا بھی ہے کہ اس پس پردہ سیاسی دنگل کے فریقین میں سے حق پر
کون ہے اور باطل کون؟چونکہ نظامِ فطرت کے عین مطابق باہم متصادم دو طاقتوں
میں سے ایک حق پر ضرور ہوتی ہے اور دوسری ضرور باطل ، تو پھر وہ کون سا
معیار اور کسوٹی ہے جس سے جھوٹ اور سچ کی نمائندہ قوتوں کا تعین کیا جائے؟
ہر بریکنگ نیوز کو ملکی ابتری اور دگرگوں حالات میں بہتری کے لئے ایک
خوشگوار ہوا کا جھونکا سمجھنے والے یہ معصوم صفت یہ بھی پوچھتے ہیں کہ
باہمی تنازعات اور آپسی جھگڑوں کا موسم آخر کب ختم ہو گا؟
یہ اور اس طرح کے کئی اور سوالات پچھلے 70 سالوں سے ان پرامن ،محب وطن اور
غیر جانب دار حلقوں کی جانب سے اٹھتے آئے ہیں ،جو اس سلطنت خداداد کو پرامن
،مستحکم، اور اس کی سںیاسی ،فکری اور نسلی اساس کو مضبوط دیکھنے کے خواہاں
ہیں ، اور موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں اس امر کے متقاضی ہیں کہ اس
مملکت خداد کو طاقت و اختیار کی چھینا چھپٹی کے بجائے اس کی بنیادوں کو ان
اصولوں اور قاعدوں پر استوار کیا جائے جن کا تعین بانی پاکستان اور ان کے
رفقاء نے کیا تھا-اور ملکی سیاسی فضاء کو خوشگوار، پاکیزہ اور صاف ستھرے
ماحول میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے، جس میں کسی بھی طرح کے فکری اور
نظریاتی اختلاف کو مثبت، بااصول اور باضمیر لہجے اور پیرائے میں بیان کرنے
کا رواج ہو -اور اس طرح کی عجلت، بدحواسی اور بدعہدی کی حوصلہ شکنی ہو ،جس
سے اپنے اختلافی موقف میں جان پیدا کرنے کے لئے اللہ و رسول کی قسمیں کھانی
پڑیں- |