ہندو دیش کا شہریت بل

اس وقت پورے ہندوستان میں طوفان آیا ہوا ہے۔بھارت کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں مظاہرے، جلوس ، دھرنے نہ ہو رہے ہوں۔ نئے شہریت بل کے خلا ف عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ حکومت اپنی ریاستی طاقت کے بل بوتے پر ان مظاہروں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن عوام کو جتنا دبایا جا رہا ہے وہ اتنی شدت سے تیز ہوتے جارہے ہیں۔ دراصل یہ مودی حکومت کے ظلم و جبر اور ایک سیکولر ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کی کوشش کے خلاف عوامی نفرت کا اظہار ہے۔ شہری ترمیمی بل (کیب) 2019ء بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ایک ایسا تیارکردہ پھندا ہے جو ــ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی کو عملی جامامہ پہنانے کے لئے لایا گیا ہے۔ یہ بل سراسر فرقہ وارانہ عصبیت پر مبنی بلکہ ہندوستانی سیکولر جمہوری دستور کے منافی ہے۔واضح رہے کہ حالیہ شہریت بل آئین ہند کی دفعہ 14اور15سے کھلم کھلا متصادم ہے۔ دفعہ 14 کے تحت مملکت ہند کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانونی مساوات اور تحفظ سے محروم نہیں کرے گی، دفعہ 15مذہب، نسل، ذات، جنس اور جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت ہوگی۔ کیب یا شہریت ترمیمی بل ایک نیا قانون ہے جس کو بی جے پی حکومت نے شہریت ایکٹ 1955ء میں ترمیم کرتے ہوئے19 جولائی2016ء کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا۔سابق وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ذریعہ اس بل کو متعارف کرانے کے بعد آٹھ جنوری 2019ء کو مذکورہ پاس ہو گیاتھا لیکن قانونی شکل اختیار کرنے کے لیے اس بل کو راجیہ سبھا سے بھی پاس ہونا تھامگر 3جون2019ء کویہ بل ناکام بنادیاگیا کیونکہ بی جے پی حکومت کے پاس اس وقت ایوان بالا میں ممبران کی مطلوبہ تعداد نہیں تھی اب حالیہ بھارتی الیکشن میں بی جے پی نے ایک نبار پھر اقتدار میں آتے ہی اپنے دستور کی دھجیاں اڑا دیں اب کی بار راج ناتھ سنگھ کی جگہ امت شاہ وزیر داخلہ کے عہدے پر ہیں۔ بی جے پی کابینہ نے ایک بار پھر دسمبر2019ء کو شہریت ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی اور نودسمبر بلاآخر لوک سبھا سے باآسانی منظوری مل گئی۔ اس بل کو راجیہ سبھا میں گیارہ دسمبر2019ء کو پیش کیا گیااور ہندوستان بھر میں لاکھو ں مخالفت اور بالخصوص پورے شمال مشرق میں پر تشدد احتجاج مظاہروں، دھرنو ں، جلوسے جلوسوں کے باوجود مودی حکومت ایوان بالا سے بھی پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ مودی حکومت نے اپنے دوسرے ٹرم کے پہلی چھ ماہی میں جس طرح سے لوگوں اور ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو ڈرادھمکا کرآئین و دستور کا مذاق اڑایا ہے اسے تاریخ کا سیاہ باب ہی کہا جا سکتا ہے۔پہلے آرٹیکل 370 کی منسوخی پھر طلاق ثلاثہ بل اور اب شہریت بل، بابری مسجد کا سانحہ الگ، اس کے علاوہ ہجومی تشدد اور این آرسی جیسے معاملات میں عوام کو الجھا کر اورا ہم معاملوں سے عوام کی توجہ ہٹانا جہاں مودی حکومت کے اصلی چہرہ کو بے نقاب کرتا ہے وہیں برسوں سے چھپے مقاصد کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس لئے کہ آر ایس ایس جیسی متشدد تنظیم جو خود کو مذہب کے لبادے میں ملوس کئے ہوئے ہے اس کی دیرینہ خواہش ہی یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ بی جے پی پورے عزم کے ساتھ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانا چاہتی ہے اور بھارتی مسلمانوں کو یہ باور کرادیاگیاہے کہ آپ دوسرے درجے کے شہری ہیں آپ کے لئے الگ قانون ہوگا ہندوؤں کے لئے الگ کیا قائداعظم کے نظریات درست ثابت نہیں ہوئے۔ ایسا خطرناک کالا قانون لوک سبھا سے لیکر راجیہ سبھا تک بی جے پی بغیر کسی دقت مشقت کے پاس کروانے میں کامیاب ہوگئی گویا کہ سیکولرازم کے منہ پر بھرپور طمانچہ لگا لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی سیکولر پارٹیوں کو جس انداز میں نظر آنا چاہیے تھا نظر نہیں آرہی ہاں ہندوستان میں اس انتشاری بل کے خلاف مظاہرے ضرور ہورہے ہیں۔ علی گڑھ یونیوسٹیوں کے طلبہ و طالبات بھی سڑکوں پر ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مظاہروں میں مجموعی طور پر انصاف پسند ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ مسلمان سہمے، ڈرے اور خوف زدہ ہیں اور اس بات کی تائید خود امریکہ نے کی ہے ۔ امریکہ نے اس سارے عجیب و غریب صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ بل راجیہ سبھا سے پاس ہو جاتا ہے تو محرک بل اور ذمہ داران پر پابندیاں عائد کر دیں گے امریکی کمیشن کو اس بات کا شدید احساس ہو چکا ہے کہ یہ بل ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو عمداً نقصان پہنچانے کی غرض اور نیت سے کیا جارہاہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں دلت سماج تقریباً 35سے40کروڑہیں اور ان کا مذہب ہندو نہیں ہے۔ ملک کا حکمراں ٹولہ وقت ضرورت ان کو کبھی ہند بنادیتا ہے تو کبھی دلت، اس طریقے اس طبقہ کا ستر سال سے استحصال ہوتا آرہاہے۔ جب مسلمانوں سے لڑائی کرنا ہو تو یہ طبقہ ہندو بن جاتا تھا ۔ حکمران یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی تعداد سوکروڑ ہے۔ ملک کا برہمن، چھتری، ویش یہ سب ملا کر تقریبا! تین فیصد ہیں اور شودر ان سے الگ ہیں ان کا مذہب ہندو نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں اس کے بعد سکھ، عیسائی، پارسی اور جین ہیں ہندوستان میں ہمیشہ اکثریت اور اقلیت کا ڈرامہ کیا جاتا ہے تاکہ تین فیصد طبقہ کو غالب رکھا جائے۔ ہندوستان کے دلت اور مسلمان اپنے تحفظ کے لئے ایک ہوجائیں اور محنت کشوں کی آواز بن جائیں تو بھارت میں موجود گماشتہ سامراجی ایجنٹ راہ فرار حاصل کرتے نظر آئیں گے۔ یہ بی جے پی ٹولہ تحریک آزادی کے وقت انگریزوں کی غلامی نوکری میں مصروف عمل تھے آزادی میں بھی یہ شامل نہیں تھے اور نہ ہی ان کو آزادی سے کوئی دلچسپی تھی اب اس ٹولہ کو فکر صرف ہندو اسٹیٹ بنانے کی ہے۔ وہ اپنی اس ناجائز کوشش میں ملک کو مزید تقسیم کر دیں گے۔۔۔۔۔

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 22242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.