کیا زیادہ کھانے سے آپ کے معدے کا حجم بڑھ سکتا ہے؟

کھانے کے ساتھ پیٹ کے سائز کا رشتہ
بھوک کے احساس کی کیا وجہ ہے؟
کچھ کرتے ہوئے کھانے کی عادتیں


کیا زیادہ کھانے سے آپ کے معدے کا حجم بڑھ سکتا ہے؟

تہوار کے موسم میں ہم خوب کھاتے ہیں۔ انواع و اقسام کے کھانے بنانے اور کھانے کا چلن عام ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں دعوتیں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے دسترخوان سجتے ہیں۔

لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت ساری چیزیں کھانے کے بعد بھی ہمیں بھوک محسوس ہوتی ہے۔

کیا آپ نے بھی کبھی ایسا ہی محسوس کیا ہے؟ کیا آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اتنا کھانا کھانے کے بعد بھی آپ کو بھوک کیوں محسوس ہوتی ہے؟

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ کھانے سے ان کے پیٹ کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ زیادہ بھوک محسوس کرتے ہیں۔

لیکن ان سوالوں کا یہ جواب درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم زیادہ کھاتے ہیں تو ہمیں مزید بھوک لگتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ اگر ہم کھاتے ہیں یا اس کے برعکس ہمارا معدہ خالی ہوتا ہے تو ہمارے پیٹ کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ جب کھانا ہضم ہو رہا ہے تو ہمارا پیٹ سکڑتا ہے تاکہ وہ کھانے کو آگے بڑھا سکے۔ جب پیٹ یہ کا کر رہا ہوتا ہے تو گڑگڑاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھوک کی پہلی علامت ہے۔ اس کے بعد معدہ کھانے کی آمد کے انتظار میں بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ کام ہارمونز کرتے ہیں۔

کھانے کے ساتھ پیٹ کے سائز کا رشتہ
ان سب باتوں کو باوجود یہ سچ نہیں ہے کہ کھانے سے معدے کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا معدہ بہت لچکدار ہے۔ جب ہم زیادہ کھاتے ہیں تو اس کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ کھانا ہضم ہونے کے بعد یہ سکڑ جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ زیادہ تر لوگوں کے معدے کا سائز کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے۔ لمبائی اور موٹائی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

بھوک کی حالت میں ہمارے معدے سے گھریلن نامی ہارمون نکلتا ہے۔ یہ دماغ کو بھوک کا پیغام دیتا ہے جس کے بعد ہمارے دماغ سے NPY اور AGRP نامی دو ہارمونز نکلتے ہیں۔ اور انھی کی وجہ سے ہمیں بھوک محسوس ہوتی ہے اور یہ پیٹ بھرا ہونے کے احساس پر بازی لے جاتے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موٹے لوگوں کے مقابلے میں دبلے پتلے لوگوں میں گھریلن ہارمون زیادہ نکلتا ہے۔ شاید آپ کا یہ خیال ہو کہ بھوک لگانے والا ہارمون ان لوگوں میں زیادہ پیدا ہوتا ہوگا جو زیادہ کھاتے ہیں، مگر یہی تضاد ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا اینڈوکرائن سسٹم یعنی ہارمونز کا نظام کس قدر پیچیدہ ہے۔

بھوک لگنے کے لیے انھی تینوں ہارمونز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں کھانے سے آسودگی کا احساس کروانے کے لیے کم از کم ایک درجن ہارمونز کو کام کرنا ہوتا ہے۔ جیسے GIP اور GLP1 کاربوہائیڈریٹ کے انہضام کو کنٹرول کرنے والے مادے انسولین کے اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ بعض ہارمونز ہمارے معدے سے کھانا گزرنے کی رفتار دھیمی کرتے ہیں تاکہ معدہ کھانے کو ہضم کر سکے۔

موٹاپے کے شکار وہ لوگ جن میں گھریلن کم پیدا ہوتا ہے، ان میں ایسا ہوسکتا ہے کہ زیادہ کاربوہائیڈریٹس والی غذا کو ہضم کرنے والی انسولین کی بلند مقدار گھریلن کی پیداوار کو روک رہی ہو۔
بھوک کے احساس کی کیا وجہ ہے؟
دو ہارمونز CKK اور PYY بھوک کے احساس کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں معدے کا سائز سکیڑنے کے لیے گیسٹرک بینڈ لگایا جاتا ہے، ان میں بالخصوص PYY زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔

اس سے بھوک میں کمی ہوجاتی ہے۔

ویسے تو آپ کے معدے میں اس طرح بھوک کا احساس کروانے کے لیے ہارمونز کا نظام موجود ہوتا ہے، مگر اس کے ساتھ دن اور رات کے وقت جب بھی ہم کھانا کھاتے ہیں اسے بھی ہمارا دماغ یاد رکھتا ہے اور پھر اسی حساب سے ہمیں بھوک لگتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے دوپہر کے وقت شکم سیر ہو کر کھانا کھایا ہے تو بھی رات کے کھانے کے وقت آپ کو بھوک کا احساس ہوگا۔

اگر آپ ٹی وی دیکھتے وقت کچھ کھاتے ہیں تو یہ عادت بھی آپ کے ذہن کو یاد رہتی ہے۔ پھر اگر آپ بھرپور کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنے بیٹھیں تو آپ کو کچھ کھانے کا چاہتا ہے۔

کچھ کرتے ہوئے کھانے کی عادتیں
نیدرلینڈز کی ماسٹریخ یونیورسٹی کی کیرولین وان ڈین ایکر کا کہنا ہے کہ زیادہ کھانا کوئی بری چیز نہیں ہے۔ لیکن کچھ خاص کام کرتے ہوئے کھانے کی عادات ایسی ہیں جن سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔

جب ہم کسی کھانے سے پیدا ہونے والے خوشی کے احساس کو مخصوص اوقات، خوشبوؤں، نظاروں اور رویوں سے منسلک کرنا سیکھ جائیں تو اس احساس کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اور ہمیں بھوک لگنے لگتی ہے۔ اس سے ہمارے جسم میں بھی بدلاؤ آتے ہیں جیسے کہ رال ٹپکنی شروع ہو جاتی ہے۔

پاولوف نامی سائنسدان نے کتوں پر ایسا ہی تجربہ کیا کہ گھنٹی بجنے کے بعد کتوں کو کھانا دیا جانے لگا۔ بعد میں دیکھا گیا کہ گھنٹی بجتے ہی کتوں کے رال نکلنے لگتی تھی۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہم بھی اس معاملے میں ان سے مختلف نہیں ہیں اور یہ بات بہت سے تجربات سے ثابت ہوچکی ہے۔ کیرولن ایکر کہتی ہیں کہ یہ عادت ایک دو گرام چاکلیٹ کھانے سے بھی بن سکتی ہے۔ اگر آپ ہر روز مقررہ وقت پر چاکلیٹ کھائیں تو صرف چار دنوں کے بعد آپ کا جسم اس وقت کا انتظار کرنے لگتا ہے۔

زیادہ کھانے کی وجوہات
بہت سے لوگ اس وقت بھی زیادہ کھانا کھاتے ہیں جب وہ خراب موڈ میں ہوں یا تھکے ہوئے ہوں۔ دراصل اس وقت لوگوں کے جذبات کھانے سے جڑ جاتے ہیں۔


اصولی طور پر بعض اوقات ہمارا بہتر موڈ بھی ہمیں زیادہ کھانے کی طرف راغب کرتا ہے۔ جیسے جب ہم دوستوں یا اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہم زیادہ کھاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ رہنے کی خوشی میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کتنا کھا رہے ہیں۔ شکم سیری کا احساس جلد نہیں ہوتا۔

یہ معلومات کھانے کی بری عادتوں سے نجات دلانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

کیرولن کہتی ہیں کہ ’جب ہم لوگوں کی خوراک کم کرنے میں ان کی مدد کررہے ہوتے ہیں تو ہم ان سے کھانے کی پرانی عادات سے نجات پانے کے لیے کہتے ہیں۔ پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر انھیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے روز بھی وہی کھائیں۔‘

کیونکہ اکثر مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک اچھی عادت سے ایک مرتبہ چھٹکارا پانا ایک دوسری بری عادت کی گرفت میں چلے جانے کے لیے کافی ہے۔

لہٰذا ہمیں شاندار دعوت اڑانے کے بعد اگر بھوک لگے تو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خاص مواقع پر زیادہ کھانے کے عادی ہیں۔ لہٰذا ہمارا دماغ اشارہ ملتے ہی بھوک والے ہارمونز چھوڑنے کی ہدایت کرتا ہے۔

لہٰذا اب اگر آپ بڑی دعوت اڑائيں اور بھوک لگے تو یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا پیٹ بڑھ گیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں خصوصی مواقع پر زیادہ کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔


 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

M usman
About the Author: M usman Read More Articles by M usman: 18 Articles with 43062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.