انڈیا میں مسلم دشمنی پر مبنی شہریت قانون سی اے اے اور
این آر سی کے خلاف زبردست مظاہرے جاری ہیں۔جب کہ بھارت نے جنگی جنون پیدا
کیا ہے۔ آزاد کشمیر پر گولہ باری اور آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مگر پاک
فوج اور یہاں کے عوام تیار ہیں۔بھارت کی کسی مہم جوئی کے سنگین نتائج نکل
سکتے ہیں۔ادھر ممبئی میں ہونے والے احتجاج کو ’انقلاب مورچہ‘ کا نام دیا
گیا، جس میں دہلی اور اترپردیش سے آئے ہوئے طلبہ بھی شامل ہورہے ہیں۔ اس
میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیز اور آئی آئی ٹی ممبئی کے طلبہ بھی
ہیں۔اس مظاہرے میں بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ رِچا چڈھا کے ہاتھ میں ایک
پلے کارڈ دیکھا گیا۔ اس پلے کارڈ پر لکھا تھا ’’اب کی بار، پیار ہی
پیار‘‘۔مگر بھارت میں مسلمانوں کے لئے کبھی بھی کسی حکومت نے پیار نہ
دکھایا۔ شہریت ترمیمی قانون سے صرف مسلمانوں کو یا غیر قانونی طور پر انڈیا
میں جاکر رہنے والوں کو ہی پریشانی نہیں ہوگی بلکہ ایک عام آدمی بھی
دستاویزات کی درستی کیلئے بھاگ دوڑ کرتا رہے گا ۔مظاہروں میں جو نعرے لگ
رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں،’’بسمل کی آزادی، اشفاق اﷲ خاں کی آزادی، ہم لے
کے رہیں گے آزادی‘‘،’’جامعہ تیرے جذبے کو سلام‘‘،’’مودی۔ شاہ مردہ
باد‘‘،’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے
قاتل میں ہے‘‘۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کے سربراہ اوربھارتی آئین کے بابا ڈاکٹر
امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر بھی مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ پرکاش
امبیڈکر خبردار کر رہے ہیں کہ آج اس قانون کی مخالفت کرو یا پھر کل ڈٹینشن
سینٹر جانے کیلئے تیار رہو! پرکاش امبیڈکر نے اعداد وشمار کے ذریعے وضاحت
کر رہے ہیں کہ این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے سبب مسلمانوں کے علاوہ
کم سے کم 40 فیصد ہندو متاثر ہوں گے۔قبائلی اور نچلے طبقہ کے لوگ اس سیاہ
قانون کی زد میں زیادہ آئیں گے۔ معاملہ ہندو مسلمان کا نہیں بلکہ آر ایس
ایس شہریت بمقابلہ آئینی شہریت ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے لوگ بھی مظاہروں
میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق جس سماج سے ہے ،اس کی
حالت بنجاروں سے بدتر ہے۔ سارے لوگ خانہ بدوش کی زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں۔ وہ امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین سے چھیڑ چھاڑ کرنے والی حکومت کا تختہ
پلٹنے کے بعدہی چین وسکون سے بیٹھیں گے۔
دہلی وقف بورڈ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران
پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونے والے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے خاندان
کو اقتصادی مدد کے طور پرپانچ پانچ لاکھ روپے فراہم کرنے کا اعلان کر رہا
ہے۔ بورڈ کے چیئرمین امانت اﷲ خان نے میرٹھ میں مظاہرہ کے دوران پولیس تشدد
اور بے قصوروں پرسفاکیت کی آنکھوں دیکھی داستان سنی۔ان داستانوں سے آنکھوں
میں آنسو آجاتے ہیں۔ 20سماجی کارکنان پر مشتمل وفد نے دہلی وقف بورڈ کو
بتایا کہ مظاہرہ کے دوران پولیس نے سیدھے گولی چلائی اور جو لوگ گولی سے
مارے گئے ہیں، ان کے سینے،گردن یا پھر سر میں گولی لگی۔5 نوجوانوں کی موقع
پرہی شہادت ہوگئی جبکہ ایک کو زخمی حالت میں دہلی اسپتال میں بھرتی کرایا
گیا جہاں اس نے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا۔ پولیس نے بلا اشتعال
لاٹھی چارج کیا اور مظاہرین پر سیدھے گولی چلائی درجنوں زخمی حالت میں
ہیں۔وفد کے مطابق ڈر اور خوف کی وجہ سے زخمیوں کی صحیح تفصیل سامنے نہیں
آرہی ہے اور لوگ اپنا علاج بھی چھپ چھپاکر کرارہے ہیں کیونکہ پولیس
اسپتالوں پر بھی چھاپے مار رہی ہے اور جو زخمی ہیں ان کے خلاف مقدمات درج
کر رہی ہے۔سیکڑوں مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کیا ہے اور بہت سارے لوگوں
پر مقدمات قائم کئے جارہے ہیں جس سے لوگوں میں مزید دہشت پیدا ہوگئی ہے۔
اُترپردیش پولیس کس کے احکام پر غضب ڈھا رہی ہے اور اس کے ذریعہ کون کیا
سمجھانے کی کوشش کررہا ہے، یہ نہایت آسان سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے
کیلئے کسی سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے۔ ریاستی پولیس گزشتہ دو سال سے
’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کے طور پر دیکھی جارہی تھی۔ حالیہ تلنگانہ انکاؤنٹر کے
بعد جب مایاوتی نے اسے ’’غیرت دلانے‘‘ کی کوشش کی تو اس نے اپنے ٹویٹر
اکاؤنٹ سے چند اعدادوشمار جاری کئے اور جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یوپی
پولیس گزشتہ دو سال میں 5 ہزار ایک سو78 ’’پولیس انگیجمنٹ‘‘ سے گزرچکی ہے۔
انگیجمنٹ کا مطلب انکاؤنٹر ہی ہے۔ یوپی کے مختلف شہروں میں حالیہ مظاہروں
کے دوران ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں20 افرادشہید ہوئے ہیں۔ وہ تصویریں
اور ویڈیو منظر عام پر آچکے ہیں جن میں پولیس کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا
جاسکتا ہے۔ بجنور پولیس نے پہلی بار تسلیم کیا کہ پولیس نے گولی چلائی اور
اس کا جواز یہ پیش کیا کہ ایسا سیلف ڈیفنس میں کیا گیا۔کئی ویڈیوز منظر عام
پر آرہے ہیں جن میں پولیس کو گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
پولیس مسلمانوں کے گھروں کے باہر کھڑی گاڑیوں اور املاک کو بھی تباہ کر رہی
ہے۔ گھروں کو لوٹا جا رہا ہے۔یو پی کے شہر مظفرنگر میں ہونے والی اس تخریب
کاری کے دوران ایک مسجد کی کھڑکیاں بھی توڑی گئیں جبکہ جن لوگوں کے گھرزد
میں آئے اُن کا کہنا ہے کہ پولیس بے تحاشا اندر داخل ہوئی اور بے دریغ تشدد
کیا۔ اس نے سی سی ٹی وی کیمرے بھی توڑے۔ یو پی کے مظفر نگر میں 67 دُکانوں
کے سیل کئے جانے اور کئی افراد کو نوٹس دیئے جانے کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔
یہ کارروائیاں، بالخصوص، مظاہرین پر گولی چلانا، قانون سے بالاتر ہونے اور
’’سبق سکھانے‘‘ کی کارروائیاں ہیں، مگریو پی کی یوگی حکومت یہ نہیں بتاتی
کہ سبق کس بات کا سکھایا جارہا ہے؟ دراصل یہ سبق سکھانا نہیں، کسی سے
’’بدلہ لینے‘‘ اورمسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی ہے۔پولیس نے مظفرنگر
کے مظاہرین پر بھی مظالم ڈھائے۔ حاجی حامد80سالہ ضعیف ہیں،ان کو پولیس نے
بری طرح مارا پیٹا، پولیس والے رات میں آئے اور آتے ہی بس لاٹھیاں برسانے
لگے، ان کے پاؤں سوج گئے ہیں،ہاتھ پھٹ گئے ہیں، پورے گھر میں خون خون
ہوگیا۔ حاجی حامد نے روتے روتے شادی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا: سب کچھ لوٹ لیا،
میری بیٹی کی شادی طے تھی، جہیز کا سامان رکھا تھا،سب توڑ دیا، زیورات بھی
لے گئے۔ حاجی صاحب کی زخمی بیٹی رقیہ کے سَر پہ پٹی بندھی تھی، جسے بُری
طرح مارا گیا۔ حاجی حامد کے زخمی پوتے محمد احمد نے بتایا: میں9ویں جماعت
میں پڑھتا ہوں۔ پولیس نے میرے ہاتھ پیر توڑدیئے۔ میرے چچا کو بھی مارا
پیٹا۔ اس نے اپنے زخم بھی دکھائے۔اس وقت انڈیا کے مسلم آبادی والے علاقوں
میں حاجی حامدجیسی داستانیں سنی جا رہی ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے ایک فیکٹ
فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہاں جو پولیس ایکشن ہوا وہ سفاکی کے نقطہ
نظر سے کافی سنگین تھا۔ 24 دسمبر کو جاری کی گئی سول سوسائٹی کی اس رپورٹ
کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پولیس ایکشن جامعہ ملیہ سے زیادہ
سفاکانہ تھا۔ رپورٹ میں پولیس کے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں میں
ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیاہے۔ دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں سماجی کارکن
ہرش مندر نے ’دی سیج آف اے ایم یو‘(اے ایم یو کا محاصرہ) کے عنوان سے رپورٹ
جاری کرتے ہوئے بتایا کہ طلبہ سے کی گئی گفتگو کی بنیادپران کی ٹیم کو
معلوم ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ،ضلع انتظامیہ اوریوپی حکومت علی گڑھ کیمپس
اوراس میں رہائش پذیر طلبہ کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ پُر امن
مظاہرہ کرنے والے طلباء کے خلاف پولیس نے ’اسٹن گن‘کا استعمال کیا تھا جس
کا استعمال عام طورپرصرف دہشت گردوں اورخطرناک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف
کیاجاتا ہے۔ زخمیوں کواسپتال پہنچانے کے مقصد سے ایمبولینس کو بلایا گیا تو
پولیس اہلکاروں نے ایمبولینس پربھی حملہ کیا۔ پولیس نے ایمبولینس کے
ڈرائیوروں اورطبی اسٹاف کو بھی نشانہ بنایا اورانہیں زخمی طلبہ کے پاس نہ
جانے کی دھمکی تک دی جو پولیس اہلکار ان پر حملہ کررہے تھے وہ ’جے شری
رام‘کے نعرے بھی لگارہے تھے اوران کا رویہ بالکل ’مسلم مخالف‘ تھا۔ علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی زیادتیوں کی تحقیقات کرنے والی ٹیم31 ا راکین
پرمشتمل تھی۔ پولیس نے نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شناخت کو پامال
کیا بلکہ کیمپس میں طلبہ کو نشانہ بناکر حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی
بھی کی۔15دسمبرکو اے ایم یو میں شہریت ترمیمی قانون اوراین آر سی کے خلاف
کئے جانے والے مظاہروں پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں100طلبہ زخمی
ہوئے۔جن میں سے درجنوں کی حالت میڈیا نے نازک بتائی ہے۔ بھارت میں جیسے آگ
لگی ہے۔ قانون نافذکرنے والے ادارے کھل کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
حکومت پاکستان اور او آئی سی کو کھل کت کوئی موقف اپنانا ہو گا۔ مسلم دنیا
جیسے کہ مقبوہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش تھی ، ایسے ہی انڈیا
کے مسلمانوں پر منظم حملوں پر تماشہ دیکھ رہی ہے۔ بھارت توجہ ہٹانے کے لئے
آزاد کشمیر کی شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ جنگ جیسا ماحول قائم
کرنا چاہتا ہے۔ تا کہ اپنے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کر دے۔ مگر پاک فوج
اور یہاں کے عوام تیار ہیں۔ بھارتی مہم جوئی کا ردعمل تباہ کن ہو سکتا ہے۔
|