نیب کرپشن کے خلاف پاکستان کا قومی ادارہ ہے جو سابق صدر
جنرل ر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا، کرپشن کے خلاف نیب کی
کاروائیاں جاری ہیں، تحریک انصاف کی حکومت میں نیب نے اپوزیشن جماعتوں کے
قائدین کو کرپشن کیسز میں گرفتار کیا، اگرچہ تحریک انصاف کے رہنماوں کو بھی
گرفتار کیا گیا لیکن اپوزیشن کی تعداد زیادہ بنتی ہے، نیب نے سابق وزیراعظم
شاہد خاقان عباسی، سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور، حمزہ شہباز،مریم
نواز، احسن اقبال،مفتاح اسماعیل و دیگر کو گرفتار کیا،کچھ کی ضمانت منظور
ہو چکی اور کچھ کی ہو جائے گی، اپوزیشن جماعتیں نیب پر تنقید کرتی رہتی ہیں
اور ہمیشہ کرتی ہیں ،مریم اورنگزیب ہوں یا بلاول زرداری ان کی ہر میڈیا ٹاک
میں نیب کو نشانہ بنایا جاتا ہے،چیئرمین نیب کو بھی جب بولنے کا موقع ملتا
ہے تو وہ کھل کر بولتے ہیں، چند روز قبل چیئرمین نیب جسٹس ر جاوید اقبال کا
کہنا تھا کہ اب ہواوں کا رخ بدل رہا ہے جس کے بعد احسن اقبال کو گرفتار کر
لیا گیا، بلاول زرداری کو نوٹس بھجوا دیا گیا،اس بیان پر چیئرمین نیب کو
حمزہ شہباز نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہواوں کا رخ ابھی تک تو
اپوزیشن جماعتوں کی طرف ہے۔
ہواؤں کا رخ چیئرمین نیب تو نہ بدل سکے لیکن حکومت نے ہواؤں کا رخ بدل دیا
ہے،تحریک انصا ف کی حکومت نے نیب آرڈیننس 2019ء کو نافذ کر دیا ہے، آرڈیننس
کے تحت اب قومی احتساب بیورو کو 50 کروڑ سے زائد کرپشن اور سکینڈل پر ہی
کارروائی کی اجازت ہو گی۔ اس آرڈیننس کا نوٹیفکیشن وزارت قانون کی طرف سے
جاری کر دیا گیاہے،آرڈیننس کے مطابق ٹیکس، سٹاک ایکسچینج، آئی پی اوز پر
کارروائی کا اختیار فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو حاصل ہو گا، اسی طرح سرکاری
ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم کے بغیر کوئی منجمد نہیں کرسکے گا، نیب کو
کسی بھی کیس کی تحقیقات تین ماہ میں مکمل کرنا ہوگی اور اگر ایسا نہ ہوسکا
تو ملزم ضمانت کا حق دار ہوگا، اسی طرح امپورٹس، لیوی کے کیسز نیب کے دائرہ
اختیار سے باہر ہیں اور جاری مقدمات دوسری عدالت منتقل ہوں گے۔نیب آرڈیننس
کے نافذ ہوتے ہی سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی،درخواست
میں موقف اپنایا گیا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے،
ترمیمی آرڈیننس وزرا اور سرکاری افسران کی کرپشن کو تحفظ دینے کی کوشش ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کو فوری
معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔
اپوزیشن جماعتیں جو ہمیشہ حکومت پر تنقید کرتی ہیں اور چند روز قبل کچھ
آرڈیننس حکومت نے منظور کئے تھے جن کو اپوزیشن کے احتجاج کے بعد حکومت کو
واپس لینا پڑا تھا، اس نیب آرڈیننس پر بھی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر
شدید تنقید کی ،پی پی کے رہنما سعید غنی کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس صرف
تحریک انصاف کیلئے لایا گیا، یہ احتساب نہیں، احتساب کے نام پر انتقام ہے،
عدالتوں نے لیڈرشپ پر لگنے والے الزامات مسترد کئے۔ وزیراعظم نے کہا تھا
نیب قانون کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، آرڈیننس عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو
بچانے کیلئے لایا گیا، ان کے کچھ دوست نیب کے دائرے میں ہیں، نیب ترمیمی
آرڈیننس کے بعد اب وہ خوش ہوں گے، مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا
کہنا تھا کہ ہم نیب آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں، آرڈیننس کرپٹ حکومت اور
دوستوں کو این آر او دینے کی سازش ہے۔ وزیراعظم اپنی نالائق، نااہل اور چور
حکومت کی کرپشن چھپانے کے لئے نیب آرڈیننس لا رہے ہیں۔ عمران صاحب پشاور
میٹرو، مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر مقدمات میں نیب تفتیش رکوانے کے لئے
آرڈیننس لا رہے ہیں ؟ پشاور میٹرو کے ایک کھرب پچیس ارب کے کھڈے این آر او
پلس سے نہیں چھپائے جا سکتے۔اپنی کرپشن کو نیب آرڈیننس کے ذریعے چھپانا نیب
نیازی گٹھ جوڑ کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اگر چوری نہیں کی تو اپنی حکومت
کے کرپشن میں ڈوبے منصوبوں کی نیب انکوائری بند کرنے کے لئے آرڈیننس کیوں
لا رہے ہیں۔اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنونیئر اکرم درانی کا کہنا تھا کہ
وزیراعظم دوستوں کو بچانے کیلئے نیب آرڈیننس لائے، اس حکومت میں بجلی ہے نہ
گیس، صرف ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ہے، کوئی کھل کر بات کرے تو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ
جاتا ہے، اداروں کی آپس میں لڑائی نہیں چاہتے۔
اپوزیشن جماعتوں نے نیب آرڈیننس پر تنقید کی لیکن بعد میں صورتحال واضح
ہوئی کہ نیب آرڈیننس حکومت کی جانب سے اپنے لئے نہیں بلکہ اپوزیشن کے لئے
این آر او ہے جو حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو دیا ہے، وزیراعظم این آراو نہ
دینے اور میں نہیں چھوڑوں گا کے اعلانات تو کرتے رہے اور شاید پھر بھی کرتے
رہیں لیکن وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کو این آر او نیب آرڈیننس کی صورت
میں دے ہی دیا،حکومت کی طرف سے نیب میں کی گئی ترمیمی آرڈیننس سیاستدانوں
اور افسر شاہی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے، بڑے بڑے کرپشن کیسز
نیب اور احتساب عدالتوں سے دیگر اداروں اور اور کورٹس کو منتقل ہونے کا
امکان ہے۔ نیب آرڈیننس سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب، اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ
ن کے صدر شہباز شریف ان کے بیٹے حمزہ شہباز، سینئر لیگی رہنما خواجہ سعد
رفیق، پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما علیم خان، سبطین خان سمیت متعدد
افراد کو فائدہ حاصل ہو گا۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے سابق صدر آصف
زرداری، سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضاگیلانی مستفید ہو سکیں
گے۔ آصف زرداری کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس بھی ترمیمی آرڈیننس کے باعث غیر
موثر ہونے کا امکان ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد
حسن فواد، احد خان چیمہ، وسیم اجمل سمیت اہم بیورو کریٹس بھی مستفید ہوں
گے۔ نئے نیب آرڈیننس سے متروکہ وقف املاک بورڈ انوسٹمنٹ کیس میں آصف ہاشمی
کے بھی مستفید ہونے کا امکان پیدا ہو گیا، آشیانہ اقبال، صاف پانی کرپشن
کیس، پیراگون ریفرنس، پارک ویو سوسائٹی اور چنیوٹ کرپشن کیسز بھی منتقل
ہونے کا امکان ہے۔ لاہور پارکنگ کمپنی، لاہور ویسٹ مینجمنٹ، راولپنڈی ویسٹ
مینیجمنٹ کمپنی کے کیسز بھی منتقل ہونے کا امکان ہے، 56 کمپنیوں میں کرپشن
کے کیسز بھی منتقل ہو جائیں گے۔ 60 سے زائد ریفرنسز منتقل ہونے کا امکان
ہے، کیسز نیب اور احتساب عدالتوں سے ایف آئی اے، کسٹمز، ایکسائز اور اینٹی
سمگلنگ کورٹس کو منتقل ہوں گے۔نیب آرڈیننس یقینا اپوزیشن کے لئے خفیہ این
آر او تھا جو اب ظاہر ہو چکا اور وزیراعظم جن کو کرپٹ کہتے تھے ،کہتے ہیں
اور پھر بھی کہتے رہیں گے ان کو ریلیف دینے کے لئے آرڈیننس لاکر شاید غلطی
کر بیٹھے ہیں جس کا احساس انہیں بعد میں ہو اور وہ ایک بار پھر ماضی کی طرح
یوٹرن لیتے ہوئے اس آرڈیننس کو واپس لے لیں یا پھر اپوزیشن اس پر احتجاج
اور مسترد کرنے کی بجائے تسلیم کر لے کیونکہ اس میں فائدہ حکومت کا اکیلا
نہیں بلکہ اپوزیشن کا بھی ہے اور امید ہے کہ اپوزیشن رسمی احتجاج کے بعد
حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کر لے گی۔ |