۲۳ ستمبر ۲۰۱۹ کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے عزیز
دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈوبتی نیا ّ کو پار لگانے کی خاطر امریکہ کے ہیوسٹن میں
ایک عظیم مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’بھارت میں سب اچھا
ہے‘‘۔ہندی زبان میںیہ اعلان امریکیوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے لیے
تھا۔ ہندوستان میں چونکہ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اس لیے کسی ایک پر مودی
جی کو اطمینان نہیں ہوا۔ انہوں نے اس نعرے کو پنجابی ، تیلگو ، گجراتی،
اڑیہ ، کنڑ ، تمل اور بنگالی میں دوہرایا۔ نہ جانے کس جیوتش نے ان کو بتا
دیا کہ ڈھائی ماہ بعد پورے شمال مشرقی ہند میں آگ لگی ہوئی ہوگی اس لیے
آسامیتو دور اس خطے کی کسی زبان میں یہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس نجومی
کا اندازہ بھی غلط نکلا کیونکہ گوہاٹی کے شعلےفی الحال ملک کے طول وعرض میں
پھیل گئے ہیں۔
کشمیر کی دفع ۳۷۰ کو کالعدم قرار دے کر چونکہ مودی امریکہ گئے تھے اس لیے
انہیں علامتی طور پر کم ازکم کشمیری زبان میں بھی نعرہ لگانا چاہیے تھا
لیکن مثل مشہور ہے’ جیسا مالک ویسا گھوڑا، کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘ یعنی
جیسے مودی ویسے ہی ان کی تقریر لکھنے والے کوئی چائےوالاتو کوئی پکوڑے
والا۔ ان بیچاروں سے کیا توقع کی جائے؟ اُس وقت امریکہ اور یوروپ نے اپنے
شہریوں کو کشمیر جانے سے منع کررکھا تھا اور اب شمال مشرقی ہندوستا ن کے
لیے سفری انتباہ جاری کردیا گیا ہے ۔ ایسا کرنے والوں میں نہ صرف برطانیہ
اور امریکہ وکینیڈابلکہ اسرائیل وفرانس جیسے مودی جی دوست ممالک بھی شامل
ہیں ۔ یہ سفری پابندی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ بھارت میں کچھ بھی ٹھیک
نہیں ہے کیونکہ شہریت قانون میں ترمیم کی آگ نےپورے ملک کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا ہے ۔ اس طرح مودی جی کے دست راست شاہ جی کی ایک حماقت نے وزیراعظم
کے بیان کی عملاً غلط ٹھہرا دیا۔
شاہ جی نے اس بار پانسا تو بہت سوچ سمجھ کر پھینکا تھا لیکن داوں الٹا پڑ
گیا۔ وہخوش فہمی کا شکار تھے کہ اس قانون کے بننے سے سب کچھ بلےّ بلےّ
ہوجائے گا ۔ بھکت ان کی تعریف و توصیف میں ہمیشہ کی طرح آسمان سر پر اٹھا
لیں گے اور آئندہ صوبائی انتخاب کی راہ ہموار ہوجائے گی لیکن جن آسامی
باشندوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے یہ چال چلی گئی تھی وہ پہلے بپھرے اور جن
مسلمانوں کا پیمانۂ صبر عرصۂ دراز سے لبریز ہورہا تھا وہ بھی چھلک گیا ۔
فی الحال شاہ جیکا چہرہ اترا ہوا ہے ۔ان کی غلط فہمی دور ہورہی ہے۔ مکافاتِ
عمل کے ذریعہ ان کا حساب کتاب چکایاجارہا ہے ۔شاہ جی کی حالتِ غیر پر سورۂ
نور کی آیت38 صادق آتی ہے کہ :جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال
ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب ، کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا،
مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس
نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی‘۔
مودی جس ٹرمپ کی مشکل آسان کرنے کے لیے گئے تھے وہ بیچارہ بڑی مصیبت میں
پھنسا گیا ۔ ایوان نمائندگان نے مواخذے کی تجویز منظور کرلی۔سینٹ کی
ریپبلکن اکثریتاسے خارج تو کردے گی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ امیدوار بننے
اور انتخاب جیتنے میں دشواری پیش آئے گی۔ ٹرمپ کے انتظامیہ نے مشکل کی
گھڑی میں مودی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سرکردہ امریکی سفیر نے شہریت ترمیمی بل کے
نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ حکومت ہند
مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے آئینی عہد کی پابندی کرے گی۔‘امریکہ میں مذہبی
آزادی کے ادارے نے تو امیت شاہ کے امریکی دورے پر پابندی تک کی سفارش کردی
۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہایک زمانے تک وزیراعلیٰ مودی جس رسوائی کا
شکار رہے اب وہی ذلت وزیرداخلہ کا پیچھا کرنے لگی ہے لیکن موٹا دماغ اور
موٹی کھال والے سیاستدانوں کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بقول تحسین
دہلوی ؎
ہوئے ذلیل تو عزت کی جستجو کیا ہے
کیا جو عشق تو پھر پاس آبرو کیا ہے
امریکہ میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل گوگلمین نے مودی حکومت سے
سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے کیونکہ ہندوستان سیکولر ازم، جمہوریت اور پلورل
ازم (Pluralism) کی روایات کو علی الاعلان ختم کر رہا ہےنیز مختلف
دانشگاہوں کے ہندو مسلم طلباء، دانشوروں اور جامعہ ملیہ میں پرتشددپولیس
کارروائی کی شدید مذمت بھی کی ہے ۔ مائیک نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے
ہوئے سوال کیا کہ پولیس یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیمپس میں
کیوں داخل ہوئی۔متنازع شہریت بل پر امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے
تلقین کی ہے کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے۔ قدرت کا کرنا
دیکھیے کہ یہ نازک صورتحال ایک ایسے وقت میں رونما ہوئی جب وزیر خارجہ
مائیکل آر پومپیو ، امریکی وزیر دفاع مارک ٹی ایسپر کے ہمراہ، بھارت کے
وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی میزبانی
کررہے ہیں۔
امریکہ اور ہندوستان کے درمیان ٹو پلس ٹو وزارتی مکالمے کا اہتما م ہوتا ہے
جس میں خارجہ اور دفاع کے امریکی وزراء اورہندوستانی خارجہ اور دفاع کے
وزیر کی ملاقات ہوتی ہے ۔ اس اجلاس میں ایک طرف پومپیو امریکہ اور ہندوستان
کے درمیان دن بدن گہرے اور مضبوط ہونےوالےتعلقات کو سراہتے ہو کہہ رہے ہیں
کہ ’’ہماری دونوں جمہوریتوں کے درمیان امنگوں کے ایک نئے دور کے لیے میں پر
امید ہوں ‘‘ اور دوسری جانب ان کا محکمہ حکومتِ ہند پرتنقید کررہا ہے۔
پومپیو کے جواب میں وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے
کہا کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں کی حیثیت سے ہمارے خیالات میں
یکسانیت پائی جاتی ہے،‘‘لیکن شہریت کے متنازع قانون نے اس یکسانیت کا خاتمہ
کردیا ہے۔
اس موقع پر ہندوستانی نژاد ڈیموکریٹک رکن پارلیمان پرمیلا جے پال نے ایک
مجوزہ قرارداد میں بھارت سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو آزادی دی جائے
وہاںسے پابندیاں ختم کرکے انسانی حقوق کے مبصرین اور غیر ملکی
صحافیوںکودورے کی اجازت دی جائے۔پرمیلا کی اس حق گوئی سے وزیر خارجہ جئے
شنکر اس قدر بددل ہوئے کہ انہوں ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ اپنی ناراضگی
کا اظہار کرتے ہوے وزیر موصوف نے کہا کہ مجھے تجویز کا علم ہے ۔ ان کو صحیح
معلومات نہیں ہے اور مجھے ان سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ راہ فرار
اور اعتراف شکست ہے اس لیے کہ اگر کوئی نہیں جانتا توشتر مرغ کی مانندریت
میں چہرہ چھپانے کے بجائے اس سے ملنا چاہیے۔وزیر خارجہ کو یہ کہنا زیب نہیں
دیتا کہ جن کا ذہن بناہوا ہے ان سے ملنا نہیں چاہتے۔
اس دورے کے دوران جئے شنکر کی معمر ارکان کانگریس(پارلیمان) کے ساتھ ایک
نشست طے تھی لیکن وہ جے پال کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں
نےمدعوئین کی فہرست سے اپنی حکومت کے ناقد کو نکالنے پر زور لگایا اور جب
اس میں ناکام ہوگئے تو ازخود راہِ فرار اختیار کر لی ۔ اپنی حیثیت کو بھول
کر امریکیوں پر دباو بنانے والے وزیر خارجہ کو منہ کی کھانی پڑی ۔ پرمیلا
امریکہ میں رہنے والی ہندو ہے۔ اس اقدام نے حکومت ہند کے دیگر ممالک میں
رہنے والے ہندووں سے جتائی جانے والی ہمدردی کا مکھوٹا نوچ کر پھینک دیا ۔
پرمیلا سے بغض نے جئے شنکر کو ایوان کے خارجہ امور کی کمیٹی کے چیرمین
ایلیٹ اینجل کی ملاقات سے محروم کردیا۔جئے شنکر کا اڑیل پن اور عدم رواداری
جئے پال کے بجائےان کو مہنگی پڑی ۔
پرمیلا کی تجویز میں جموں کشمیر کے علاوہ ملک بھر کے مظاہرین اور زیر حراست
افراد کے خلاف طاقت کے بیجا استعمال سے منع کیا گیا ہے۔ جموں کشمیر میں زیر
حراست لوگوں کی رہائی مطالبہ ہے۔سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے کی آزادی
کی بحالی کی تلقین ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے
کارکنان کو جموں کشمیر و ملک کے دیگر حصوں میں بغیر کسی دباو کے آزادی کے
ساتھ کام کرنے دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی آخری تجویز میں
مذہبی تشدد اور اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی پرزور مذمت کی گئی ہے۔
اس طرح پاکستان ، افغانستان اور بنگلا دیش پر مذہبی عدم رواداری کاالزام
لگانے والا صیاد خودپرمیلا جے پال کے دام میں گرفتار ہوگیا ۔ جئے شیوشنکر
میں اگر ہمت ہوتی تو اس کی تردید کرتے لیکن انہوں نے اس آواز کو دبانے کی
کوشش کی ۔ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبیٹھ وارین نے اس رویہ کی سخت تنقید
کی۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ پہلے جن تجاویز کے حق میں صرف ۱۹ ارکان پارلیمان
کے دستخط تھے اس میں دس کا اضافہ ہوگیا اور اب وہ تعداد ۲۹ پر پہنچ گئی ۔
جئے شنکر کا کشمیر کے مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے بجائے پرمیلا کو
ہٹانے کا بہانہ بناکر فرار ہوجانا امور خارجہ میںمودی حکومت کی بدترین شکست
ہے۔ پرمیلا نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ اس سے پھر ایک بار
ثابت ہوگیا کہ حکومت ہند اپنے ناقدین کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس
رعونت نے ہندوستان کے برسوں کی محنت سے حاصل کردہ وقار کو خاک میں ملا دیا
ہے ۔امریکہ کے علاوہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکمتِ ہند کی
مذمت کرتے ہوے متنازع شہریت بل کو فرقہ وارانہ و مسلم مخالف قرار دیا۔اقوام
متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ہمیں تشویش ہے کہ
انڈیا کا نیا شہریت کا ترمیمی قانون بنیادی طور پر امتیازی سلوک پر مبنی
ہے‘۔ ساری دنیا میں وطن عزیز کے سمٹتے ہوئے اثرات پر قرآن حکیم کے سورۂ
رعدکی یہ رہنمائی دیکھیں: ’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین
پر چلے آ رہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ
حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے و الا نہیں ہے، اور
اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی‘‘ ۔
ٹرمپ کے بعد مودی جی کی سب سے گہری دوستی اسرائیل کے نیتن یاہو سے ہے۔ اس
سال فرینڈشپ ڈے کے دن یاہو نے مودی کو اپنی تصاویر کے ساتھ شعلے کا نغمہ
’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے ‘ روانہ کیا تھا۔فی الحال دونوں کے ستارے گردش
میں ہیں۔ دو مرتبہ انتخابی ناکامی کے بعد اب یاہو تین سنگین مقدمات میں
ماخوذ ہے جیل کے اندر اس کے خیر مقدم کی تیاری چل رہی ہے ۔ مودی کے دوستوں
کا یہ انجام دیکھ کر اب شاید ہی کوئی سربراہ مملکت ان سے دوستی کرنے کا
جوکھم لے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل غیر ملکی دورے تقریباً بند ہوگئے ہیں کسی
عالمی اجلاس میں شرکت کی بات الگ ہے۔ یوروپی ممالک کے علاوہ جاپان وہ ملک
ہے جہاں مودی ایک بار اپنے وقار کو داوں پر لگا کر ڈھول بجا چکے ہیں ۔
جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے سے مودی کے تعلقات بہت پرانے ہیں ۔ انہوں نے
بھی بلاتکلف اپنا ہندوستان کا دورہ منسوخ کرکے مودی جی کا بینڈ بجا دیا۔
مودی سرکارجن ممالک کے معتوب غیر مسلمین کو یہاں لاکر بسانا چاہتی ہےان کا
حال نہایت دلچسپ ہے ۔ سب سے پہلا اور سخت ردعمل بنگلا دیش کے وزیرخارجہ کے
دورے کی منسوخی سے سامنےآیا۔انہوں نےاپنے ملک میں اقلیتوں کو ستائے جانے
کے الزام کوخارج کردیا ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اس کے خلاف قرار داد منظور
کرلی اورپاکستان کے ہندو عوام و خواص نے علی الاعلان ہندوستان کی مخالفت
کرکے ساری دنیا میں شاہ جی کی جگ ہنسائی کروادی ۔ آخرمیں افغانستان سے ایک
وفد نے آکر اجیت ڈوبھال سے ملاقات کی تو ڈوبھال نے خوداعتراف کرلیا کہ
اشرف غنی کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک نہیں ہوتا ۔ اس طرح شاہ جی
کے غبارے کی ہوا پوری طرح نکل گئی اور شہریت ترمیم کا قانون اپنے آپ پچک
گیا۔
موجودہ صورتحال میں عوام کے ملک گیر احتجاج نے حکومت کو نہ صرف شہریت ترمیم
بل میں پیچھے ہٹنے پر بلکہ این آر سی کے حوالے سے بھی صفائی پیش کرنے
پرمجبور کردیا ہے ۔ اس صورتحال کو سورۂ رعد کی ان آیت کے ساتھ جوڑ کر
دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ آج نازل ہورہی ہیں ۔ ارشادِ ربانی
ہے’’اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں، مگر
اصل فیصلہ کن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جانتا ہے کہ
کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرین حق دیکھ لیں گے کہ
انجام کس کا بخیر ہوتا ہے‘‘ ۔ اس دنیوی رسوائی کو دیکھ کر اندازہ لگایا
جاسکتا ہے آخرت میں انجام کس قدر بھیانک ہوگا۔
|