بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے پاکستان کے ایک روزہ دورہ
کے دوران وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں
کی ہیں۔ اپنے پہلے دورہ پاکستان میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان اورشاہ
محمود قریشی سے ہونیو الی ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی اور علاقائی امور پر
تبادلہ خیال کیا۔ سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ کو بین الاقوامی سطح پر
غیر معمولی کوریج دی گئی ۔ یہ دورہ ایسے موقع پر کیا گیا جب حال ہی میں
پاکستان نے ملائشیاکے دارالحکومت کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی
اس لئے ان کی وطن عزیز آمد کو بھی اسی دورہ کے تناظر میں دیکھا گیا۔سعودی
عرب اور پاکستان کے تعلقات میں دراڑ پیدا کرنے کی سازشیں کرنے والی مخصوص
لابی سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان پر بھی متحرک رہی اور بے پر کی
اڑانے کی کوششیں کی گئیں۔ بعض ملک اور ان کے تنخواہ دار ایجنٹ اس وقت مسلم
امہ کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اوراس کیلئے تمامتر ذرائع اور وسائل
استعمال کرتے ہوئے اخوانی سوچ پروان چڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
کوالالمپور کانفرنس کے حوالہ سے بہت خوبصورت انداز میں باتیں کی گئیں اور
ظاہر کیا گیا کہ شائد او آئی سی کے متبادل ابھی ایک نیا پلیٹ فارم بنے گا
اورپھر امت کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے لیکن جب کانفرنس ہوئی تو اس میں
صرف ایران، ترکی اور قطر کے سربراہان مملکت شریک ہوئے باقی ستاون میں سے
بیس کے قریب ملکوں نے اپنے نمائندے بھیج کرحاضری ڈالی۔عالمی ذرائع ابلاغ نے
اس صورتحال کو ملائشیا کانفرنس کی ناکامی سے تعبیر کیا مگر سعودی عرب مخالف
قطری ملکیت والے ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ نے یہ کہتے ہوئے پیالی میں طوفان
برپا کرنے کی کوشش کی کہ اچھا ہوا اس کانفرنس میں تین ملکوں کے سربراہان
شریک ہوئے اس سے اپنی مرضی کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ جب
زیادہ ملکوں کے سربراہان شریک ہوتے ہیں تو پھر تقسیم ہوتی ہے اور بے عملی
زیادہ ہوتی ہے۔ قطری ٹی وی چینل کی اس گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
حالات کو کس رخ پر لیجانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذکورہ کانفرنس سے متعلق
کچھ بھی کہا جائے لیکن عالمی سطح پر اسے ایک ایسے نئے اتحاد کے طور پر
دیکھا جارہا ہے جو سعودی مخالف ہے اور جس میں ایران، ترکی اور قطر مل کر
برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو اسلامی دنیا کی حمایت سے محروم کرنا چاہتے
ہیں۔
پاکستان نے ملائشیا کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور مضبوط موقف
اختیار کیا کہ وہ ایسے کسی سمٹ میں شرکت نہیں کر سکتا جس سے مسلم دنیا کے
مزید تقسیم ہونے کا اندیشہ ہو۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلہ پر اگرچہ حالات
سے آگاہی نہ رکھنے والے بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی اور کہا
گیاکہ اس سے ملائشیا اور ترکی ناراض ہوں گے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اگر
پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہوگا توپھر اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟اگر ہم
حقائق پر غور کریں تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک سعودی عرب نے جس طرح ہر
مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیااورخاص طور پر پاکستان کو معاشی مشکلات سے
نکالنے کی کوششیں کی ہیں کیا کوئی دوسرا ملک اس کا مقابلہ کر سکتا
ہے؟۔زیادہ دورنہ جائیں ابھی ایک سال قبل ہی جب پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے
کیلئے مالی امداد کی ضرورت تھی تو ملائشیا اور ترکی میدان میں آئے تھے یا
سعودی عرب نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا؟۔ یہ مسلمانوں کا دینی مرکز سعودی
عرب ہی تھا جس نے صرف ایک سال میں تین ارب ڈالر نقد دیے اور تین سال کیلئے
9.6ارب ڈالر کا تیل ادھار دے کر پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچنے میں مدد
فراہم کی۔ اسی طرح کل پانچ ارب ڈالر کا قرض انتہائی آسان شرائط پر دیا گیا
جس کی مدت میں چند دن قبل ایک سال کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر
متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو دو ارب ڈالر دیے۔ دونوں ملکوں نے پچھلے
ایک سال میں حکومت پاکستان سے سرمایہ کاری کے کئی معاہدے کئے جن میں دو آئل
ریفائنریوں کیلئے کئے جانے والے معاہدے بھی شامل ہیں جو 16ارب ڈالر کے
ہیں۔یعنی آج اگر وزیراعظم عمران خان یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت
مشکل دور سے نکل آئی ہے اور 2020ترقی کا سال ہو گا تو اس میں یقینی طور پر
سعودی عرب کا سب سے بڑا کردار ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ
اصول ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات میں سبھی باتیں سامنے رکھی جاتی ہیں۔ محض
چند ایک بیانات اور اچھی تقریریں دیکھ کر اپنے دوست اور محسن تبدیل نہیں
کئے جاسکتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ سعودی عرب سے تعلقات بحال رکھیں اور اس
کی مخالف لابی میں شامل دو تین ملکوں سے تعلق ختم کر دیں، ایسا نہیں ہے اور
نہ ہی ایسی سوچ کسی طرف پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط ہونی
چاہیے اور ہر ملک سے اچھے تعلقات اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ ہونا
چاہیے ۔ دیکھا جائے تو ماضی میں ایسا رہا بھی ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ
میڈیا کے ذریعہ پاکستان پر سعودی عرب سے تعلقات کمزور کر کے دوسرے ایک ، دو
ملکوں سے تعلقات بڑھانے پر زور دیا جائے۔ یہ انداز قطعی طور پر درست نہیں
ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی پاکستانی دل سے عزت کرتے ہیں لیکن ان کے
اس بیان کہ پاکستان کو سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ وہ ملائشیا کانفرنس
میں شرکت نہ کرے وگرنہ جتنے پاکستانی ان کے ملک میں کام کرتے ہیں انہیں
نکال کر بنگلہ دیشیوں کو بھرتی کر لیا جائے گا‘اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔
ان کے اس بیان کو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کی
کوشش قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم سعودی سفارت خانے نے بھی اس
دعویٰ کی سختی سے تردید کی اور کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ہر قسم کے
مفادات اور دھمکیوں سے بالاتر ہیں۔سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا
ساتھ دیاہے اور پاک سعودی تعلقات اسلامی اخوت کے رشتوں پر قائم ہیں جنہیں
کمزور نہیں کیا جاسکتا۔سعودی سفارت خانے کی اس وضاحت سے بھی سارا معاملہ
کھل کر واضح ہوجاتا ہے کہ اصل حقیقت یہ نہیں ہے جو ظاہرکرنے کی کوشش کی گئی
ہے
ملائشیا کانفرنس کے موقع پر یہ پروپیگنڈا بھی بہت شدومد سے کیا گیا کہ او
آئی سی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے ایک نیا پلیٹ
فارم تشکیل دینا بہت ضروری ہے مگر یہاں بھی دیکھنا چاہیے کہ جو ملک اس کی
مخالفت کر رہے ہیں ان کا اپنا کردار اس فورم پرکیا رہا ہے؟۔ صرف سوشل میڈیا
کے ذریعہ جذباتیت گھول کر حقائق تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ سعودی عرب کے خلاف
پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے لیکن
عملی طو رپر فلسطینی مسلمانوں کی جتنی مدد سعودی عرب نے کی ہے وہ کوئی اور
ملک نہیں کر سکا۔ اس کے برعکس ہم دیکھیں توبرادر ملک پر تنقید کرنے والے
رجب طیب اردگان کے ملک ترکی نے 1949سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو بطور
ریاست تسلیم کر رکھا ہے۔ اردگان کی پارٹی جب برسراقتدار آئی تو ترکی اور
اسرائیل کے مابین(مشروع انابیب السلام) پانی کا معاہدہ ہواجس کے تحت ترکی
اسرائیل کو شام کے راستے سالانہ پچاس ملین ٹن پانی سپلائی کرنے کا ارادہ
رکھتا ہے۔ ترکی او آئی سی کا رکن ہونے کے باوجود اسرائیل سے تعلقات پروان
چڑھاتا رہا اور اس وقت ترکی کی اسرائیل سے تجارت پانچ بلین ڈالر تک پہنچ
چکی ہے۔ یہ رجب طیب اردگان ہی تھے جنہوں نے 2005میں اسرائیلی صدر شمعون
پیریز کو دورہ کی دعوت دی اور دو سال بعد اسرائیلی صدر نے 2007ء میں ترکی
کا دورہ کیا جہاں ان کا اس قدر پرجوش استقبال کیا گیا کہ انہیں ترک
پارلیمنٹ سے باقاعدہ خطاب کی دعوت دی گئی، یوں یہ کسی بھی اسلامی دنیا کے
ملک کی پہلی پارلیمنٹ تھی جہاں فلسطینیوں کے قاتل اسرائیلی صدر شمعون پیریز
نے خطاب کیا اور ان کی زبردست پذیرائی کی گئی۔ ترکی اور اسرائیل کے مابین
تعلقات کے حوالہ سے کئی اہم باتیں اور حقائق ہیں جنہیں بیان کیا جاسکتا ہے
لیکن یہاں محض اشارہ مقصود تھا کہ محض دوسروں پر تنقید کرنادرست نہیں ہے ہر
ملک کو اپنے کردار ، معاملات اورکمزوریوں کا خود بھی جائزہ لینا
چاہیے۔بہرحال پاکستان اور سعودی عرب میں جس طرح کے برادرانہ اور سٹریٹیجک
تعلقات ہیں وہ ایک دو کانفرنسوں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کے ذریعے
کمزور نہیں کئے جاسکتے۔ دونوں ملک مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں قائدانہ
کردار ادا کرتے رہیں گے اور انکا باہمی تعلق کمزور کرنے کی سازشیں ان شاء
اﷲ کسی طور کامیاب نہیں ہوں گی۔ |