جھارکھنڈ ایک نیا صوبہ ہے جس کی تشکیل ۲۰۰۰ میں ہوئی ۔
اس کانام اگر اترپردیش یا مدھیہ پردیش کے قافیہ پر رکھا جاتا تو جنگل پردیش
ہوتااس لیے کہ پیڑ کو کھڑی بولی میں جھاڑ بھی کہا جاتا ہے ۔ بی جے پی کے
جنگل راج نے اس دشستستان کو لنچستان بنادیا۔ اس سے تنگ آکر صوبے کی عوام
نے کمل کو سیاسی بناباس پر روانہ کردیا۔ بہار سے الگ کرکے بنایا جانے والا
یہ صوبہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے چودھویں نمبر پر ہے علاقہ کے اعتبار سے
۱۴ ریاستیں اس سے بڑی ہیں ۔مودی یگ میں ویسے تو ہجومی تشدد کی ابتداء اتر
پردیش کے محمد اخلاق سے ہوئی لیکن اس کے ۶ ماہ بعد جھارکھنڈ میں محمد مظلوم
اور امتیاز خان نام مویشی کے تاجروں سے بازار جاتے ہوئے ایک گئو بھکت بھیڑ
نےان کے جانور چھین لیے اور انہیں گائے کے نام پر قتل کرکے لاشوں کو پیڑ سے
لٹکا دیا۔ اسی طرح علیم الدین انصاری کو بھی گئوبھکتی کی بھینٹ چڑھا دیا
گیا۔ ایسی بہیمانہ حرکت کرنے والے مجرموں کی جب ضمانت ہوئی تو مرکزی وزیر
جینت سنہا نے گلپوشی کرکے ان کی پذیرائی کی۔ اس صوبے کو یہ امتیاز بھی حاصل
ہے کہ یہاں محمد مظلوم کا بہیمانہ قتل کرنے والے ۸ مجرمین کو سزائے موت دی
گئی اور علیم الدین انصاری کے ۱۱ قاتلوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ کاش
کہ بی جے پی کی یہ انتخابی ناکامی بھی دائمی ہو۔
جھارکھنڈ میں اس سال انتخابی ماحول کی تیاری کا کام ماہ ِ جون سے شروع
ہوگیا جب مہاراشٹر کے شہر پونے میں ویلڈر کے طور پر کام کرنے والے تبریز
انصاری کو ایک ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور الٹا اس پر مویشی چوری کا
الزام منڈھ دیا ۔ گودی میڈیا ابھی تبریز کی موت کا جواز پیش ہی کررہا تھا
کہ قاتلوں کی ڈھٹائی سے تیارکردہ ویڈیو نے سارا کھیل بگاڑ دیا ۔ اس ویڈیو
میں مجرم تبریز کو زدوکوب کرتے ہوئے جئے شری رام کا نعرہ لگوا رہے تھے ۔ اس
پر ساری دنیا ہنگامہ ہوا تو زیر اعظم نے ایوانِ پارلیمان میں پہلی بار
ہجومی تشدد پر افسوس جتایا لیکن وہاں بھی سیاست کرنے سے نہیں چوکے ۔ انہوں
نے کہا جو ہوا غلط تھا اور مجرم کو سزا ملنی چاہیے اس کے لیے صوبے کو
لنچستان کہہ کر بدنام نہ کیا جائے ۔ وہ دراصل اپنی صوبائی حکومت کا دفاع
کررہے تھے اور دھمکی دے رہے تھے کہ جھارکھنڈ کو لنچستان کہنے والوں کو عوام
سزا دے گی ۔ عوام نے تو بی جے پی کو سزا دے دی ۔ تبریز کے قاتلوں کو بچانے
کی کوشش کرنے والی صوبائی حکومت کو مودی جی بچا نہیں سکے اور وہ اپنے قرار
واقعی انجام کو پہنچ گئی ۔اس انتخابی مہم کے دوران ۶ ملزمین کو ضمانت پر
رہا کرواکر ہندو انتہا پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی مذموم سعی بھی کام
نہ آئی ۔
ہجومی تشدد اور اس طرح کے دیگر کئی سنگین مسائل سے دوچار جھارکھنڈ میں
بانتخابی مہم کے دوران وزیراعظم شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف احتجاج کرنے
والے مظاہرین کو لباس سے پہچاننے کی دھمکی دے رہے تھے۔ اپنی متوقع شکست سے
اس قدر حواس باختہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے حزب اختلاف کو چیلنج کردیا کہ وہ
سارے پاکستانیوں کو شہریت دینے کا اعلان کرے اور دفع ۳۷۰ کو دوبارہ نافذ
کرنے کا اعلان کرے حالانکہ ان چیزوں کا وہاں کی عوام سے کوئی دور کا واسطہ
بھی نہیں تھا ۔ان کے دست راست وزیرداخلہ امیت شاہ رام مندر کے نام پر ووٹ
مانگ رہے تھےاور چار ماہ کے اندر شاندار رام مندر کی تعمیر کا جھوٹا وعدہ
کررہے تھے ۔ جھارکھنڈ میں جب بی جے پی کی دال گلنے میں مشکلات پیش آئیں تو
یوگی ادیتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا گیا۔ گیروا لباس میں یوگی لوگوں کو
رام مندر کے نام پر ورغلانے کے سوا اور کر بھی سکتے ہیں ۔
کانگریس کے صوبائی کارگذار صدر اور رکن اسمبلی عرفان انصاری کے خلاف ہندو
عوام کے جذبات بھڑکانے کی خاطر ان کے حلقۂ انتخاب جمتاڑہ میں یوگی جی نے
کہا رام کا مندر تو کوئی عرفان انصاری نہیں بنائے گا یہ کام تو بریندر منڈل
ہی کر سکتا ہے۔ اس کے بعد یوگی جی رام مندر سے عقیدت اور اس کی اہمیت بتانے
لگے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمتاڑہ کا بریندر منڈل بھلا ایودھیا میں
رام مندر کیسے بنا سکتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے
کی سڑک بنانے کے بجائے ایودھیا کیوں جائے؟ یہ تو خود یوگی کے کرنے کا کام
ہے لیکن چونکہ بھکت سوال نہیں کرتے اس لیے ان کوبہ آسانی بیوقوف بنایا
جاتا ہے ۔ یوگی جی کے پر چار کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ عرفان انصاری نے
پچھلی مرتبہ بریندر منڈل کو صرف ۹ ہزار کے فرق سے ہرایا تھامگر اس بار ۳۸
ہزار کے فرق سےہرایا یعنی چار گنا بڑی کامیابی حاصل کی ۔ یہی کام یوگی جی
نے ممبئی میں کانگریس کے کمزورامیدوار اسلم شیخ کے ساتھ کرکے کامیاب
کرادیا۔ آئندہ انتخاب میں مسلم کانگریسیوں کو چاہیے اپنی نیاّ پار لگوانے
کے لیے یوگی جی کی خدمات حاصل کریں ۔
عرفان انصاری پر بی جے پی والوں کی نظرِ خاص رہتی ہے۔عرفان انصاری نے سابق
وزیر سی پی سنگھ کو کیمرے کے سامنے جب یہ کہہ دیا کہ ’رام سب کے ہیں
‘توسنگھ صاحب ان سے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر اصرار کرنے لگے ۔ انہوں
نے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارے آبا و اجداد بابر نہیں رام ہیں ۔ تم
رام ہی کے ونشج ہو، انھیں کا خون ہو، انھی کی اولاد ہو۔ وہی تمھارے پوروج
یعنی اسلاف ہیں بلکہ آگے بڑھ کر یہ بھی بول گئے کہ تم لوگ بابر، تیمور
لنگ، غزنی اور غوری کی اولاد نہیں ہو۔ اس اشتعال انگیزی پر خود کو قابو میں
رکھتے ہوئے عرفان انصاری نے صبر و ضبط سے جواب دیا کہ رام کا نام بدنام مت
کیجیے۔ لوگوں کو نوکری چاہیے۔ سڑکیں چاہئیں۔ بجلی چاہیے۔ وہ نالیوں کی
صفائی چاہتے ہیں۔ جاکر ایودھیا میں دیکھو کہ رام کس حالت میں پڑے ہیں۔
غالباً اس جواب سے خوش ہوکر کانگریس نے عرفان انصاری کو صوبے میں کارگزار
صدر بنادیا اور اب وہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ سچ تو
یہ ہے اس انتخاب میں عوام نے بی جے پی اور یوگی کو صاف پیغام دیا ہے کہ
جذباتی نوٹنکی چھوڑو اور ٹھوس کام کرو ورنہ بوریہ بستر گول ہوجائے گا اور
اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیا لیکن بیچارے زعفرانی جذباتی استحصال کرنے کے
علاوہ اپنے اندر کوئی اور صلاحیت بھی تو نہیں رکھتے۔اس موقع پر مسلمانوں نے
سب سے زیادہ ووٹ کے فرق(۶۵ ہزار ) سے عالمگیر عالم کو کامیاب کرکے تبریز کی
موت کا بلا واسطہ بدلہ بھی لے لیا۔
(۰۰۰۰۰جاری) |